(موقوف)) وبإسناده، قال: وبإسناده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الظوا بيا ذا الجلال والإكرام ". قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب وقد روي هذا الحديث عن انس من غير هذا الوجه.(موقوف)) وَبِإِسْنَادِهِ، قَالَ: وَبِإِسْنَادِهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلِظُّوا بِيَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
اسی سند کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «يا ذا الجلال والإكرام»(اے بڑائی و بزرگی والے) کو لازم پکڑو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1677) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”یزید بن ابان رقاشی“ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: صحیحہ رقم 1536، اور اگلی سند)»
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا المؤمل، عن حماد بن سلمة، عن حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الظوا بيا ذا الجلال والإكرام ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وليس بمحفوظ، وإنما يروى هذا عن حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن البصري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا اصح ومؤمل غلط فيه، فقال: عن حماد، عن حميد، عن انس ولا يتابع فيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْمُؤَمِّلُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلِظُّوا بِيَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَصَحُّ وَمُؤَمَّلٌ غَلِطَ فِيهِ، فَقَالَ: عَنْ حَمَادٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ وَلَا يُتَابَعُ فِيهِ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يا ذا الجلال والإكرام» کو لازم پکڑو (یعنی: اپنی دعاؤں میں برابر پڑھتے رہا کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، محفوظ نہیں ہے، ۲- یہ حدیث حماد بن سلمہ نے حمید سے، انہوں نے حسن بصری کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ اور مومل سے اس میں غلطی ہوئی ہے، چنانچہ انہوں نے «عن حميد عن أنس» دیا، جبکہ اس میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے۔
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اپنے بستر پر پاک و صاف ہو کر سونے کے لیے جائے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اسے نیند آ جائے تو رات کے جس کسی لمحے میں بھی بیدار ہو کر وہ دنیا و آخرت کی جو کوئی بھی بھلائی، اللہ سے مانگے گا اللہ اسے وہ چیز ضروری عطا کرے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲- یہ حدیث شہر بن حوشب سے بطریق: «أبي ظبية عن عمرو بن عبسة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4889) (ضعیف) (سند میں ”شہر بن حوشب“ ضعیف ہیں، تراجع الالبانی 143)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 207)، المشكاة (1250)، الكلم الطيب (43 / 29)، التحقيق الثاني // ضعيف الجامع الصغير (5496) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3526) إسناده ضعيف ابن أبى حسين مكي حجازي و رواية إسماعيل بن عياش عن الحجاز يين ضعيفة (انظر الحديث المتقدم:131) ولبعض الحديث شواهد
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن الجريري، عن ابي الورد، عن اللجلاج، عن معاذ بن جبل، قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو، يقول: اللهم إني اسالك تمام النعمة، فقال: " اي شيء تمام النعمة؟ " قال: دعوة دعوت بها ارجو بها الخير، قال: " فإن من تمام النعمة دخول الجنة والفوز من النار "، وسمع رجلا وهو يقول: يا ذا الجلال والإكرام، فقال: " قد استجيب لك فسل "، وسمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا وهو يقول: اللهم إني اسالك الصبر، فقال: " سالت الله البلاء فسله العافية ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنِ اللَّجْلَاجِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو، يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ النِّعْمَةِ، فَقَالَ: " أَيُّ شَيْءٍ تَمَامُ النِّعْمَةِ؟ " قَالَ: دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا أَرْجُو بِهَا الْخَيْرَ، قَالَ: " فَإِنَّ مِنْ تَمَامِ النِّعْمَةِ دُخُولَ الْجَنَّةِ وَالْفَوْزَ مِنَ النَّارِ "، وَسَمِعَ رَجُلًا وَهُوَ يَقُولُ: يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، فَقَالَ: " قَدِ اسْتُجِيبَ لَكَ فَسَلْ "، وَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ، فَقَالَ: " سَأَلْتَ اللَّهَ الْبَلَاءَ فَسَلْهُ الْعَافِيَةَ ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا مانگتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا: «اللهم إني أسألك تمام النعمة»”اے اللہ! میں تجھ سے نعمت تامہ مانگ رہا ہوں“، آپ نے اس شخص سے پوچھا: ”نعمت تامہ کیا چیز ہے؟“ اس شخص نے کہا: میں نے ایک دعا مانگی ہے اور مجھے امید ہے کہ مجھے اس سے خیر حاصل ہو گی، آپ نے فرمایا: ”بیشک نعمت تامہ میں جنت کا دخول اور جہنم سے نجات دونوں آتے ہیں“۔ آپ نے ایک اور آدمی کو (بھی) دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہا تھا: ” «يا ذا الجلال والإكرام»“، آپ نے فرمایا: ”تیری دعا قبول ہوئی تو مانگ لے (جو تجھے مانگنا ہو)“، آپ نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا، «اللهم إني أسألك الصبر»”اے اللہ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں“، آپ نے فرمایا: ”تو نے اللہ سے بلا مانگی ہے اس لیے تو عافیت بھی مانگ لے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11358)، و مسند احمد (5/235) (ضعیف) (سند میں ”ابوالورد“ لین الحدیث راوی ہیں)»
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا فزع احدكم في النوم فليقل اعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وان يحضرون، فإنها لن تضره "، قال: وكان عبد الله بن عمرو يلقنها من بلغ من ولده ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ "، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْروٍ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈر جائے تو (یہ دعا) پڑھے: «أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون»”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل و جامع کلموں کے ذریعہ اللہ کے غضب، اللہ کے عذاب اور اللہ کے بندوں کے شر و فساد اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ ہمارے پاس آئیں““۔ (یہ دعا پڑھنے سے) یہ پریشان کن خواب اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ (تاکہ وہ اسے یاد کر لیں، نہ کہ تعویذ کے طور پر) عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھا دیتے تھے، اور جو بچے نابالغ ہوتے تھے ان کے لیے یہ دعا کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب 19 (3893) (تحفة الأشراف: 8781) (حسن) (عبداللہ بن عمرو کا اثر ثابت نہیں ہے، الکلم الطیب)»
وضاحت: ۱؎: اس کے لیے دیکھئیے ترمذی: کتاب الطب حدیث رقم: ۲۰۷۲ کا حاشیہ۔
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله " فكان عبد الله 0000 " الكلم الطيب (48 / 35)، صحيح أبي داود (3294 / 3893)
قال الشيخ زبير على زئي: (3528) إسناده ضعيف / د 3893
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن محمد بن زياد، عن ابي راشد الحبراني، قال: اتيت عبد الله بن عمرو بن العاص فقلت له: حدثنا مما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالقى إلي صحيفة، فقال: هذا ما كتب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فنظرت فإذا فيها: إن ابا بكر الصديق رضي الله عنه، قال: يا رسول الله، علمني ما اقول إذا اصبحت وإذا امسيت، فقال: " يا ابا بكر، قل اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، لا إله إلا انت رب كل شيء ومليكه، اعوذ بك من شر نفسي ومن شر الشيطان وشركه، وان اقترف على نفسي سوءا او اجره إلى مسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقُلْتُ لَهُ: حَدِّثْنَا مِمَّا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقَى إِلَيَّ صَحِيفَةً، فَقَالَ: هَذَا مَا كَتَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مَا أَقُولُ إِذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَيْتُ، فَقَالَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ، قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرَكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوراشد حبرانی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کے پاس آیا اور ان سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں سن رکھی ہیں ان میں سے کوئی حدیث ہمیں سنائیے، تو انہوں نے ایک لکھا ہوا ورق ہمارے آگے بڑھا دیا، اور کہا: یہ وہ کاغذ ہے جسے رسول اللہ نے ہمیں لکھ کر دیا ہے ۱؎، جب میں نے اسے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں صبح اور شام میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: ”ابوبکر! (یہ دعا) پڑھا کرو: «اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة لا إله إلا أنت رب كل شيء ومليكه أعوذ بك من شر نفسي ومن شر الشيطان وشركه وأن أقترف على نفسي سوءا أو أجره إلى مسلم»”اے اللہ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، کھلی ہوئی اور پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے تیرے، تو ہر چیز کا رب (پالنے والا) اور اس کا بادشاہ ہے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر اور اس کے جال اور پھندوں سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اپنے آپ کے خلاف کوئی گناہ کر بیٹھوں، یا اس گناہ میں کسی مسلمان کو ملوث کر دوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس صحیح الإسناد و المتن حدیث سے بھی نہایت واضح معلوم ہو رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ و طاہرہ میں آپ کی احادیث مبارکہ کو صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین لکھ لیا کرتے تھے اور اس عظیم المرتبت عمل کے لیے راوی حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما بہت معروف تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الكلم الطيب (22 / 9)، الصحيحة (2763)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، قال: سمعت ابا وائل قال: سمعت عبد الله بن مسعود، يقول: قلت له: انت سمعته من عبد الله؟ قال: نعم ورفعه، انه قال: " لا احد اغير من الله ولذلك حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن، ولا احد احب إليه المدح من الله، ولذلك مدح نفسه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: قُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ وَرَفَعَهُ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ، وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بےحیائی کی چیزیں حرام کر دی ہیں چاہے وہ کھلے طور پر ہوں یا پوشیدہ طور پر، اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اللہ سے زیادہ مدح (تعریف) پسند ہو، اسی لیے اللہ نے اپنی ذات کی تعریف خود آپ کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عبد الله بن عمرو، عن ابي بكر الصديق انه قال لرسول الله: علمني دعاء ادعو به في صلاتي، قال: " قل اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا انت، فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك انت الغفور الرحيم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وهو حديث ليث بن سعد، وابو الخير اسمه مرثد بن عبد الله اليزني.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولَ اللَّهِ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ: " قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَبُو الْخَيْرِ اسْمُهُ مَرْثَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيُّ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں ۱؎، آپ نے فرمایا: ”کہو: «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم»”اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا، اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور یہ لیث بن سعد کی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، عن المطلب بن ابي وداعة، قال: جاء العباس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانه سمع شيئا، فقام النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر فقال: " من انا؟ " فقالوا: انت رسول الله عليك السلام، قال: " انا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب إن الله خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتا فجعلني في خيرهم بيتا، وخيرهم نسبا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: " مَنْ أَنَا؟ " فَقَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ، قَالَ: " أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبدالمطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان انہوں نے کوئی بات سنی (جس کی انہوں نے آپ کو خبر دی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھ گئے، اور پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول! آپ پر اللہ کی سلامتی نازل ہو، آپ نے فرمایا: ”میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے سب سے بہتر گروہ میں پیدا کیا، پھر اس گروہ میں بھی دو گروہ بنا دیئے اور مجھے ان دونوں گروہوں میں سے بہتر گروہ میں رکھا، پھر ان میں مختلف قبیلے بنا دیئے، تو مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا، پھر انہیں گھروں میں بانٹ دیا تو مجھے اچھے نسب والے بہترین خاندان اور گھر میں پیدا کیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في المناقب 1 (3608) (تحفة الأشراف: 11286) (ضعیف) (سند میں ”یزید بن ابی زیاد“ ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا اس باب بلکہ کتاب (الدعوات) سے بظاہر کوئی تعلق نہیں آ رہا ہے اور یہ حدیث تحفۃ الاحوذی والے نسخے میں بھی نہیں ہیں، نیز اس سے پہلے والی دو حدیثیں بھی نہیں ہیں۔
قال الشيخ زبير على زئي: (3532) إسناده ضعيف / يأتي:3608 يزيد بن أبى زياد ضعيف (تقدم:114) ولبعض شاهد صحيح (انظر:سنن الترمذي:1/3605) ولفظ يزيد:مختلف منه