(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن قتادة، عن انس، إنا اعطيناك الكوثر ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " هو نهر في الجنة ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " رايت نهرا في الجنة حافتاه قباب اللؤلؤ، قلت: ما هذا يا جبريل قال: هذا الكوثر الذي اعطاكه الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هُوَ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ، قُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ: هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَهُ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ارشاد باری «إنا أعطيناك الكوثر» کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے“۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ”کوثر وہ خیر کثیر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے“ اس پر بعض لوگوں نے ان کے شاگرد سعید بن جبیر سے کہا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ وہ ایک نہر ہے جنت میں؟ تو اس پر سعید بن جبیر نے کہا: یہ نہر بھی منجملہ خیر کثیر ہی کے ہے، گویا سعید بن جبیر نے دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے، ویسے جب بزبان رسالت مآب صحیح سند سے یہ تصریح آ گئی کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو پھر کسی اور روایت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں (تحفۃ وتفسیر ابن جریر)۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سريج بن النعمان، حدثنا الحكم بن عبد الملك، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بينا انا اسير في الجنة إذ عرض لي نهر حافتاه قباب اللؤلؤ، قلت للملك: ما هذا؟ قال: هذا الكوثر الذي اعطاكه الله، قال: ثم ضرب بيده إلى طينة فاستخرج مسكا، ثم رفعت لي سدرة المنتهى، فرايت عندها نورا عظيما ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذْ عُرِضَ لِي نَهْرٌ حَافَّتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ، قُلْتُ لِلْمَلَكِ: مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَهُ اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَى طِينَةٍ فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا، ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَرَأَيْتُ عِنْدَهَا نُورًا عَظِيمًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میرے سامنے ایک نہر پیش کی گئی جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ مٹی تک ڈال دیا، نکالا تو وہ مشک کی طرح مہک رہی تھی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہیٰ لا کر پیش کی گئی، میں نے وہاں بہت زیادہ نور (نور عظیم) دیکھا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی انس رضی الله عنہ سے آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا محمد بن فضيل، عن عطاء بن السائب، عن محارب بن دثار، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الكوثر نهر في الجنة حافتاه من ذهب، ومجراه على الدر والياقوت، تربته اطيب من المسك، وماؤه احلى من العسل وابيض من الثلج ". قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْكَوْثَرُ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ، وَمَجْرَاهُ عَلَى الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ، تُرْبَتُهُ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، وَمَاؤُهُ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَأَبْيَضُ مِنَ الثَّلْجِ ". قال: هذا حديث حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الكوثر» جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس کے پانی کا گزر موتیوں اور یاقوت پر ہوتا ہے، اس کی مٹی مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہے اور برف سے بھی زیادہ سفید ہے“۔
(موقوف) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا سليمان بن داود، عن شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: كان عمر يسالني مع اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له عبد الرحمن بن عوف: اتساله ولنا بنون مثله؟ فقال له عمر: " إنه من حيث تعلم، فساله عن هذه الآية: إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر آية 1، فقلت: إنما هو اجل رسول الله صلى الله عليه وسلم اعلمه إياه وقرا السورة إلى آخرها، فقال له عمر: والله ما اعلم منها إلا ما تعلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، بهذا الإسناد نحوه، إلا انه قال: فقال له عبد الرحمن بن عوف: اتساله ولنا ابناء مثله، هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يَسْأَلُنِي مَعَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَتَسْأَلُهُ وَلَنَا بَنُونَ مِثْلُهُ؟ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: " إِنَّهُ مِنْ حَيْثُ تَعْلَمُ، فَسَأَلَهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1، فَقُلْتُ: إِنَّمَا هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ إِيَّاهُ وَقَرَأَ السُّورَةَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَتَسْأَلُهُ وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی موجودگی میں عمر رضی الله عنہ مجھ سے (مسئلہ) پوچھتے تھے (ایک بار) عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ان سے کہا: آپ ان ہی سے کیوں پوچھتے ہیں جب کہ ہمارے بھی ان کے جیسے بچے ہیں (کیا بات ہے؟) عمر رضی الله عنہ نے انہیں جواب دیا وہ جس مقام و مرتبہ پر ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ان سے اس آیت «إذا جاء نصر الله والفتح» کے بارے میں پوچھا، (ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں) میں نے کہا: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ہے، اللہ نے آپ کو آگاہ کیا ہے، انہوں نے یہ پوری سورۃ شروع سے آخر تک پڑھی، عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: قسم اللہ کی! میں نے اس سورۃ سے وہی سمجھا اور جانا جو تو نے سمجھا اور جانا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم سے بیان کیا محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا شعبہ نے اور انہوں نے روایت کی اسے اسی سند کے ساتھ اسی طرح ابوبشر سے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: «أتسأله ولنا أبناء مثله»۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3627)، والمغازي 51 (4294)، و 83 (4430)، وتفسیر سورة النصر 1 (4969، 4970)، والرقاق 53 (6587)، (تحفة الأشراف: 5456) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے ثابت ہو گیا کہ ابن عباس رضی الله عنہما دیگر صحابہ کے بچوں کے ہم عمر ہونے کے باوجود علمی گہرائی میں ان سے بدرجہا بڑھے ہوئے تھے، کیوں نہ ہوں، ان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص دعا «اللهم علمه التأويل وفقهه في الدين»”اے اللہ ان کو تفسیر کا علم اور دین میں سمجھ (فقہ) عطا فرما“۔
۲؎: بات ایک ہے مگر دونوں روایتوں میں صرف چند الفاظ کا الٹ پھر ہے، پہلی روایت میں ہے «ولنا بنون مثله» اور اس روایت میں ہے «ولنا أبناى مثله» ۔
(مرفوع) حدثنا هناد، واحمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم على الصفا فنادى: " يا صباحاه "، فاجتمعت إليه قريش، فقال: " إني نذير لكم بين يدي عذاب شديد، ارايتم لو اني اخبرتكم ان العدو ممسيكم، او مصبحكم، اكنتم تصدقوني؟ " فقال ابو لهب: الهذا جمعتنا تبا لك فانزل الله: تبت يدا ابي لهب وتب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الصَّفَا فَنَادَى: " يَا صَبَاحَاهُ "، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، فَقَالَ: " إِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ، أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنِّي أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُمَسِّيكُمْ، أَوْ مُصَبِّحُكُمْ، أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي؟ " فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه»۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب»”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا“(تبت: ۱)، نازل فرمائی،
وضاحت: ۱؎: یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اور اہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔
۲؎: دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے، نہیں؟ اس پر انہوں نے کہا، کیوں نہیں کریں گے، آپ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو سعد هو الصغاني، عن ابي جعفر الرازي، عن الربيع بن انس، عن ابي العالية، عن ابي بن كعب، ان المشركين قالوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم: انسب لنا ربك، فانزل الله: قل هو الله احد {1} الله الصمد {2} سورة الإخلاص آية 1-2 فالصمد: الذي لم يلد ولم يولد لانه ليس شيء يولد إلا سيموت، وليس شيء يموت إلا سيورث، وإن الله عز وجل لا يموت ولا يورث ولم يكن له كفوا احد سورة الإخلاص آية 4، قال: لم يكن له شبيه ولا عدل وليس كمثله شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ هُوَ الصَّغَانِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَالُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ {1} اللَّهُ الصَّمَدُ {2} سورة الإخلاص آية 1-2 فَالصَّمَدُ: الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ لَأَنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ يُولَدُ إِلَّا سَيَمُوتُ، وَلَيْسَ شَيْءٌ يَمُوتُ إِلَّا سَيُورَثُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمُوتُ وَلَا يُورَثُ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ سورة الإخلاص آية 4، قَالَ: لَمْ يَكُنْ لَهُ شَبِيهٌ وَلَا عِدْلٌ وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ.
ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے «قل هو الله أحد الله الصمد»”کہہ دیجئیے اللہ اکیلا ہے، اللہ بے نیاز ہے“(الاخلاص: ۱-۲)، نازل فرمائی، اور «صمد» وہ ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہو، اس لیے (اصول یہ ہے کہ) جو بھی کوئی چیز پیدا ہو گی وہ ضرور مرے گی اور جو بھی کوئی چیز مرے گی اس کا وارث ہو گا، اور اللہ عزوجل کی ذات ایسی ہے کہ نہ وہ مرے گی اور نہ ہی اس کا کوئی وارث ہو گا، «ولم يكن له كفوا أحد»”اور نہ اس کا کوئی «کفو»(ہمسر) ہے“، راوی کہتے ہیں: «کفو» یعنی اس کے مشابہ اور برابر کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی اس جیسا کوئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16) (حسن) آیت تک صحیح ہے، اور ”الصمد الذي إالخ) کا سیاق صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ سند میں ابو جعفر الرازی سیٔ الحفظ اور ابو سعید الخراسانی ضعیف ہیں، اور مسند احمد 5/113، 134، اور طبری 30/221 کے طریق سے تقویت پا کر اول حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی 559)»
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله: " والصمد الذى ... " ظلال الجنة (663 / التحقيق الثانى)
قال الشيخ زبير على زئي: (3364) إسناده ضعيف أبو سعد محمد بن ميسر ضعيف رمي بالإرحاء (تق:6344) وحديث أبى جعفر عن الربيع بن أنس ضعيف (تقدم:2647) وللحديث شاهد ضعيف عند أبى يعلي (2044)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن ابي جعفر الرازي، عن الربيع، عن ابي العالية، ان النبي صلى الله عليه وسلم ذكر آلهتهم، فقالوا: انسب لنا ربك، قال: فاتاه جبريل بهذه السورة قل هو الله احد، فذكر نحوه، ولم يذكر فيه عن ابي بن كعب، وهذا اصح من حديث ابي سعد، وابو سعد اسمه محمد بن ميسر، وابو جعفر الرازي اسمه عيسى، وابو العالية اسمه رفيع وكان عبدا اعتقته امراة صابئة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ آلِهَتَهُمْ، فَقَالُوا: انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ، قَالَ: فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ بِهَذِهِ السُّورَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعْدٍ، وَأَبُو سَعْدٍ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ، وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ اسْمُهُ عِيسَى، وَأَبُو الْعَالِيَةِ اسْمُهُ رُفَيْعٌ وَكَانَ عَبْدًا أَعْتَقَتْهُ امْرَأَةٌ صَابِئَةٌ.
ابولعالیہ (رفیع بن مہران) سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے (یعنی مشرکین کے) معبودوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ ہم سے اپنے رب کا نسب بیان کیجئے، آپ نے بتایا کہ جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس یہ سورۃ «قل هو الله أحد» لے کر آئے، پھر انہوں نے اسی طرح حدیث بیان کی، اور اس کی سند میں ابی بن کعب سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ابوسعد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ابوسعد کا نام محمد بن میسر ہے، اور ابو جعفر رازی کا نام عیسیٰ ہے، ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے یہ ایک غلام تھے جنہیں ایک قیدی عورت نے آزاد کیا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ”عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہ «غاسق» ہے جب یہ ڈوب جائے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 116 (304) (تحفة الأشراف: 17703)، و مسند احمد (6/215) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے ڈوبنے سے رات کی تاریکی بڑھ جاتی ہے اور بڑھی ہوئی تاریکی میں زنا، چوریاں بدکاریاں وغیرہ زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے اس سے پناہ مانگنے کے لیے کہا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الصحيحة (372)، المشكاة (2475)
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے مجھ پر کچھ ایسی آیتیں نازل کی ہیں کہ ان جیسی آیتیں کہیں دیکھی نہ گئی ہیں، وہ ہیں «قل أعوذ برب الناس» آخر سورۃ تک اور «قل أعوذ برب الفلق» آخر سورۃ تک۔
(مرفوع) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا صفوان بن عيسى، حدثنا الحارث بن عبد الرحمن بن ابي ذباب، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس، فقال: الحمد لله، فحمد الله بإذنه، فقال له ربه: يرحمك الله يا آدم اذهب إلى اولئك الملائكة إلى ملإ منهم جلوس، فقل: السلام عليكم، قالوا: وعليك السلام ورحمة الله، ثم رجع إلى ربه، فقال: إن هذه تحيتك وتحية بنيك بينهم، فقال الله له ويداه مقبوضتان: اختر ايهما شئت، قال: اخترت يمين ربي، وكلتا يدي ربي يمين مباركة، ثم بسطها، فإذا فيها آدم وذريته، فقال: اي رب، ما هؤلاء؟ فقال: هؤلاء ذريتك فإذا كل إنسان مكتوب عمره بين عينيه، فإذا فيهم رجل اضوؤهم او من اضوئهم، قال: يا رب، من هذا؟ قال: هذا ابنك داود قد كتبت له عمر اربعين سنة، قال: يا رب زده في عمره، قال: ذاك الذي كتبت له، قال: اي رب، فإني قد جعلت له من عمري ستين سنة، قال: انت وذاك، قال: ثم اسكن الجنة ما شاء الله، ثم اهبط منها فكان آدم يعد لنفسه، قال: فاتاه ملك الموت، فقال له آدم: قد عجلت قد كتب لي الف سنة، قال: بلى، ولكنك جعلت لابنك داود ستين سنة، فجحد فجحدت ذريته، ونسي فنسيت ذريته، قال: فمن يومئذ امر بالكتاب والشهود ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، من رواية زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ الْمَلَائِكَةِ إِلَى مَلَإٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ، فَقُلْ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، قَالُوا: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ اللَّهُ لَهُ وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ: اخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، قَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي، وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ، ثُمَّ بَسَطَهَا، فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَإِذَا كُلُّ إِنْسَانٍ مَكْتُوبٌ عُمْرُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَإِذَا فِيهِمْ رَجُلٌ أَضْوَؤُهُمْ أَوْ مِنْ أَضْوَئِهِمْ، قَالَ: يَا رَبِّ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ قَدْ كَتَبْتُ لَهُ عُمْرَ أَرْبَعِينَ سَنَةً، قَالَ: يَا رَبِّ زِدْهُ فِي عُمْرِهِ، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي كَتَبْتُ لَهُ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ عُمْرِي سِتِّينَ سَنَةً، قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ، قَالَ: ثُمَّ أُسْكِنَ الْجَنَّةَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُهْبِطَ مِنْهَا فَكَانَ آدَمُ يَعُدُّ لِنَفْسِهِ، قَالَ: فَأَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: قَدْ عَجَّلْتَ قَدْ كُتِبَ لِي أَلْفُ سَنَةٍ، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّكَ جَعَلْتَ لِابْنِكِ دَاوُدَ سِتِّينَ سَنَةً، فَجَحَدَ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنَسِيَ فَنَسِيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، قَالَ: فَمِنْ يَوْمِئِذٍ أُمِرَ بِالْكِتَابِ وَالشُّهُودِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونک دی، تو ان کو چھینک آئی، انہوں نے «الحمد لله» کہنا چاہا چنانچہ اللہ کی اجازت سے «الحمد لله» کہا، (تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) پھر ان سے ان کے رب نے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے، اے آدم! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت و گروہ کے پاس جاؤ اور ان سے السلام علیکم کہو، انہوں نے جا کر السلام علیکم کیا، فرشتوں نے جواب دیا، وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ آئے، اللہ نے فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں طریقہ سلام و دعا ہے، پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے آدم سے کہا: ان میں سے جسے چاہو پسند کر لو، وہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہاتھ ہیں اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور آدم کی ذریت تھی، آدم علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سب تیری اولاد ہیں اور ہر ایک کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں لکھی ہوئی ہے، ان میں ایک سب سے زیادہ روشن چہرہ والا تھا، آدم علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون ہے؟ کہا یہ تمہارا بیٹا داود ہے، میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھ دی ہے، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! اس کی عمر بڑھا دیجئیے، اللہ نے کہا: یہ عمر تو اس کی لکھی جا چکی ہے، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال اسے دیئے دیتا ہوں، اللہ نے کہا: تم اور وہ جانو؟ چلو خیر، پھر آدم علیہ السلام جنت میں رہے جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا، پھر آدم علیہ السلام جنت سے نکال باہر کر دیئے گئے، آدم علیہ السلام اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے، ملک الموت ان کے پاس آئے تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ تو جلدی آ گئے میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی ہے، ملک الموت نے کہا: ہاں (بات تو صحیح ہے) لیکن آپ نے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داود کو دے دیے تھے، تو انہوں نے انکار کر دیا آدم علیہ السلام کے اسی انکار کا نتیجہ اور اثر ہے کہ ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگ گئی، آدم علیہ السلام بھول گئے، ان کی اولاد بھی بھولنے لگ گئی، اسی دن سے حکم دے دیا گیا ساری باتیں لکھ لی جایا کریں اور گواہ بنا لیے جایا کریں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اور ابوہریرہ کی اس حدیث کو زید بن اسلم نے بطریق: «أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے۔