سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3313
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن ابي سعد الازدي، حدثنا زيد بن ارقم، قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان معنا اناس من الاعراب فكنا نبتدر الماء، وكان الاعراب يسبقونا إليه، فسبق اعرابي اصحابه فسبق الاعرابي، فيملا الحوض ويجعل حوله حجارة ويجعل النطع عليه حتى يجيء اصحابه، قال: فاتى رجل من الانصار اعرابيا فارخى زمام ناقته لتشرب، فابى ان يدعه، فانتزع قباض الماء، فرفع الاعرابي خشبته فضرب بها راس الانصاري فشجه، فاتى عبد الله بن ابي راس المنافقين فاخبره، وكان من اصحابه، فغضب عبد الله بن ابي، ثم قال: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا من حوله يعني الاعراب، وكانوا يحضرون رسول الله صلى الله عليه وسلم عند الطعام، فقال عبد الله: إذا انفضوا من عند محمد فاتوا محمدا بالطعام فلياكل هو ومن عنده، ثم قال لاصحابه: لئن رجعتم إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، قال زيد: وانا ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فسمعت عبد الله بن ابي، فاخبرت عمي، فانطلق فاخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فحلف وجحد، قال: فصدقه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذبني، قال: فجاء عمي إلي، فقال: ما اردت إلا ان مقتك رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذبك والمسلمون، قال: فوقع علي من الهم ما لم يقع على احد، قال: فبينما انا اسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، قد خفقت براسي من الهم إذ اتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرك اذني وضحك في وجهي، فما كان يسرني ان لي بها الخلد في الدنيا، ثم إن ابا بكر لحقني، فقال: ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: ما قال لي شيئا إلا انه عرك اذني وضحك في وجهي، فقال: ابشر، ثم لحقني عمر فقلت له: مثل قولي لابي بكر، فلما اصبحنا قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم سورة المنافقين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ فَكُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَاءَ، وَكَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ، فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ فَسَبَقَ الْأَعْرَابِيُّ، فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّى يَجِيءَ أَصْحَابُهُ، قَالَ: فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَى زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ، فَأَبَى أَنْ يَدَعَهُ، فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَاءِ، فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّهُ، فَأَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَهُ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ، وَكَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْكُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ: لَئِنْ رَجَعْتُم إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، قَالَ زَيْدٌ: وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، فَأَخْبَرْتُ عَمِّي، فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفَ وَجَحَدَ، قَالَ: فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَنِي، قَالَ: فَجَاءَ عَمِّي إِلَيَّ، فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَكَ وَالْمُسْلِمُونَ، قَالَ: فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنَ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنَ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، فَمَا كَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَحِقَنِي، فَقَالَ: مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُ عَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، فَقَالَ: أَبْشِرْ، ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ: مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ بنی مصطلق میں) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے (جب کہیں پانی نظر آتا) تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کر لینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے (اس وقت ایسا ہوا) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے اردگرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کر دی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار کر اس کا سر توڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے (ہم خیال) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا، غصہ میں آ گیا، کہا: ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ (یعنی اعرابی) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھا اور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمد کے پاس سے چلے جائیں تو محمد کے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھ (خاص) موجود لوگ کھا لیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ (بسلامت) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں (اعرابیوں) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگا دینا چاہیئے، زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتا دی، چچا گئے، انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آ کر قسمیں کھائیں اور انکار کیا (کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا مان لیا اور مجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے، بولے (بیٹے) تو نے کیا سوچا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر غصہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، (یہ سن کر) مجھے اتنا غم اور صدمہ ہوا کہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنا سر جھکائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں چلا ہی جا رہا تھا کہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرا دیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگر مجھے دنیا میں جنت مل جاتی تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر رضی الله عنہ ملے، مجھ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلائے اور مجھے دیکھ کر ہنسے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: خوش ہو جاؤ، پھر مجھے عمر رضی الله عنہ ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر رضی الله عنہ سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز فجر میں) سورۃ منافقین پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 3691) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3314
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، انبانا شعبة، عن الحكم بن عتيبة، قال: سمعت محمد بن كعب القرظي منذ اربعين سنة يحدث، عن زيد بن ارقم رضي الله عنه، ان عبد الله بن ابي، قال في غزوة تبوك: لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل سورة المنافقون آية 8، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له فحلف ما قاله، فلامني قومي، وقالوا: ما اردت إلا هذه، فاتيت البيت ونمت كئيبا حزينا، فاتاني النبي صلى الله عليه وسلم او اتيته، فقال: " إن الله قد صدقك، قال: فنزلت هذه الآية: هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا سورة المنافقون آية 7 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 8، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَحَلَفَ مَا قَالَهُ، فَلَامَنِي قَوْمِي، وَقَالُوا: مَا أَرَدْتَ إِلَّا هَذِهِ، فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ وَنِمْتُ كَئِيبًا حَزِينًا، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا سورة المنافقون آية 7 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا (راوی کو شک ہو گیا ہے کہ زید بن ارقم رضی الله عنہ نے یہ کہا یا وہ کہا) آپ نے فرمایا: اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے: «هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا» وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: ۷)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3312 (تحفة الأشراف: 3683) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3315
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، سمع جابر بن عبد الله، يقول: كنا في غزاة، قال سفيان: يرون انها غزوة بني المصطلق، فكسع رجل من المهاجرين رجلا من الانصار، فقال المهاجري: يا للمهاجرين، وقال الانصاري: يا للانصار، فسمع ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما بال دعوى الجاهلية؟ "، قالوا: رجل من المهاجرين كسع رجلا من الانصار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دعوها فإنها منتنة "، فسمع ذلك عبد الله بن ابي ابن سلول، فقال: اوقد فعلوها والله لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل سورة المنافقون آية 8، فقال عمر: يا رسول الله دعني اضرب عنق هذا المنافق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه، وقال غير عمرو: فقال له ابنه عبد الله بن عبد الله: والله لا تنقلب حتى تقر انك الذليل ورسول الله صلى الله عليه وسلم العزيز، ففعل. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كُنَّا فِي غَزَاةٍ، قَالَ سُفْيَانُ: يَرَوْنَ أَنَّهَا غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ، فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا لِلْأَنْصَارِ، فَسَمِعَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ؟ "، قَالُوا: رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَسَعَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ "، فَسَمِعَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولٍ، فَقَالَ: أَوَقَدْ فَعَلُوهَا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 8، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ، وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو: فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: وَاللَّهِ لَا تَنْقَلِبُ حَتَّى تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَزِيزُ، فَفَعَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، (سفیان کہتے ہیں: لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ غزوہ بنی مصطلق تھا)، مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری شخص کے چوتڑ پر لات مار دی، مہاجر نے پکارا: اے مہاجرین، انصاری نے کہا: اے انصاریو! یہ (آواز) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی، فرمایا: جاہلیت کی کیسی پکار ہو رہی ہے؟ لوگوں نے بتایا: ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری شخص کو لات مار دی ہے، آپ نے فرمایا: یہ (پکار) چھوڑ دو، یہ قبیح و ناپسندیدہ پکار ہے، یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول نے سنی تو اس نے کہا: واقعی انہوں نے ایسا کیا ہے؟ قسم اللہ کی مدینہ پہنچ کر ہم میں سے عزت دار لوگ ذلیل و بےوقعت لوگوں کو نکال دیں گے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانے دو (گردن نہ مارو) لوگ یہ باتیں کرنے لگیں کہ محمد تو اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیتا ہے، عمرو بن دینار کے علاوہ دوسرے راویوں نے کہا: عبداللہ بن ابی سے اس کے بیٹے عبداللہ ابن عبداللہ نے (تو یہاں تک) کہہ دیا کہ تم پلٹ نہیں سکتے جب تک یہ اقرار نہ کر لو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی باعزت ہیں تو اس نے اقرار کر لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر المنافقین 6 (4907)، صحیح مسلم/البر والصلة 16 (2584/63) (تحفة الأشراف: 2525) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3316
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا جعفر بن عون، اخبرنا ابو جناب الكلبي، عن الضحاك، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: " من كان له مال يبلغه حج بيت ربه او تجب عليه فيه الزكاة فلم يفعل سال الرجعة عند الموت "، فقال رجل: يا ابن عباس، اتق الله إنما سال الرجعة الكفار، قال: ساتلو عليك بذلك قرآنا: يايها الذين آمنوا لا تلهكم اموالكم ولا اولادكم عن ذكر الله ومن يفعل ذلك فاولئك هم الخاسرون {9} وانفقوا من ما رزقناكم من قبل ان ياتي احدكم الموت إلى قوله والله خبير بما تعملون سورة المنافقون آية 8 ـ 11 قال: فما يوجب الزكاة؟ قال: إذا بلغ المال مائتي درهم فصاعدا، قال: فما يوجب الحج؟ قال: الزاد والبعير ".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ سَأَلَ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا سَأَلَ الرَّجْعَةَ الْكُفَّارُ، قَالَ: سَأَتْلُو عَلَيْكَ بِذَلِكَ قُرْآنًا: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ {9} وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سورة المنافقون آية 8 ـ 11 قَالَ: فَمَا يُوجِبُ الزَّكَاةَ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا، قَالَ: فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟ قَالَ: الزَّادُ وَالْبَعِيرُ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جا سکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالكم ولا أولادكم عن ذكر الله ومن يفعل ذلك فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزقناكم من قبل أن يأتي أحدكم الموت» سے «والله خبير بما تعملون» اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے (المنافقین: ۹-۱۱)، تک۔ اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہو جاتی ہے؟ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: جب مال دو سو درہم ۱؎ ہو جائے یا زیادہ، پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتا ہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5689) (ضعیف الإسناد) (سند میں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں، اور ابو جناب کلبی ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ۵۹۵ گرام چاندی ہو جائے تو اس پر زکاۃ ہے، ۱۲ فیصد زکاۃ ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803)، القسم الأول منه //

قال الشيخ زبير على زئي: (3316) إسناده ضعيف
أبو جناب يحيي بن أبى حية ضعيف مدلس، قال بن حجر: ضعفوه لكثرة تدليسه (تق:7537) والضحاك بن مزاحم: لم يسمع من ابن عباس رضى الله عنه، انظر المراسيل لإبن أبى حاتم (ص94۔97)
حدیث نمبر: 3316M
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن الثوري، عن يحيى بن ابي حية، عن الضحاك، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحوه، وقال: هكذا روى سفيان بن عيينة، وغير واحد هذا الحديث عن ابي جناب، عن الضحاك، عن ابن عباس قوله ولم يرفعوه، وهذا اصح من رواية عبد الرزاق، وابو جناب اسمه يحيى بن ابي حية وليس هو بالقوي في الحديث.(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ، وَقَالَ: هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي جَنَابٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو جَنَابٍ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
اس سند سے ضحاک نے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی،
۲- ایسے ہی روایت کی سفیان بن عیینہ اور دوسروں نے، یہ حدیث ابوجناب سے، ابوجناب نے ضحاک سے، اور ضحاک نے ابن عباس رضی الله عنہما سے ان کے اپنے قول سے اور انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے، اور یہ عبدالرزاق کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے، اور ابوجناب کا نام یحییٰ بن ابوحیہ ہے، اور وہ حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803)، القسم الأول منه //
64. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّغَابُنِ
64. باب: سورۃ التغابن سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3317
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا إسرائيل، حدثنا سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس، وساله رجل عن هذه الآية: " يايها الذين آمنوا إن من ازواجكم واولادكم عدوا لكم فاحذروهم سورة التغابن آية 14، قال: هؤلاء رجال اسلموا من اهل مكة وارادوا ان ياتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فابى ازواجهم واولادهم ان يدعوهم ان ياتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم راوا الناس قد فقهوا في الدين، هموا ان يعاقبوهم، فانزل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا إن من ازواجكم واولادكم عدوا لكم فاحذروهم سورة التغابن آية 14 الآية ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: " يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ سورة التغابن آية 14، قَالَ: هَؤُلَاءِ رِجَالٌ أَسْلَمُوا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ وَأَرَادُوا أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَزْوَاجُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ أَنْ يَدَعُوهُمْ أَنْ يَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَوُا النَّاسَ قَدْ فَقُهُوا فِي الدِّينِ، هَمُّوا أَنْ يُعَاقِبُوهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ سورة التغابن آية 14 الْآيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے آیت «يا أيها الذين آمنوا إن من أزواجكم وأولادكم عدوا لكم فاحذروهم» اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (التغابن: ۱۴)، کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس کے بارے میں اتری ہے؟ انہوں نے کہا: اہل مکہ میں کچھ لوگ تھے جو ایمان لائے تھے، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں نے انکار کیا کہ وہ انہیں چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں، پھر جب وہ (کافی دنوں کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آئے اور دیکھا کہ لوگوں نے دین کی فقہ، (دین کی سوجھ بوجھ) کافی حاصل کر لی ہے، تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو (ان کے رکاوٹ ڈالنے کے باعث) سزا دیں، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6123) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: (3317) إسناده ضعيف
سلسلة سماك عن عكرمة: ضعيفة (تقدم:65)
65. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّحْرِيمِ
65. باب: سورۃ التحریم سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3318
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن ابي ثور، قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: " لم ازل حريصا ان اسال عمر، عن المراتين من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتين قال الله عز وجل: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4 حتى حج عمر وحججت معه، فصببت عليه من الإداوة فتوضا، فقلت: يا امير المؤمنين، من المراتان من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتان قال الله: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه سورة التحريم آية 4 فقال لي: واعجبا لك يا ابن عباس، قال الزهري: وكره والله ما ساله عنه ولم يكتمه، فقال: هي عائشة، وحفصة، قال: ثم انشا يحدثني الحديث، فقال: كنا معشر قريش نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، فتغضبت على امراتي يوما، فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر من ذلك، فوالله إن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، قال: فقلت في نفسي قد خابت من فعلت ذلك منهن وخسرت، قال: وكان منزلي بالعوالي في بني امية وكان لي جار من الانصار، كنا نتناوب النزول إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فينزل يوما فياتيني بخبر الوحي وغيره، وانزل يوما فآتيه بمثل ذلك، قال: وكنا نحدث ان غسان تنعل الخيل لتغزونا، قال: فجاءني يوما عشاء فضرب علي الباب فخرجت إليه، فقال: حدث امر عظيم، قلت: اجاءت غسان، قال: اعظم من ذلك طلق رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه، قال: فقلت في نفسي قد خابت حفصة وخسرت، قد كنت اظن هذا كائنا، قال: فلما صليت الصبح شددت علي ثيابي، ثم انطلقت حتى دخلت على حفصة فإذا هي تبكي، فقلت: اطلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: لا ادري هو ذا معتزل في هذه المشربة، قال: فانطلقت فاتيت غلاما اسود، فقلت: استاذن لعمر، قال: فدخل ثم خرج إلي، قال: قد ذكرتك له فلم يقل شيئا، قال: فانطلقت إلى المسجد فإذا حول المنبر نفر يبكون، فجلست إليهم ثم غلبني ما اجد، فاتيت الغلام، فقلت: استاذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فلم يقل شيئا، قال: فانطلقت إلى المسجد ايضا فجلست ثم غلبني ما اجد، فاتيت الغلام فقلت: استاذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فلم يقل شيئا، قال: فوليت منطلقا، فإذا الغلام يدعوني، فقال: ادخل فقد اذن لك، فدخلت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم متكئ على رمل حصير قد رايت اثره في جنبيه، فقلت: يا رسول الله، اطلقت نساءك؟ قال: لا، قلت: الله اكبر لقد رايتنا يا رسول الله ونحن معشر قريش نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، فتغضبت يوما على امراتي فإذا هي تراجعني، فانكرت ذلك، فقالت: ما تنكر، فوالله إن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، قال: فقلت لحفصة: اتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: نعم، وتهجره إحدانا اليوم إلى الليل، فقلت: قد خابت من فعلت ذلك منكن وخسرت اتامن إحداكن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله، فإذا هي قد هلكت؟، فتبسم النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقلت لحفصة: لا تراجعي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا تساليه شيئا وسليني ما بدا لك، ولا يغرنك إن كانت صاحبتك اوسم منك واحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فتبسم اخرى، فقلت: يا رسول الله، استانس؟ قال: " نعم "، قال: فرفعت راسي فما رايت في البيت إلا اهبة ثلاثة، قال: فقلت: يا رسول الله، ادع الله ان يوسع على امتك فقد وسع على فارس، والروم وهم لا يعبدونه، فاستوى جالسا، فقال: " افي شك انت يا ابن الخطاب؟ اولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا، قال: وكان اقسم ان لا يدخل على نسائه شهرا فعاتبه الله في ذلك وجعل له كفارة اليمين ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال قال الزهري: فاخبرني عروة، عن عائشة، قالت: فلما مضت تسع وعشرون دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم بدا بي، قال: " يا عائشة، إني ذاكر لك شيئا فلا تعجلي حتى تستامري ابويك، قالت: ثم قرا هذه الآية: يايها النبي قل لازواجك سورة الاحزاب آية 28 " الآية، قالت: علم والله ان ابوي لم يكونا يامراني بفراقه، فقلت: افي هذا استامر ابوي فإني اريد الله ورسوله والدار الآخرة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ، عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ سورة التحريم آية 4 فَقَالَ لِي: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ، فَقَالَ: هِيَ عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ، فَقَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ مِنْ ذَلِكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَتْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، كُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، قَالَ: فَجَاءَنِي يَوْمًا عِشَاءً فَضَرَبَ عَلَيَّ الْبَابَ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: أَجَاءَتْ غَسَّانُ، قَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَا أَدْرِي هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرَبَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، قَالَ: فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، قَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْكُونَ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ أَيْضًا فَجَلَسْتُ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَنَحْنُ مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ صَاحِبَتُكِ أَوْسَمَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْتَأْنِسُ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَهُ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَقَالَ: " أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَ: وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا فَعَاتَبَهُ اللَّهُ فِي ذَلِكَ وَجَعَلَ لَهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي، قَالَ: " يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ شَيْئًا فَلَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ سورة الأحزاب آية 28 " الْآيَةَ، قَالَتْ: عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ.
عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں (التحریم: ۴)، (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی الله عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا، (اسی دوران) میں نے ان سے پوچھا: امیر المؤمنین! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دو بیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه» عمر رضی الله عنہ نے مجھ سے حیرت سے کہا: ہائے تعجب! اے ابن عباس (تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں) (زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس رضی الله عنہما نے جو بات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتا دی) انہوں نے مجھے بتایا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی الله عنہما ہیں، پھر وہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا: ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دبا کر رکھتے تھے، مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں، تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں، ایک دن ایسا ہوا کہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے (سخت) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے، اس نے کہا: آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے؟ قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑے رہتی ہیں (روٹھی اور اینٹھی رہتی) ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا: آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی، میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا، اور میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے، ایک دن وہ آتا اور جو کچھ ہوا ہوتا وہ واپس جا کر مجھے بتاتا، اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جا کر اسے بتاتا، ہم (اس وقت) باتیں کیا کرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں، ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آ کر، دروازہ کھٹکھٹایا، میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا، اس نے کہا: ایک بڑی بات ہو گئی ہے، میں نے پوچھا: کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کر آئے ہیں؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے اپنے جی میں کہا: حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی، میں سوچا کرتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا، حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ (بیٹھی) رو رہی تھی، میں نے پوچھا: کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم ہے، البتہ آپ اس بالاخانے پر الگ تھلگ بیٹھے ہیں، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں (اٹھ کر آپ سے ملنے) چلا، میں ایک کالے رنگ کے (دربان) لڑکے کے پاس آیا اور اس سے کہا: جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر کے آنے کی اجازت مانگو، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کے آنے کی خبر کی مگر آپ نے کچھ نہ کہا، میں مسجد چلا گیا (دیکھا) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رو رہے تھے، میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا، (مجھے سکون نہ ملا) میری فکرو تشویش بڑھتی گئی، میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا، میں نے کہا: جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، اس نے کہا: میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں دوبارہ مسجد میں آ کر بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہو گئی، میں (سہ بارہ) لڑکے کے پاس آ گیا اور اس سے کہا: جاؤ اور آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، کہا: میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا، (یہ سن کر) میں پلٹ پڑا، یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا، (آ جائیے آ جائیے) اندر تشریف لے جائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ہے، میں اندر چلا گیا، میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر و نشان آپ کے پہلوؤں میں دیکھا، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: اللہ اکبر، آپ نے دیکھا ہو گا اللہ کے رسول! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ آ گئے تو ہمارا سابقہ ایک ایسی قوم سے پڑ گیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں، ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے (ان کے طور طریقے) سیکھنے لگیں، ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے یہ سخت برا لگا، کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برا لگ رہا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر (روٹھی و اینٹھی) رہتی ہے، میں نے حفصہ سے کہا: کیا تم پلٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں، ہم میں کوئی بھی آپ سے (خفا ہو کر) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے، میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ گھاٹے میں رہی اور ناکام ہوئی، کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض و ناخوش ہو جائے اور وہ ہلاک و برباد ہو جائے؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے حفصہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو، جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن تو تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہے ۱؎ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکرا دیئے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں دل بستگی کی بات کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، عمر کہتے ہیں: میں نے سر اٹھایا تو گھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی و فراوانی دے جو اس نے روم و فارس کو دی ہے، جب کہ وہ اس کی عبادت و بندگی بھی نہیں کرتے ہیں، (یہ سن کر) آپ جم کر بیٹھ گئے، فرمایا: خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک و شبہہ میں پڑے ہوئے ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین (قسم کا کفارہ) ادا کرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں: عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ جب مہینے کے ۲۹ دن گزر گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے، آپ نے فرمایا: میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والا ہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها النبي قل لأزواجك» (آخر آیت تک) اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگینیاں چاہیئے، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں، اور خوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں، اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (الاحزاب: ۲۸، ۲۹)، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ جانتے تھے، قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کر لینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے، میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اور پسند کرتی ہوں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2461 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے اگر اس حرکت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی الله عنہا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں تو تم بھی اس بھرے میں مت آؤ، وہ تو تم سے زیادہ حسن و جمال کی مالک ہیں، ان کا کیا کہنا!۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3318M
Save to word اعراب
(مرفوع ، موقوف) قال قال معمر: فاخبرني ايوب، ان عائشة قالت له: يا رسول الله، لا تخبر ازواجك اني اخترتك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إنما بعثني الله مبلغا ولم يبعثني متعنتا "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب، قد روي من غير وجه عن ابن عباس.(مرفوع ، موقوف) قَالَ قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تُخْبِرْ أَزْوَاجَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا بَعَثَنِي اللَّهُ مُبَلِّغًا وَلَمْ يَبْعَثْنِي مُتَعَنِّتًا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
معمر کہتے ہیں: مجھے ایوب نے خبر دی کہ عائشہ رضی الله عنہا نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ اپنی دوسری بیویوں کو نہ بتائیے گا کہ میں نے آپ کو چنا اور پسند کیا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہے تکلیف پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 5 (1475) (حسن) (سند میں بظاہر انقطاع ہے، اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا، اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکر کیا، بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے، اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (3/328) میں بسند ابوالزبیر عن جابر مرفوعا ہے، جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے، اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحة 1516)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
66. باب وَمِنْ سُورَةِ ن
66. باب: سورۃ نٓ والقلم سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3319
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عبد الواحد بن سليم، قال: قدمت مكة فلقيت عطاء بن ابي رباح، فقلت له: يا ابا محمد إن اناسا عندنا يقولون في القدر، فقال عطاء: لقيت الوليد بن عبادة بن الصامت قال: حدثني ابي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن اول ما خلق الله القلم، فقال له: اكتب، فجرى بما هو كائن إلى الابد، وفي الحديث قصة، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب، وفيه عن ابن عباس.(قدسي) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ أُنَاسًا عِنْدَنَا يَقُولُونَ فِي الْقَدَرِ، فَقَالَ عَطَاءٌ: لَقِيتُ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، فَجَرَى بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ آیا، عطاء بن ابی رباح سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا: ابو محمد! ہمارے یہاں کچھ لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، عطا نے کہا: میں ولید بن عبادہ بن صامت سے ملا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے: سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا (بنایا) پھر اس سے کہا: لکھ، تو وہ چل پڑا، اور ہمیشہ ہمیش تک جو کچھ ہونے والا تھا سب اس نے لکھ ڈالا ۱؎۔ اس حدیث میں ایک قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اور اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2155 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی تقدیر ہے، تو پھر تقدیر کا انکار کیوں؟ تقدیر رزق کے بارے میں ہو، یا انسانی عمل کے بارے میں اللہ نے سب کو روز ازل میں لکھ رکھا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ رزق کے سلسلے میں اس نے اپنے اختیار سے لکھا ہے، اور عمل کے سلسلے میں اس نے اپنے علم غیب کی بنا پر انسان کے آئندہ عمل کے بارے میں جو جان لیا اس کو لکھا ہے اس سلسلے میں جبر نہیں کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى برقم (2258) وفيه القصة

قال الشيخ زبير على زئي: (3319) إسناده ضعيف / تقدم:2155
67. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَاقَّةِ
67. باب: سورۃ الحاقہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3320
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرحمن بن سعد، عن عمرو بن ابي قيس، عن سماك بن حرب، عن عبد الله بن عميرة، عن الاحنف بن قيس، عن العباس بن عبد المطلب، زعم انه كان جالسا في البطحاء في عصابة ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس فيهم، إذ مرت عليهم سحابة فنظروا إليها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل تدرون ما اسم هذه؟ " قالوا: نعم، هذا السحاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والمزن "، قالوا: والمزن، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والعنان "، قالوا: والعنان، ثم قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل تدرون كم بعد ما بين السماء والارض؟ " فقالوا: لا والله ما ندري، قال: " فإن بعد ما بينهما إما واحدة وإما اثنتان او ثلاث وسبعون سنة، والسماء التي فوقها كذلك، حتى عددهن سبع سموات كذلك، ثم قال: فوق السماء السابعة بحر بين اعلاه واسفله كما بين السماء إلى السماء وفوق ذلك ثمانية اوعال بين اظلافهن وركبهن مثل ما بين سماء إلى سماء، ثم فوق ظهورهن العرش بين اسفله واعلاه مثل ما بين سماء إلى سماء والله فوق ذلك "، قال عبد بن حميد، سمعت يحيى بن معين، يقول: الا يريد عبد الرحمن بن سعد ان يحج حتى نسمع منه هذا الحديث. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وروى الوليد بن ابي ثور، عن سماك، نحوه ورفعه، وروى شريك، عن سماك بعض هذا الحديث اوقفه ولم يرفعه، وعبد الرحمن هو ابن عبد الله بن سعد الرازي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرَةَ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، زَعَمَ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِيهِمْ، إِذْ مَرَّتْ عَلَيْهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرُوا إِلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا اسْمُ هَذِهِ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، هَذَا السَّحَابُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالْمُزْنُ "، قَالُوا: وَالْمُزْنُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالْعَنَانُ "، قَالُوا: وَالْعَنَانُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟ " فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا نَدْرِي، قَالَ: " فَإِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ وَإِمَّا اثْنَتَانِ أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً، وَالسَّمَاءُ الَّتِي فَوْقَهَا كَذَلِكَ، حَتَّى عَدَّدَهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ كَذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى السَّمَاءِ وَفَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِنَّ وَرُكَبِهِنَّ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ فَوْقَ ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ وَاللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ "، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ، يَقُولُ: أَلَا يُرِيدُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْ يَحُجَّ حَتَّى نَسْمَعَ مِنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، نَحْوَهُ وَرَفَعَهُ، وَرَوَى شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ أَوْقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ.
عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرما تھے، اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری، لوگ اسے دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ہم جانتے ہیں، یہ «سحاب» ہے، آپ نے فرمایا: کیا یہ «مزن» ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں یہ «مزن» بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اسے «عنان» ۱؎ بھی کہتے ہیں، لوگوں نے کہا: جی ہاں یہ «عنان» بھی ہے، پھر آپ نے لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے، آپ نے فرمایا: ان دونوں میں اکہتر (۷۱) بہتر (۷۲) یا تہتر (۷۳) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے، اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے، پھر آپ نے فرمایا: ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے (یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے (فرشتے) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھوں پر عرش ہے، عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے (یعنی عرش اتنا موٹا ہے) اور اللہ اس کے اوپر ہے۔ عبد بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے، عبدالرحمٰن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،
۳- شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا روایت کیا ہے، مرفوعاً نہیں کیا،
۴- عبدالرحمٰن، یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 19 (4723)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (193) (تحفة الأشراف: 2451) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمیرہ لین الحدیث راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یہ تینوں نام بدلیوں کے مختلف نام ہیں جو مختلف طرح کی بدلیوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
۲؎: یعنی اگر موسم حج میں یہ حدیث بیان کی جاتی اور جہمیوں کو اس کا پتہ چل جاتا تو خواہ مخواہ کے اعتراضات نہ اٹھاتے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (193)

قال الشيخ زبير على زئي: (3320) سناده ضعيف / د 4723، جه 193

Previous    39    40    41    42    43    44    45    46    47    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.