سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
حدیث نمبر: 3565
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا يحيى بن آدم، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا عاد مريضا قال: " اللهم اذهب الباس رب الناس، واشف فانت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما ". قال ابو عيسى: هذا حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَادَ مَرِيضًا قَالَ: " اللَّهُمَّ أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بیمار کی عیادت کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم أذهب البأس رب الناس واشف فأنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ! اے لوگوں کے رب! عذاب و تکلیف کو دور کر دے اور شفاء دیدے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیری دی ہوئی شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں ہے، ایسی شفاء دے کہ بیماری کچھ بھی باقی نہ رہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10050) (حسن) (حارث اعور ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، صحیحین میں یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے آئی ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
113. باب فِي دُعَاءِ الْوِتْرِ
113. باب: وتر کی دعا کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3566
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا حماد بن سلمة، عن هشام بن عمرو الفزاري، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن علي بن ابي طالب، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في وتره: " اللهم إني اعوذ برضاك من سخطك، واعوذ بمعافاتك من عقوبتك، واعوذ بك منك لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت على نفسك ". قال: هذا حسن غريب حديث علي، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي وِتْرِهِ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدِيثِ عَلِيٍّ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی (نماز) وتر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث علی کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، یعنی حماد ابن سلمہ کی روایت سے۔
فائدہ ۱؎: اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے بچ کر تیری رضا و خوشنودی کی پناہ میں آتا ہوں، اے اللہ! میں تیرے عذاب و سزا سے بچ کر تیرے عفو و درگزر کی پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیرے غضب سے، میں تیری ثناء (تعریف) کا احاطہٰ و شمار نہیں کر سکتا تو تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے آپ کی ثناء و تعریف کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 340 (1427)، سنن النسائی/قیام اللیل 51 (1748)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 117 (1179) (تحفة الأشراف: 10207)، و مسند احمد (1/96، 118، 150) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1179)
114. باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَعَوُّذِهِ دُبُرَ كُلِّ صَلاَةٍ
114. باب: نماز کے اخیر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی دعاؤں اور معوذات کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3567
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله هو ابن عمرو الرقي، عن عبد الملك بن عمير، عن مصعب بن سعد، وعمرو بن ميمون , قالا: كان سعد يعلم بنيه هؤلاء الكلمات كما يعلم المكتب الغلمان ويقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يتعوذ بهن دبر الصلاة: " اللهم إني اعوذ بك من الجبن، واعوذ بك من البخل، واعوذ بك من ارذل العمر، واعوذ بك من فتنة الدنيا وعذاب القبر ". قال عبد الله بن عبد الرحمن: ابو إسحاق الهمداني مضطرب في هذا الحديث، ويقول: عن عمرو بن ميمون، عن عمر، ويقول: عن غيره ويضطرب فيه. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، وَعَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ , قَالَا: كَانَ سَعْدٌ يُعَلِّمُ بَنِيهِ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ كَمَا يُعَلِّمُ الْمُكَتِّبُ الْغِلْمَانَ وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ بِهِنَّ دُبُرَ الصَّلَاةِ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ مُضْطَرِبٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَيَقُولُ: عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عُمَرَ، وَيَقُولُ: عَنْ غَيْرِهِ وَيَضْطَرِبُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ هَذَا الْوَجْهِ.
مصعب بن سعد اور عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اپنے بیٹوں کو یہ کلمے ایسے ہی سکھاتے تھے جیسا کہ چھوٹے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے والا معلم سکھاتا ہے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ ہر نماز کے اخیر میں اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (وہ کلمے یہ تھے): «اللهم إني أعوذ بك من الجبن وأعوذ بك من البخل وأعوذ بك من أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وعذاب القبر» اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں بزدلی سے، اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں کنجوسی سے، اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں ذلیل ترین عمر سے (یعنی اس بڑھاپے سے جس میں عقل و ہوس کچھ نہ رہ جائے) اور پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح ہے،
۲- عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں: ابواسحاق ہمدانی اس حدیث میں اضطرب کا شکار تھے، کبھی کہتے تھے: روایت ہے عمرو بن میمون سے اور وہ روایت کرتے ہیں عمر سے، اور کبھی کسی اور سے کہتے اور اس روایت میں اضطراب کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 125 (2822)، والدعوات 37 (6365)، و41 (6370)، و44 (6374)، و56 (6390)، سنن النسائی/الاستعاذة 5 (5447)، و6 (5449) (تحفة الأشراف: 2910، و2932)، و مسند احمد (1/183، 186) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3568
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا اصبغ بن الفرج، اخبرني عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث انه اخبره، عن سعيد بن ابي هلال، عن خزيمة، عن عائشة بنت سعد بن ابي وقاص، عن ابيها، انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على امراة وبين يديها نوى، او قال حصى تسبح به، فقال: " الا اخبرك بما هو ايسر عليك من هذا او افضل؟ سبحان الله عدد ما خلق في السماء، وسبحان الله عدد ما خلق في الارض، وسبحان الله عدد ما بين ذلك، وسبحان الله عدد ما هو خالق، والله اكبر مثل ذلك، والحمد لله مثل ذلك، ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك ". قال ابو عيسى: وهذا حسن غريب حديث سعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوًى، أَوْ قَالَ حَصًى تُسَبِّحُ بِهِ، فَقَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الْأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدِيثِ سَعْدٍ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عورت کے پاس گئے، اس کے آگے کھجور کی گٹھلیاں تھیں یا کنکریاں، ان کے ذریعہ وہ تسبیح پڑھا کرتی تھی، آپ نے اس سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے آسان طریقہ نہ بتا دوں؟ یا اس سے افضل و بہتر طریقہ نہ بتا دوں؟ (کہ ثواب میں بھی زیادہ رہے اور لمبی چوڑی گنتی کرنے سے بھی بچا رہے) وہ یہ ہے: «سبحان الله عدد ما خلق في السماء، وسبحان الله عدد ما خلق في الأرض، وسبحان الله عدد ما بين ذلك، وسبحان الله عدد ما هو خالق، والله أكبر مثل ذلك، والحمد لله مثل ذلك، ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك» پاکی ہے اللہ کی اتنی جتنی اس نے آسمان میں چیزیں پیدا کی ہیں، اور پاکی ہے اللہ کی اتنی جتنی اس نے زمین میں چیزیں پیدا کی ہیں، اور پاکی ہے اس کی اتنی جتنی کہ ان دونوں کے درمیان چیزیں ہیں، اور پاکی ہے اس کی اتنی جتنی کہ وہ (آئندہ) پیدا کرنے والا ہے، اور ایسے ہی اللہ کی بڑائی ہے اور ایسے ہی اللہ کے لیے حمد ہے اور ایسے ہی لا حول ولا قوۃ ہے، (یعنی اللہ کی مخلوق کی تعداد کے برابر)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث سعد کی روایت سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 359 (1500) (تحفة الأشراف: 3954) (منکر) (سند میں خزیمہ مجہول راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: منكر الرد على التعقيب الحثيث ص (23 - 35)، المشكاة (2311)، الضعيفة (83)، الكلم الطيب (13 / 4) // ضعيف الجامع الصغير (2155) //
حدیث نمبر: 3569
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الله بن نمير، وزيد بن حباب , عن موسى بن عبيدة، عن محمد بن ثابت، عن ابي حكيم خطمي مولى الزبير , عن الزبير بن العوام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صباح يصبح العبد فيه إلا ومناد ينادي: سبحان الملك القدوس ". قال ابو عيسى: وهذا غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَزَيْدُ بْنُ حُبَابٍ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَكِيمٍ خَطْمِيٌ مَوْلَى الزُّبَيْرِ , عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَبَاحٍ يُصْبِحُ الْعَبْدُ فِيهِ إِلَّا وَمُنَادٍ يُنَادِي: سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا غَرِيبٌ.
زبیر بن عوام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی صبح ایسی نہیں ہے کہ اللہ کے بندے صبح کرتے ہوں اور اس صبح میں کوئی پکار کر کہنے والا یہ نہ کہتا ہو کہ «سبحان الملك القدوس» کی تسبیح پڑھا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3647) (ضعیف) (سند میں ”موسیٰ بن عبیدہ“ ضعیف، اور ان کے استاذ ”محمد بن ثابت“ مجہول ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4496) // ضعيف الجامع الصغير (5188) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3569) إسناده ضعيف
موسي بن عبيدة: ضعيف كما تقدم (1122) وشيخه محمد بن ثابت: مجهول (تق:5772)
115. باب فِي دُعَاءِ الْحِفْظِ
115. باب: (قرآن) حفظ کرنے کی دعا کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3570
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا ابن جريج، عن عطاء بن ابي رباح، وعكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس انه قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءه علي بن ابي طالب , فقال: بابي انت وامي تفلت هذا القرآن من صدري فما اجدني اقدر عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا الحسن افلا اعلمك كلمات ينفعك الله بهن وينفع بهن من علمته ويثبت ما تعلمت في صدرك؟ " , قال: اجل يا رسول الله، فعلمني، قال: " إذا كان ليلة الجمعة فإن استطعت ان تقوم في ثلث الليل الآخر , فإنها ساعة مشهودة والدعاء فيها مستجاب، وقد قال اخي يعقوب لبنيه: سوف استغفر لكم ربي يقول: حتى تاتي ليلة الجمعة فإن لم تستطع , فقم في وسطها، فإن لم تستطع , فقم في اولها فصل اربع ركعات، تقرا في الركعة الاولى بفاتحة الكتاب , وسورة يس، وفي الركعة الثانية بفاتحة الكتاب , وحم الدخان، وفي الركعة الثالثة بفاتحة الكتاب , و الم تنزيل السجدة، وفي الركعة الرابعة بفاتحة الكتاب , و تبارك المفصل، فإذا فرغت من التشهد , فاحمد الله , واحسن الثناء على الله , وصل علي , واحسن , وعلى سائر النبيين، واستغفر للمؤمنين , والمؤمنات , ولإخوانك الذين سبقوك بالإيمان، ثم قل في آخر ذلك: اللهم ارحمني بترك المعاصي ابدا ما ابقيتني، وارحمني ان اتكلف ما لا يعنيني، وارزقني حسن النظر فيما يرضيك عني، اللهم بديع السموات والارض ذا الجلال والإكرام والعزة التي لا ترام، اسالك يا الله يا رحمن بجلالك , ونور وجهك ان تلزم قلبي حفظ كتابك كما علمتني، وارزقني ان اتلوه على النحو الذي يرضيك عني، اللهم بديع السموات والارض ذا الجلال والإكرام والعزة التي لا ترام، اسالك يا الله يا رحمن بجلالك ونور وجهك ان تنور بكتابك بصري، وان تطلق به لساني، وان تفرج به عن قلبي، وان تشرح به صدري، وان تغسل به بدني، لانه لا يعينني على الحق غيرك، ولا يؤتيه إلا انت، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، يا ابا الحسن تفعل ذلك ثلاث جمع، او خمس، او سبع تجاب بإذن الله، والذي بعثني بالحق ما اخطا مؤمنا قط "، قال عبد الله بن عباس: فوالله ما لبث علي إلا خمسا او سبعا حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في مثل ذلك المجلس، فقال: يا رسول الله إني كنت فيما خلا لا آخذ إلا اربع آيات او نحوهن، وإذا قراتهن على نفسي تفلتن، وانا اتعلم اليوم اربعين آية او نحوها وإذا قراتها على نفسي فكانما كتاب الله بين عيني، ولقد كنت اسمع الحديث فإذا رددته تفلت وانا اليوم اسمع الاحاديث فإذا تحدثت بها لم اخرم منها حرفا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: " مؤمن ورب الكعبة يا ابا الحسن ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الوليد بن مسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَعِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ , فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي تَفَلَّتَ هَذَا الْقُرْآنُ مِنْ صَدْرِي فَمَا أَجِدُنِي أَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهِنَّ وَيَنْفَعُ بِهِنَّ مَنْ عَلَّمْتَهُ وَيُثَبِّتُ مَا تَعَلَّمْتَ فِي صَدْرِكَ؟ " , قَالَ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَعَلِّمْنِي، قَالَ: " إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَقُومَ فِي ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ , فَإِنَّهَا سَاعَةٌ مَشْهُودَةٌ وَالدُّعَاءُ فِيهَا مُسْتَجَابٌ، وَقَدْ قَالَ أَخِي يَعْقُوبُ لِبَنِيهِ: سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي يَقُولُ: حَتَّى تَأْتِيَ لَيْلَةُ الْجُمْعَةِ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ , فَقُمْ فِي وَسَطِهَا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ , فَقُمْ فِي أَوَّلِهَا فَصَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، تَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , وَسُورَةِ يس، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , وحم الدُّخَانِ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , وَ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ، وَفِي الرَّكْعَةِ الرَّابِعَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , وَ تَبَارَكَ الْمُفَصَّلَ، فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ التَّشَهُّدِ , فَاحْمَدِ اللَّهَ , وَأَحْسِنِ الثَّنَاءَ عَلَى اللَّهِ , وَصَلِّ عَلَيَّ , وَأَحْسِنْ , وَعَلَى سَائِرِ النَّبِيِّينَ، وَاسْتَغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ , وَالْمُؤْمِنَاتِ , وَلِإِخْوَانِكَ الَّذِينَ سَبَقُوكَ بِالْإِيمَانِ، ثُمَّ قُلْ فِي آخِرِ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي بِتَرْكِ الْمَعَاصِي أَبَدًا مَا أَبْقَيْتَنِي، وَارْحَمْنِي أَنْ أَتَكَلَّفَ مَا لَا يَعْنِينِي، وَارْزُقْنِي حُسْنَ النَّظَرِ فِيمَا يُرْضِيكَ عَنِّي، اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ، أَسْأَلُكَ يَا أَللَّهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ , وَنُورِ وَجْهِكَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِي حِفْظَ كِتَابِكَ كَمَا عَلَّمْتَنِي، وَارْزُقْنِي أَنْ أَتْلُوَهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي يُرْضِيكَ عَنِّيَ، اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ، أَسْأَلُكَ يَا أَللَّهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ وَنُورِ وَجْهِكَ أَنْ تُنَوِّرَ بِكِتَابِكَ بَصَرِي، وَأَنْ تُطْلِقَ بِهِ لِسَانِي، وَأَنْ تُفَرِّجَ بِهِ عَنْ قَلْبِي، وَأَنْ تَشْرَحَ بِهِ صَدْرِي، وَأَنْ تَغْسِلَ بِهِ بَدَنِي، لَأنَّهُ لَا يُعِينُنِي عَلَى الْحَقِّ غَيْرُكَ، وَلَا يُؤْتِيهِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ، يَا أَبَا الْحَسَنِ تَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ، أَوْ خَمْسَ، أَوْ سَبْعَ تُجَابُ بِإِذْنِ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَا أَخْطَأَ مُؤْمِنًا قَطُّ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللَّهِ مَا لَبِثَ عَلِيٌّ إِلَّا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ الْمَجْلِسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ فِيمَا خَلَا لَا آخُذُ إِلَّا أَرْبَعَ آيَاتٍ أَوْ نَحْوَهُنَّ، وَإِذَا قَرَأْتُهُنَّ عَلَى نَفْسِي تَفَلَّتْنَ، وَأَنَا أَتَعَلَّمُ الْيَوْمَ أَرْبَعِينَ آيَةً أَوْ نَحْوَهَا وَإِذَا قَرَأْتُهَا عَلَى نَفْسِي فَكَأَنَّمَا كِتَابُ اللَّهِ بَيْنَ عَيْنَيَّ، وَلَقَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ الْحَدِيثَ فَإِذَا رَدَّدْتُهُ تَفَلَّتَ وَأَنَا الْيَوْمَ أَسْمَعُ الْأَحَادِيثَ فَإِذَا تَحَدَّثْتُ بِهَا لَمْ أَخْرِمْ مِنْهَا حَرْفًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: " مُؤْمِنٌ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَا أَبَا الْحَسَنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اسی دوران علی رضی الله عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ قرآن تو میرے سینے سے نکلتا جا رہا ہے، میں اسے محفوظ نہیں رکھ پا رہا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوالحسن! کیا میں تمہیں ایسے کلمے نہ سکھا دوں کہ جن کے ذریعہ اللہ تمہیں بھی فائدہ دے اور انہیں بھی فائدہ پہنچے جنہیں تم یہ کلمے سکھاؤ؟ اور جو تم سیکھو وہ تمہارے سینے میں محفوظ رہے، انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ضرور سکھائیے، آپ نے فرمایا: جب جمعہ کی رات ہو اور رات کے آخری تہائی حصے میں تم کھڑے ہو سکتے ہو تو اٹھ کر اس وقت عبادت کرو کیونکہ رات کے تیسرے پہر کا وقت ایسا وقت ہوتا ہے جس میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں، اور دعا اس وقت مقبول ہوتی ہے، میرے بھائی یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں سے کہا تھا: «سوف أستغفر لكم ربي» یعنی میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، آنے والی جمعہ کی رات میں، اگر نہ اٹھ سکو تو درمیان پہر میں اٹھ جاؤ، اور اگر درمیانی حصے (پہر) میں نہ اٹھ سکو تو پہلے پہر ہی میں اٹھ جاؤ اور چار رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ یٰسین پڑھو، دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اور حم دخان اور تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اور الم تنزیل السجدہ اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ اور تبارک (مفصل) پڑھو، پھر جب تشہد سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کی حمد بیان کرو اور اچھے ڈھنگ سے اللہ کی ثناء بیان کرو، اور مجھ پر صلاۃ (درود) بھیجو، اور اچھے ڈھنگ سے بھیجو اور سارے نبیوں صلاۃ پر (درود) بھیجو اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرو، اور ان مومن بھائیوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو، جو تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں، پھر یہ سب کر چکنے کے بعد یہ دعا پڑھو: «اللهم ارحمني بترك المعاصي أبدا ما أبقيتني وارحمني أن أتكلف ما لا يعنيني وارزقني حسن النظر فيما يرضيك عني اللهم بديع السموات والأرض ذا الجلال والإكرام والعزة التي لا ترام أسألك يا ألله يا رحمن بجلالك ونور وجهك أن تلزم قلبي حفظ كتابك كما علمتني وارزقني أن أتلوه على النحو الذي يرضيك عني اللهم بديع السموات والأرض ذا الجلال والإكرام والعزة التي لا ترام أسألك يا ألله يا رحمن بجلالك ونور وجهك أن تنور بكتابك بصري وأن تطلق به لساني وأن تفرج به عن قلبي وأن تشرح به صدري وأن تغسل به بدني فإنه لا يعينني على الحق غيرك ولا يؤتيه إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» اے اللہ! مجھ پر رحم فرما اس طرح کہ جب تک تو مجھے زندہ رکھ میں ہمیشہ گناہ چھوڑے رکھوں، اے اللہ! تو مجھ پر رحم فرما اس طرح کہ میں لا یعنی چیزوں میں نہ پڑوں، جو چیزیں تیری رضا و خوشنودی کی ہیں انہیں پہچاننے کے لیے مجھے حسن نظر (اچھی نظر) دے، اے اللہ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، ذوالجلال (رعب و داب والے) اکرام (عزت و بزرگی والے) ایسی عزت و مرتبت والے کہ جس عزت کو حاصل کرنے و پانے کا کوئی قصد و ارادہ ہی نہ کر سکے، اے اللہ! اے بڑی رحمت والے میں تیرے جلال اور تیرے تابناک و منور چہرے کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو میرے دل کو اپنی کتاب (قرآن پاک) کے حفظ کے ساتھ جوڑ دے، جیسے تو نے مجھے قرآن سکھایا ہے ویسے ہی میں اسے یاد و محفوظ رکھ سکوں، اور تو مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں اس کتاب کو اسی طریقے اور اسی ڈھنگ سے پڑھوں جو تجھے مجھ سے راضی و خوش کر دے، اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، (جاہ) و جلال اور بزرگی والے اور ایسی عزت والے جس عزت کا کوئی ارادہ (تمنا اور خواہش) ہی نہ کر سکے، اے اللہ! اے رحمن تیرے جلال اور تیرے چہرے کے نور کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو اپنی کتاب کے ذریعہ میری نگاہ کو منور کر دے (مجھے کتاب الٰہی کی معرفت حاصل ہو جائے، اور میری زبان بھی اسی کے مطابق چلے، اور اسی کے ذریعہ میرے دل کا غم دور کر دے، اور اس کے ذریعہ میرا سینہ کھول دے (میں ہر اچھی و بھلی بات کو سمجھنے لگوں) اور اس کے ذریعہ میرے بدن کو دھو دے (میں پاک و صاف رہنے لگوں) کیونکہ میرے حق پر چلنے کے لیے تیرے سوا کوئی اور میری مدد نہیں کر سکتا، اور نہ ہی کوئی تیرے سوا مجھے حق دے سکتا ہے اور اللہ جو برتر اور عظیم ہے اس کے سوا برائیوں سے پلٹنے اور نیکیوں کو انجام دینے کی توفیق کسی اور سے نہیں مل سکتی۔ اے ابوالحسن! ایسا ہی کرو، تین جمعہ، پانچ جمعہ یا سات جمعہ تک، اللہ کے حکم سے دعا قبول کر لی جائے گی، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس کو پڑھ کر کوئی مومن کبھی محروم نہ رہے گا، عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: قسم اللہ کی! علی رضی الله عنہ پانچ یا سات جمعہ ٹھہرے ہوں گے کہ وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسی ہی مجلس میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس سے پہلے چار آیتیں یا ان جیسی دو ایک آیتیں کم و بیش یاد کر پاتا تھا، اور جب انہیں دل میں آپ ہی آپ دہراتا تھا تو وہ بھول جاتی تھیں، اور اب یہ حال ہے کہ میں چالیس آیتیں سیکھتا ہوں یا چالیس سے دو چار کم و بیش، پھر جب میں انہیں اپنے آپ دہراتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے تو ان کتاب اللہ میری آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے (اور میں روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہوں) اور ایسے ہی میں اس سے پہلے حدیث سنا کرتا تھا، پھر جب میں اسے دہراتا تو وہ دماغ سے نکل جاتی تھی، لیکن آج میرا حال یہ ہے کہ میں حدیثیں سنتا ہوں پھر جب میں انہیں بیان کرتا ہوں تو ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: قسم ہے رب کعبہ کی! اے ابوالحسن تم مومن ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ولید بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5927، و6152) (موضوع) (سند میں ”ولید بن مسلم“ تدلیس تسویہ کرتے تھے، اور یہ روایت ان کی ان روایتوں میں سے ہے جن کو کسی کذاب اور واضاع سے لے کر ”عنعنہ“ کے ذریعہ تدلیس تسویہ کر دیا، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 3374)»

قال الشيخ الألباني: موضوع، التعليق الرغيب (2 / 214)، الضعيفة (3374)

قال الشيخ زبير على زئي: (3570) إسناده ضعيف
الوليد: مدلس وكان تدلس التسوية ولم يصرح بالسماع المسلسل (تقدم: 3291)
116. باب فِي انْتِظَارِ الْفَرَجِ وَغَيْرِ ذَلِكَ
116. باب: کشادگی اور خوشحالی وغیرہ کے انتظار کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3571
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن معاذ العقدي البصري، حدثنا حماد بن واقد، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سلوا الله من فضله فإن الله عز وجل يحب ان يسال، وافضل العبادة انتظار الفرج ". قال ابو عيسى: هكذا روى حماد بن واقد هذا الحديث، وقد خولف في روايته، وحماد بن واقد هذا هو الصفار ليس بالحافظ، وهو عندنا شيخ بصري، وروى ابو نعيم هذا الحديث، عن إسرائيل، عن حكيم بن جبير، عن رجل، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وحديث ابي نعيم اشبه ان يكون اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَنْ يُسْأَلَ، وَأَفْضَلُ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى حَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَدْ خُولِفَ فِي رِوَايَتِهِ، وَحَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ هَذَا هُوَ الصَّفَّارُ لَيْسَ بِالْحَافِظِ، وَهُوَ عِنْدَنَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ، وَرَوَى أَبُو نُعَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَحَدِيثُ أَبِي نُعَيْمٍ أَشْبَهُ أَنْ يَكُونَ أَصَحَّ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، اور افضل عبادت یہ ہے (کہ اس دعا کے اثر سے) کشادگی (اور خوش حالی) کا انتظار کیا جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حماد بن واقد نے ایسی ہی روایت کی ہے، اور ان کی روایت میں اختلاف کیا گیا ہے،
۲- حماد بن واقد یہ صفار ہیں، حافظ نہیں ہیں، اور یہ ہمارے نزدیک ایک بصریٰ شیخ ہیں،
۳- ابونعیم نے یہ حدیث اسرائیل سے، اسرائیل نے حکیم بن جبیر سے اور حکیم بن جبیر نے ایک شخص کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، اور ابونعیم کی حدیث صحت سے قریب تر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9515) (ضعیف) (سند میں ”حماد بن واقد“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (492) // ضعيف الجامع الصغير (3278) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3571) إسناده ضعيف
حماد الصفار: ضعيف (تق: 1508) وفي السند الآخر:حكيم بن جبير: ضعيف (تقدم:2878) وشيخه مجهول
حدیث نمبر: 3572
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا عاصم الاحول، عن ابي عثمان، عن زيد بن ارقم رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم إني اعوذ بك من الكسل والعجز والبخل ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وبهذا الإسناد، وبهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يتعوذ من الهرم وعذاب القبر ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْعَجْزِ وَالْبُخْلِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يَتَعَوَّذُ مِنَ الْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الكسل والعجز والبخل» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں، سستی و کاہلی سے، عاجزی و درماندگی سے اور کنجوسی و بخیلی سے، اور اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی آئی ہے کہ آپ پناہ مانگتے تھے بڑھاپے اور عذاب قبر سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 18 (2722)، سنن النسائی/الاستعاذة 13 (5460)، و65 (5540) (تحفة الأشراف: 3676)، و مسند احمد (4/371) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3573
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، اخبرنا محمد بن يوسف، عن ابن ثوبان، عن ابيه، عن مكحول، عن جبير بن نفير، ان عبادة بن الصامت حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما على الارض مسلم يدعو الله بدعوة إلا آتاه الله إياها او صرف عنه من السوء مثلها ما لم يدع بإثم، او قطيعة رحم "، فقال رجل من القوم: إذا نكثر، قال: " الله اكثر ". قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح غريب هذا الوجه، وابن ثوبان هو عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان العابد الشامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا عَلَى الْأَرْضِ مُسْلِمٌ يَدْعُو اللَّهَ بِدَعْوَةٍ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا أَوْ صَرَفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِذًا نُكْثِرَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْثَرُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَابْنُ ثَوْبَانَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ الْعَابِدُ الشَّامِيُّ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین پر کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو گناہ اور قطع رحمی کی دعا کو چھوڑ کر کوئی بھی دعا کرتا ہو اور اللہ اسے وہ چیز نہ دیتا ہو، یا اس کے بدلے اس کے برابر کی اس کی کوئی برائی (کوئی مصیبت) دور نہ کر دیتا ہو، اس پر ایک شخص نے کہا: تب تو ہم خوب (بہت) دعائیں مانگا کریں گے، آپ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5073) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 271 - 272)
117. باب
117. باب
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3574
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا جرير، عن منصور، عن سعد بن عبيدة، حدثني البراء، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا اخذت مضجعك , فتوضا وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الايمن , ثم قل: اللهم اسلمت وجهي إليك، وفوضت امري إليك , والجات ظهري إليك رغبة ورهبة إليك , لا ملجا ولا منجا منك إلا إليك، آمنت بكتابك الذي انزلت، ونبيك الذي ارسلت، فإن مت في ليلتك مت على الفطرة "، قال: فرددتهن لاستذكره، فقلت: آمنت برسولك الذي ارسلت، فقال: قل آمنت بنبيك الذي ارسلت. قال: وهذا حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن البراء، ولا نعلم في شيء من الروايات ذكر الوضوء إلا في هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ , فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ , ثُمَّ قُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ , وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ , لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ "، قَالَ: فَرَدَدْتُهُنَّ لِأَسْتَذْكِرَهُ، فَقُلْتُ: آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَقَالَ: قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ. قَالَ: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْبَرَاءِ، وَلَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنَ الرِّوَايَاتِ ذِكْرَ الْوُضُوءُ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ویسا ہی وضو کر کے جاؤ، پھر داہنے کروٹ لیٹو، پھر (یہ) دعا پڑھو: «اللهم أسلمت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» اے اللہ! میں تیرا تابع فرمان بندہ بن کر تیری طرف متوجہ ہوا، اپنا سب کچھ تجھے سونپ دیا، تجھ سے ڈرتے ہوئے اور رغبت کرتے ہوئے میں نے تیرا سہارا لیا، نہ تو میری کوئی امید گاہ ہے اور نہ ہی کوئی جائے نجات، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری ہے اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا ہے، پس اگر تو اپنی اس رات میں مر گیا تو فطرت (اسلام) پر مرے گا، براء رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے دعا کے ان الفاظ کو دہرایا تاکہ یاد ہو جائیں تو دہراتے وقت میں نے کہا: «آمنت برسولك الذي أرسلت» کہہ لیا تو آپ نے فرمایا: (رسول نہ کہو بلکہ) «آمنت بنبيك الذي أرسلت» کہو، میں ایمان لایا تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث براء بن عازب سے کئی سندوں سے آئی ہے مگر اس رات کے سوا کسی بھی روایت میں ہم یہ نہیں پاتے کہ وضو کا ذکر کیا گیا ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 75 (247)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 17 (2710)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 15 (3876) (تحفة الأشراف: 1763)، وسنن الدارمی/الاستئذان 51 (2725) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    19    20    21    22    23    24    25    26    27    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.