عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی موجودگی میں عمر رضی الله عنہ مجھ سے
(مسئلہ) پوچھتے تھے
(ایک بار) عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ان سے کہا: آپ ان ہی سے کیوں پوچھتے ہیں جب کہ ہمارے بھی ان کے جیسے بچے ہیں
(کیا بات ہے؟) عمر رضی الله عنہ نے انہیں جواب دیا وہ جس مقام و مرتبہ پر ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ان سے اس آیت
«إذا جاء نصر الله والفتح» کے بارے میں پوچھا،
(ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں) میں نے کہا: اس میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ہے، اللہ نے آپ کو آگاہ کیا ہے، انہوں نے یہ پوری سورۃ شروع سے آخر تک پڑھی، عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: قسم اللہ کی! میں نے اس سورۃ سے وہی سمجھا اور جانا جو تو نے سمجھا اور جانا ہے
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم سے بیان کیا محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا شعبہ نے اور انہوں نے روایت کی اسے اسی سند کے ساتھ اسی طرح ابوبشر سے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا:
«أتسأله ولنا أبناء مثله» ۲؎۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3362
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے ثابت ہو گیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما دیگر صحابہ کے بچوں کے ہم عمر ہو نے کے باوجود علمی گہرائی میں ان سے بدرجہا بڑھے ہوئے تھے،
کیوں نہ ہوں،
ان کے لیے نبیﷺکی خاص دعاء (اللهم عَلِّمهُ التَّأوِيلَ وَفَقِّههُ فِي الدِّين) اے اللہ ان کو تفسیرکا علم اور دین میں سمجھ (فقہ) عطا فرما)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3362