(مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد ابو سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن داود بن ابي هند، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، فجاء ابو جهل، فقال: الم انهك عن هذا، الم انهك عن هذا، الم انهك عن هذا، فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم فزبره، فقال ابو جهل: إنك لتعلم ما بها ناد اكثر مني فانزل الله: فليدع ناديه {17} سندع الزبانية {18} سورة العلق آية 17-18، فقال ابن عباس: فوالله لو دعا ناديه لاخذته زبانية الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، وفيه عن ابي هريرة رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا، أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا، أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ: فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ {17} سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ {18} سورة العلق آية 17-18، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لَأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آ گیا، اس نے کہا: میں نے تمہیں اس (نماز) سے منع نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے تجھے اس (نماز) سے منع نہیں کیا تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا اور اسے ڈانٹا، ابوجہل نے کہا: تجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ کسی کے ہم نشیں نہیں ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «فليدع ناديه سندع الزبانية»”اپنے ہم نشینوں کو بلا کر دیکھ لے، ہم جہنم کے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں“(العلق: ۱۷-۱۸)، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اگر وہ اپنے ہم نشینوں کو بلا لیتا تو عذاب پر متعین اللہ کے فرشتے اسے دھر دبوچتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
قال الشيخ زبير على زئي: (3349) إسناده ضعيف أبو خالد سليمان بن حيان الأحمر مدلس وعنعن (د 4621) وروي ابن جرير الطبري (164/30۔165) بسند صحيح عن ابن عباس: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فجاء أبو جهل فنهاه أن يصلي فأنزل الله: ﴿ارأيت الزي ينهي عبدًا اذا صلي﴾ إلى قوله: ﴿كاذبة خاطئة﴾ فقال: لقد علم أني أكثر هذا الوادي ناديًا، فغضب النبى صلى الله عليه وسلم فتكلم بشي . . . . فقال ابن عباس:فو الله! لو فعل لأخذته الملائكة من مكانه . وهذا يغني عنه
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا القاسم بن الفضل الحداني، عن يوسف بن سعد، قال: قام رجل إلى الحسن بن علي بعد ما بايع معاوية، فقال: سودت وجوه المؤمنين او يا مسود وجوه المؤمنين، فقال: لا تؤنبني رحمك الله، فإن النبي صلى الله عليه وسلم اري بني امية على منبره فساءه ذلك، فنزلت: إنا اعطيناك الكوثر، يا محمد يعني نهرا في الجنة، ونزلت هذه الآية: إنا انزلناه في ليلة القدر، وما ادراك ما ليلة القدر ليلة القدر خير من الف شهر يملكها بعدك بنو امية يا محمد، قال القاسم: فعددناها، فإذا هي الف شهر لا يزيد يوم ولا ينقص ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث القاسم بن الفضل، وقد قيل: عن القاسم بن الفضل، عن يوسف بن مازن، والقاسم بن الفضل الحداني هو ثقة وثقه يحيى بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي، ويوسف بن سعد رجل مجهول، ولا نعرف هذا الحديث على هذا اللفظ إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَ مَا بَايَعَ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: سَوَّدْتَ وُجُوهَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ يَا مُسَوِّدَ وُجُوهِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: لَا تُؤَنِّبْنِي رَحِمَكَ اللَّهُ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيَ بَنِي أُمَيَّةَ عَلَى مِنْبَرِهِ فَسَاءَهُ ذَلِكَ، فَنَزَلَتْ: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ، يَا مُحَمَّدُ يَعْنِي نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ يَمْلِكُهَا بَعْدَكَ بَنُو أُمَيَّةَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ الْقَاسِمُ: فَعَدَدْنَاهَا، فَإِذَا هِيَ أَلْفُ شَهْرٍ لَا يَزِيدُ يَوْمٌ وَلَا يَنْقُصُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، وَقَدْ قِيلَ: عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ، وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ هُوَ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
یوسف بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص حسن بن علی رضی الله عنہما کے پاس ان کے معاویہ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لینے کے بعد گیا اور کہا: آپ نے تو مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دی، (راوی کو شک ہے «سودت» کہا یا «يا مسود وجوه المؤمنين»(مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دینے والا) کہا، انہوں نے کہا تو مجھ پر الزام نہ رکھ، اللہ تم پر رحم فرمائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی امیہ اپنے منبر پر دکھائے گئے تو آپ کو یہ چیز بری لگی، اس پر آیت «إنا أعطيناك الكوثر»”اے محمد! ہم نے آپ کو کوثر دی“، نازل ہوئی۔ کوثر جنت کی ایک نہر ہے اور سورۃ القدر کی آیات «إنا أنزلناه في ليلة القدر وما أدراك ما ليلة القدر ليلة القدر خير من ألف شهر»”ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا، اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے“، نازل ہوئیں، اے محمد تیرے بعد بنو امیہ ان مہینوں کے مالک ہوں گے ۳؎ قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں: ہم نے بنی امیہ کے ایام حکومت کو گنا تو وہ ہزار مہینے ہی نکلے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس سند سے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ قاسم بن فضل سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یوسف بن مازن سے روایت کی ہے، قاسم بن فضل حدانی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے ثقہ کہا ہے، اور یوسف بن سعد ایک مجہول شخص ہیں اور ہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3407) (ضعیف) (سند میں اضطراب ہے، اور متن منکر ہے، جیسا کہ مؤلف نے بیان کر دیا ہے)»
وضاحت: ۱؎: سند میں اضطراب اور مجہول راوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے متن میں سخت نکارت ہے، کہاں آیت کا نزول شب قدر کی فضیلت کے بیان کے لیے ہونا، اور کہاں بنو امیہ کی حدث خلافت؟ یہ سب بےتکی باتیں ہیں، نیز کہاں «إنا أعطيناك الكوثر» کی شان نزول، اور کہاں بنو امیہ کی چھوٹی خلافت۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مضطرب، ومتنه منكر
قال الشيخ زبير على زئي: (3350) إسناده ضعيف في سماع يوسف من الحسن نظر و باقي السند حسن و الحديث صححه الحاكم (170/3،171) وضعفه المزي وابن كثير وغيرهما
(موقوف) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عبدة بن ابي لبابة، وعاصم هو ابن بهدلة، سمعا زر بن حبيش وزر بن حبيش يكنى ابا مريم، يقول: قلت لابي بن كعب: إن اخاك عبد الله بن مسعود يقول: " من يقم الحول يصب ليلة القدر، فقال: يغفر الله لابي عبد الرحمن لقد علم انها في العشرة الاواخر من رمضان، وانها ليلة سبع وعشرين، ولكنه اراد ان لا يتكل الناس ثم حلف لا يستثني انها ليلة سبع وعشرين، قال: قلت له: باي شيء تقول ذلك يا ابا المنذر، قال: بالآية التي اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، او بالعلامة ان الشمس تطلع يومئذ لا شعاع لها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم بن بهدلة، قال: كان ابو وائل شقيق بن سلمة لا يتكلم ما دام زر بن حبيش جالسا، قال عاصم بن بهدلة: وكان زر بن حبيش رجلا فصيحا، وكان عبد الله بن مسعود يساله عن العربية. حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي حدثنا يزيد بن مهران الكوفي، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم بن بهدلة، قال: مر رجل على زر بن حبيش وهو يؤذن، فقال: يا ابا مريم اتؤذن؟ إني لارغب بك عن الاذان، فقال زر: اترغب عن الاذان، والله لا اكلمك ابدا.(موقوف) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمٍ هُوَ ابْنُ بَهْدَلَةَ، سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ وَزِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ يُكْنَى أَبَا مَرْيَمَ، يَقُولُ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: إِنَّ أَخَاكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: " مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي الْعَشَرَةَ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنَّهُ أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ بِالْعَلَامَةِ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، قَالَ: كَانَ أَبُو وَائِلٍ شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ لا يَتَكَلَّمُ مَا دَامَ زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ جَالِسًا، قَالَ عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ: وَكَانَ زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ رَجُلا فَصِيحًا، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَرِبِيَّةِ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مهْرَانَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بهدلة، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى زِرِّ بْنُ حُبَيْشٍ وَهُوَ يُؤَذِّنُ، فَقَالَ: يَا أَبَا مَرْيَمَ أَتُؤَذِّنُ؟ إِنِّي لأَرْغَبُ بِكً عَنِ الأَذَانِ، فَقَالَ زِرُّ: أَتَرْغَبُ عَنِ الأَذَانِ، وَاللهِ لا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا.
زر بن حبیش (جن کی کنیت ابومریم ہے) کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتا رہے وہ لیلۃ القدر پا لے گا، ابی بن کعب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے (ابوعبدالرحمٰن، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں (۲۷) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں (۲۷) رات پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آ جائیں، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی الله عنہ نے قسم کھا کر کہا: (شب قدر) یہ (۲۷) رات ہی ہے، زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ انہوں نے «بالآية» کا لفظ استعمال کیا یا «بالعلامة» کا آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ستائیسویں شب کی صبح) سورج طلوع تو ہو گا لیکن اس میں شعاع نہ ہو گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 793 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کئی برسوں کے تجربہ کی بنیاد پر مذکورہ علامتوں کو ۲۷ کی شب منطبق پانے بعد ہی ابی بن کعب رضی الله عنہ یہ دعویٰ کیا تھا اور اس کی سند بھی صحیح ہے، اس لیے آپ کا دعویٰ مبنی برحق ہے، لیکن سنت کے مطابق دس دن اعتکاف کرنا یہ الگ سنت ہے، اور الگ اجر و ثواب کا ذریعہ ہے، نیز صرف طاق راتوں میں شب بیداری کرنے والوں کی شب قدر تو ملے گی ہے، مزید اجر و ثواب الگ ہو گا، ہاں! پورے سال میں شب قدر کی تلاش کی بات: یہ ابن مسعود رضی الله عنہ کا اپنا اجتہاد ہو سکتا ہے، ویسے بھی شب قدر کا حصول اور اجر و ثواب تو متعین ہی ہے۔
مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: «يا خير البرية» ! اے تمام مخلوق میں بہتر! آپ نے فرمایا: ”یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضعاً اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے احتراماً فرمایا تھا، ورنہ آپ خود اپنے فرمان کے مطابق: «سید ولد آدم» ہیں، اور یہی ہمارا عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «أولئك هم خير البرية»(البينة: ۷) کی تفسیر میں لائے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا سعيد بن ابي ايوب، عن يحيى بن ابي سليمان، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: " يومئذ تحدث اخبارها سورة الزلزلة آية 4 قال: " اتدرون ما اخبارها "، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن اخبارها ان تشهد على كل عبد او امة بما عمل على ظهرها، تقول: عمل يوم كذا كذا وكذا فهذه اخبارها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: " يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا سورة الزلزلة آية 4 قَالَ: " أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا "، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا، تَقُولُ: عَمِلَ يَوْمَ كَذَا كَذَا وَكَذَا فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سورۃ الزلزال کی) آیت «يومئذ تحدث أخبارها»”اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی“(الزلزال: ۴)، پڑھی، پھر آپ نے پوچھا: کیا تم لوگ جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اس کی خبریں یہ ہیں کہ اس کی پیٹھ پر یعنی زمین پر ہر بندے نے خواہ مرد ہو یا عورت جو کچھ کیا ہو گا اس کی وہ گواہی دے گی، وہ کہے گی: اس بندے نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا، یہی اس کی خبریں ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2429 (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد ومضى (2546) // (428 / 2559) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3353) إسناده ضعيف / تقدم:2429
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، عن ابيه، انه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرا: " الهاكم التكاثر "، قال: " يقول ابن آدم: مالي مالي، وهل لك من مالك إلا ما تصدقت فامضيت، او اكلت فافنيت، او لبست فابليت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ: " أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ "، قَالَ: " يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ، أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَن صَحِيحٌ.
شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت «ألهاكم التكاثر»”زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا“(التکاثر: ۱)، تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”ابن آدم میرا مال، میرا مال کہے جاتا ہے (اسی ہوس و فکر میں مرا جاتا ہے) مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کر دیا یا پہن کر بوسیدہ کر دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2342 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ابن آدم کا حقیقی مال وہی ہے جو اس نے راہ خدا میں خرچ کیا، یا خود کھایا پیا اور پہن کر بوسیدہ کر دیا، اور باقی جانے والا مال تو اس کا اپنا مال نہیں بلکہ اس کے وارثین کا مال ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا حكام بن سلم الرازي، عن عمرو بن ابي قيس، عن الحجاج، عن المنهال بن عمرو، عن زر بن حبيش، عن علي رضي الله عنه، قال: " ما زلنا نشك في عذاب القبر حتى نزلت: الهاكم التكاثر سورة التكاثر آية 1 "، قال ابو كريب: مرة عن عمرو بن ابي قيس هو رازي، وعمرو بن قيس الملائي كوفي، عن ابن ابي ليلى، عن المنهال بن عمرو. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " مَا زِلْنَا نَشُكُّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّى نَزَلَتْ: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ سورة التكاثر آية 1 "، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: مَرَّةً عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَازِيٌّ، وَعَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ كُوفِيٌّ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں رہے، یہاں تک کہ سورۃ «ألهاكم التكاثر» نازل ہوئی، تو ہمیں اس پر یقین حاصل ہوا۔ ابوکریب کبھی عمرو بن ابی قیس کہتے ہیں، تو یہ عمروبن قیس رازی ہیں - اور عمرو بن قیس ملائی کوفی ہیں اور یہ ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں: اور وہ (ابن ابی لیلیٰ) روایت کرتے ہیں منہال بن عمرو سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10095) (ضعیف الإسناد) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3355) إسناده ضعيف حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس (تقدم:527) وتابعه محمد ابن أبى ليلي فى سند المؤلف و محمد ابن أبى ليلي: ضعيف (تقدم:194)
زبیر بن عوام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم»”اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہو گا“(التکاثر: ۸)، نازل ہوئی تو زبیر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ ہمیں تو صرف دو ہی (کالی) نعمتیں حاصل ہیں، ایک کھجور اور دوسرے پانی ۱؎ آپ نے فرمایا: ”عنقریب وہ بھی ہو جائیں گی“۲؎۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا احمد بن يونس، عن ابي بكر بن عياش، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " لما نزلت هذه الآية ثم لتسالن يومئذ عن النعيم سورة التكاثر آية 8، قال الناس: يا رسول الله، عن اي النعيم نسال، وإنما هما الاسودان والعدو حاضر وسيوفنا على عواتقنا، قال: " إن ذلك سيكون ". قال ابو عيسى: وحديث ابن عيينة، عن محمد بن عمرو عندي اصح من هذا، وسفيان بن عيينة احفظ واصح حديثا من ابي بكر بن عياش.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ سورة التكاثر آية 8، قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَنْ أَيِّ النَّعِيمِ نُسْأَلُ، وَإِنَّمَا هُمَا الْأَسْوَدَانِ وَالْعَدُوُّ حَاضِرٌ وَسُيُوفُنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا، قَالَ: " إِنَّ ذَلِكَ سَيَكُونُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ هَذَا، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَحْفَظُ وَأَصَحُّ حَدِيثًا مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ وہ تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں ہیں (ایک کھجور دوسرا پانی)(ہمارا) دشمن (سامنے) حاضر و موجود ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ۱؎۔ آپ نے فرمایا: ”(تمہیں ابھی معلوم نہیں) عنقریب ایسا ہو گا (کہ تمہارے پاس نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث سے زیادہ صحیح میرے نزدیک ابن عیینہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ محمد بن عمر سے روایت کرتے ہیں، (یعنی پچھلی روایت) سفیان بن عیینہ ابوبکر بن عیاش کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ یاد رکھنے اور زیادہ صحت کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15121) (حسن) (سند میں ابوبکر بن عیاش کا حافظہ بڑھاپے میں کمزور ہو گیا تھا، لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)»
وضاحت: ۱؎: ہمیں لڑنے مرنے سے فرصت کہاں کہ ہمارے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوں اور ہم ان نعمتوں میں عیش و مستی کریں جس کی ہم سے بازپرس کی جائے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا شبابة، عن عبد الله بن العلاء، عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزم الاشعري، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اول ما يسال عنه يوم القيامة يعني العبد من النعيم ان يقال له: الم نصح لك جسمك ونرويك من الماء البارد ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، والضحاك هو ابن عبد الرحمن بن عرزب، ويقال: ابن عرزم، وابن عرزم اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَمٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنَ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ: أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالضَّحَّاكُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ عَرْزَمٍ، وَابْنُ عَرْزَمٍ أَصَحُّ.
ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزم اشعری کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، (وہ یہ ہیں) اس سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمہیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا؟“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ضحاک، یہ بیٹے ہیں عبدالرحمٰن بن عرزب کے، اور انہیں ابن عرزم بھی کہا جاتا ہے اور ابن عرزم کہنا زیادہ صحیح ہے۔