سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
63. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُنَافِقِينَ
باب: سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3314
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 8، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَحَلَفَ مَا قَالَهُ، فَلَامَنِي قَوْمِي، وَقَالُوا: مَا أَرَدْتَ إِلَّا هَذِهِ، فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ وَنِمْتُ كَئِيبًا حَزِينًا، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا سورة المنافقون آية 7 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی
(جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی
(جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا
(راوی کو شک ہو گیا ہے کہ زید بن ارقم رضی الله عنہ نے یہ کہا یا وہ کہا) آپ نے فرمایا:
”اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے:
«هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا» ”وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں
“ (المنافقون: ۷)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3312 (تحفة الأشراف: 3683) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3314 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3314
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،
جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: 7)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3314
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7024
حضرت زید بن راقم بیان کرتے ہیں ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر اس وقت تک کچھ خرچ نہ کرے۔ جب تک وہ اس سے الگ نہ ہو جائیں زہیر کہتے ہیں جو لوگ "حَوَلَه"پر زیرپڑھتے ہیں وہ اس سے پہلے من کا اضافہ کرتے ہیں اور اس (عبد اللہ بن ابی)نے کہا اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو عزت والے اس سے ذلت والوں کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7024]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ غزوہ مصطلق کا واقعہ ہے،
جس میں ایک مہاجر اور ایک انصاری کا واقعہ پیش آیا تھا،
اس موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے انتہائی قبیح اور نازیبا باتیں کی تھیں اور پھر قسمیں اٹھا کر ان سے مکرگیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7024
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4901
4901. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، میں نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں ان پر تم خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ اور یہ بھی کہا: یقینا اگر ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے ان باتوں کا ذکر کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو انہوں نے قسم اٹھا کر کہہ دیا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا خیال کیا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہو گا۔ میں تو اپنے گھر میں بیٹھ گیا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ۔۔۔ لَيُخْرِجَنَّ ٱلْأَعَزُّ مِنْهَا ٱلْأَذَلَّ﴾ اس کے بعد رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4901]
حدیث حاشیہ:
آیات مذکورہ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک سفر میں دو شخص لڑ پڑے ایک مہاجرین سے اور ایک انصار کا۔
دونوں نے اپنی حمایت کے لیے اپنی جماعت کو پکارا جس پر خاصہ ہنگامہ ہوگیا۔
یہ خبر رئیس منافقین عبداللہ بن ابی کو پہنچی کہنے لگا اگر ہم ان مہا جرین کو اپنے شہر میں جگہ نہ دیتے تو ہم سے مقابلہ کیوں کرتے، تم ہی خبر گیری کرتے ہو تو یہ لوگ رسول اللہ کے ساتھ جمع رہتے ہیں خبر گیری چھوڑ دو ابھی خرچ سے تنگ آکر متفرق ہی ہو جائیں گے اور سب مجمع بچھڑ جائے گا یہ بھی کہا کہ اس سفر سے واپس ہو کر ہم مدینہ پہنچیں تو جس کا اس شہر میں زور و اقتدار ہے چاہئے کہ ذلیل بے قدروں کو نکال دے (یعنی ہم جو معزز لوگ ہیں ذلیل مسلمانوں کو نکال دیں گے)
ایک صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں سن کر حضرت کے پاس نقل کرا دیں۔
آپ نے عبداللہ بن ابی وغیرہ سے تحقیق کی تو قسمیں کھانے لگے کہ زید بن ارقم (رضی اللہ عنہما)
نے ہماری دشمنی سے جھوٹ بولا ہے۔
لوگ زید پر آوازیں کسنے لگے وہ بےچارے سخت نادم تھے اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے سچا کر دیا۔
روایات میں ہے کہ عبداللہ بن ابی کے وہ الفاظ کہ عزت والا ذلیل کو ذلت کے ساتھ نکال دے گا جب اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کو پہنچے، جو مخلص مسلمان تھے تو باپ کے سامنے تلوار لے کر کھڑے ہو گئے بولے جب تک اقرار نہ کرے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے ہیں اور تو ذلیل ہے زندہ نہ چھوڑوں گا اور نہ مدینہ میں گھسنے دوں گا آخر اقرار کرا کر چھوڑا۔
عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو ذلیل اور اپنے آپ کو اور دیگر منافقین کو عزت دار سمجھا حالانکہ یہ کم بخت عزت اور عزت داری کا اصول بھی نہیں سمجھتے، اصل عزت وہ ہے جو زوال پذیر نہ ہو۔
مال سرکاری نوکری تجارت وغیرہ یہ سب زوال پذیر ہیں آج کوئی شخص مالدار ہے تو کل نہیں آج کوئی سرکاری عہدہ پر ہے تو کل معزول ہے اس لئے ان لوگوں کی عزت اصل نہیں۔
اصل عزت الله کی ہے اور رسول کی ہے اور صالحین کی ہے جو شخص ایمان کی وجہ سے معزز ہیں چاہے۔
امیر ہوں یا غریب اس میں کچھ فرق نہیں، ان کے علماء فقراءعزت کے مستحق ہیں، وہ سب مومنین میں داخل ہیں مگر منافق لوگ جانتے نہیں ہیں کہ عزت کیا شے ہے، مسلمانو! تم جانتے ہو کہ ان منافقوں کا یہ گھمنڈ دو وجہ سے ہے ایک قوت بازو سے یعنی یہ جانتے ہیں کہ ہم مالدار ہیں۔
دوم یہ ہے کہ ہم اولاد والے بھی ہیں ہم جہاں کھڑے ہو جائیں ہماری قوت ہمارے ساتھ ہے یہ باتیں غرور کی ہیں پس تم مال اور اولاد کا گھمنڈ نہ کرنا کیونکہ یہ چیزیں آنے اور جانے والی ہیں، ان پر گھمنڈ کرنا اور اترانا نہ چاہئے بلکہ شکر کرنا چاہئے پس تم مسلمان ایسے افعال مکروہ سے بچتے رہا کرو اور منافقوں کی طرح بخل نہ کیا کرو۔
(ثنائی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4901
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4904
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے، دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھا کھا کر اپنی برات ظاہر کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا بعد وحی الٰہی نے عبداللہ بن ابی کا جھوٹ ظاہر فرمایا اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے بیان کی تصدیق فرمائی جس سے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کا دل مطمئن ہو گیا اور منافقین کا سورۃ منافقین میں سارا پول کھول دیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4904
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4900
4900. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ایک لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں، ان پر تم خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی آپ ﷺ کو چھوڑ کر تتر بتر ہو جائیں۔ (اس نے یہ بھی کہا کہ) اب ہم جب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے ان باتوں کا ذکر اپنے چچا یا سیدنا عمر ؓ سے کر دیا۔ ان حضرات نے یہ باتیں نبی ﷺ کو بتا دیں۔ آپ نے مجھے بلایا تو میں نے یہ باتیں آپ سے کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا، انہوں نے قسم اٹھائی کہ ہم نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جھوٹا سمجھا اور اسے سچا خیال کیا۔ مجھے اس بات سے اتنا دکھ ہوا کہ اتنا کسی اور بات سے نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4900]
حدیث حاشیہ:
1۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک سے واپسی پر پیش آیا۔
(السنن الکبری للنسائي: 492/6/8۔
رقم: 11597)
لیکن اہل مغازی کا رجحان ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی مصطلق میں ہوا، اس کی تائید آئندہ آنے والی حدیث جابر سے بھی ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 821/8)
2۔
واضح رہے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے:
ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے، دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے کا عقیدہ ہے۔
اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو شہادت دینے والا کا عقیدہ بھی وہی ہو جسے زبان سے بیان کررہا ہے تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہوگا جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبداللہ بن ابی کے متعلق شہادت تھی اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو لیکن شہادت دینے والا اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو ہم ایک لحاظ سے اسے سچا کہیں گے کیونکہ وہ اپنا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے اور دوسرے لحاظ سے اسے جھوٹا کہیں گے کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہاہے وہ بجائے خود غلط ہے۔
اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کےخلاف ہو جیسا کہ منافقین کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان ہوئی ہے تو اس لحاظ سے اسے جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں جس کا وہ زبان سے اظہار کررہا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4900
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4901
4901. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، میں نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں ان پر تم خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ اور یہ بھی کہا: یقینا اگر ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے ان باتوں کا ذکر کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو انہوں نے قسم اٹھا کر کہہ دیا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا خیال کیا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہو گا۔ میں تو اپنے گھر میں بیٹھ گیا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ۔۔۔ لَيُخْرِجَنَّ ٱلْأَعَزُّ مِنْهَا ٱلْأَذَلَّ﴾ اس کے بعد رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4901]
حدیث حاشیہ: 1۔
جن قسموں کو منافقین بطورڈھال استعمال کرتے تھے وہ کئی طرح کی ہوسکتی ہیں، مثلاً:
۔
وہ قسمیں جو عام طور پر منافق اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے۔
۔
وہ قسمیں جو منافق اپنی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر کھایا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یقین دلائیں کہ وہ حرکت انھوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی۔
۔
وہ قسمیں بھی ہوسکتی ہیں جورئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت یہ واقعہ بیان کر کے اپنا رجحان بیان کیا ہے کہ ان قسموں سے مراد قسمیں وہ ہیں جو منافقوں نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جھوٹا قرار دینے کے لیے اٹھائی تھیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4901
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4902
4902. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبداللہ بن ابی نے کہا: جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس ہیں، ان پر خرچ نہ کرو۔ اور یہ بھی کہا: اب اگر ہم مدینے واپس گئے (تو ہم میں سے عزت والا ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا۔) میں نے یہ باتیں نبی ﷺ کو پہنچا دیں، اس پر انصار نے مجھے ملامت کی اور عبداللہ بن ابی نے تو قسم کھا لی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی، تاہم میں گھر واپس آ گیا اور سو گیا۔ اس کے بعد مجھے رسول اللہ ﷺ نے طلب فرمایا، میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہاری تصدیق کر دی ہے۔“ اور یہ آیات نازل ہوئیں: ﴿هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا﴾ ابن ابی زائدہ نے اعمش سے بیان کیا، انہوں نے عمرو سے انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے، انہوں نے حضرت زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4902]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس روایت میں ہے کہ انھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع دی تھی جبکہ پہلی روایات میں ہے کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچے کو بتایا انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔
ان روایات میں کوئی تضادنہیں کیونکہ پہلے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچے سے واقعہ بیان کیا، پھر جب منافقوں نے اس کا انکار کیا تو آپ نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔
2۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے۔
دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
عبداللہ بن ابی ملعون نے قسمیں اٹھا کر اپنی براءت کو ظاہر کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اس کے جھوٹ کا پول کھول دیا اورسیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق فرمائی۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4902
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4904
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ: 1۔
عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اعتقادی نفاق کا شکار تھے جس کی درج ذیل چھ قسمیں ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھیں انتہائی بغض تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بھی وہ خوش نہیں تھے۔
۔
وہ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔
۔
ان تعلیمات کی بھی تکذیب کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرآئے تھے۔
۔
دین اسلام کی مدد کو انتہائی ناپسند خیال کرتے تھے۔
۔
دین اسلام کو نیچا دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے:
”اورجب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی واپس چلے گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپارہے ہیں اسے اللہ خوب جانتاہے۔
“ (المائدة: 61/5) ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا مقصد حصول ہدایت نہیں بلکہ دھوکا دہی ہوتا تھا ایسی حاضری سے انھیں فائدہ بھی کیا ہو سکتا تھا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4904