(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق، عن زيد بن اثيع، عن علي، نحوه، قال ابو عيسى: وقد روي عن ابن عيينة كلتا الروايتين، يقال عنه، عن ابن اثيع، وعن ابن يثيع، والصحيح هو زيد بن اثيع، وقد روى شعبة، عن ابي إسحاق، عن زيد، غير هذا الحديث فوهم فيه وقال زيد بن اثيل، ولا يتابع عليه، وفي الباب عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ، يُقَالُ عَنْهُ، عَنِ ابْنِ أُثَيْعٍ، وَعَنِ ابْنِ يُثَيْعٍ، وَالصَّحِيحُ هُوَ زَيْدُ بْنُ أَثَيْعٍ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدٍ، غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ فَوَهِمَ فِيهِ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ، وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
اس سند سے بھی ابواسحاق نے زید بن اثیع کے واسطہ سے علی سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عیینہ سے یہ دونوں روایتیں آئی ہیں، ۲- کہا جاتا ہے کہ سفیان نے «عن ابن اثیع» اور «عن ابن یثیع»( «الف» اور «ی» کے فرق کے ساتھ دونوں) روایت کیا ہے۔ اور صحیح زید بن یثیع ہے، ۳- شعبہ نے ابواسحاق کے واسطہ سے زید سے اس حدیث کے علاوہ بھی روایت کی ہے جس میں انہیں وہم ہو گیا ہے۔ زید بن اثیل کہا، اور ایسا کہنے میں ان کا کوئی متابع (موید) نہیں ہے، ۴- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا رشدين بن سعد، عن عمرو بن الحارث، عن دراج، عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا رايتم الرجل يعتاد المسجد فاشهدوا له بالإيمان، قال الله تعالى: إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر سورة التوبة آية 18 ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالْإِيمَانِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ سورة التوبة آية 18 ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد کا عادی ہے (یعنی برابر مسجد میں نمازیں پڑھنے جاتا ہے) تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دو“، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر»”اللہ کی مسجدیں وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں“(التوبہ: ۱۸)۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2617 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: (حديث: " إذا رأيتم الرجل ... ") ضعيف، (حديث: " يتعاهد المسجد ") ضعيف (حديث: " إذا رأيتم الرجل ... ") مضى (2750) // (490 / 2763)، ضعيف الجامع الصغير (509)، المشكاة (723) //، (حديث: " يتعاهد المسجد ") انظر ما قبله (3092) // وتقدم برقم (490 / 2763) //
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن دراج، عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، إلا انه قال: " يتعاهد المسجد "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وابو الهيثم اسمه سليمان بن عمرو بن عبد العتواري، وكان يتيما في حجر ابي سعيد الخدري.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " يَتَعَاهَدُ الْمَسْجِدَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْهَيْثَمِ اسْمُهُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدٍ الْعُتْوَارِيُّ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، اور عبداللہ نے عمرو بن حارث سے، عمرو نے دراج سے، دراج نے ابوالہیثم سے اور ابوالہیثم نے ابوسعید کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے مگر انہوں نے «يعمر مساجد الله» کی جگہ «يتعاهد المسجد» کہا کہ وہ مسجد کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے، ۲- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ابوالھیثم کا نام سلیمان بن عمرو بن عبدالعتواری ہے وہ یتیم تھے اور ان کی پرورش ابو سعید خدری کی گود یعنی سرپرستی میں ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: (حديث: " إذا رأيتم الرجل ... ") ضعيف، (حديث: " يتعاهد المسجد ") ضعيف (حديث: " إذا رأيتم الرجل ... ") مضى (2750) // (490 / 2763)، ضعيف الجامع الصغير (509)، المشكاة (723) //، (حديث: " يتعاهد المسجد ") انظر ما قبله (3092) // وتقدم برقم (490 / 2763) //
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، عن ثوبان، قال: " لما نزلت والذين يكنزون الذهب والفضة سورة التوبة آية 34 قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، فقال بعض اصحابه: انزل في الذهب والفضة ما انزل لو علمنا اي المال خير فنتخذه، فقال: " افضله لسان ذاكر، وقلب شاكر، وزوجة مؤمنة تعينه على إيمانه "، قال: هذا حديث حسن سالت محمد بن إسماعيل، فقلت له: سالم بن ابي الجعد سمع من ثوبان؟ فقال: لا، فقلت: له ممن سمع من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: سمع من جابر بن عبد الله، وانس بن مالك، وذكر غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ سورة التوبة آية 34 قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: أُنْزِلَ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا أُنْزِلَ لَوْ عَلِمْنَا أَيُّ الْمَالِ خَيْرٌ فَنَتَّخِذَهُ، فَقَالَ: " أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ، وَقَلْبٌ شَاكِرٌ، وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، فَقُلْتُ لَهُ: سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ سَمِعَ مِنْ ثَوْبَانَ؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: لَهُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: سَمِعَ مِنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَذَكَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «والذين يكنزون الذهب والفضة»”اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئیے“(التوبہ: ۳۴)، نازل ہوئی، اس وقت ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے بعض صحابہ نے کہا: سونے اور چاندی کے بارے میں جو اترا سو اترا (یعنی اس کی مذمت آئی) اگر ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو اسی کو اپناتے۔ آپ نے فرمایا: ”بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو، شکر گزار دل ہو، اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہو جو اس کے ایمان کو پختہ تر بنانے میں مددگار ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا کہ کیا سالم بن ابی الجعد نے ثوبان سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے ان سے کہا: پھر انہوں نے کسی صحابی سے سنا ہے؟ کہا: انہوں نے جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی الله عنہما سے سنا ہے اور انہوں نے ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کا ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 5 (1856) (تحفة الأشراف: 2084)، و مسند احمد (5/278، 282) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1856)
قال الشيخ زبير على زئي: (3094) إسناده ضعيف / جه 1856 سالم بن أبى الجعد لم يسمع من ثوبان رضى الله عنه كما رواه الترمزي عن البخاري وللحديث شاھد ضعيف فى مسند الإمام أحمد (366/59) فيه سلم بن عطية الفقيمي وھو ضعيف ضعفه الجمھور
(مرفوع) حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي، حدثنا عبد السلام بن حرب، عن غطيف بن اعين، عن مصعب بن سعد، عن عدي بن حاتم، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وفي عنقي صليب من ذهب، فقال:" يا عدي، اطرح عنك هذا الوثن، وسمعته يقرا في سورة براءة اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله سورة التوبة آية 31، قال:" اما إنهم لم يكونوا يعبدونهم، ولكنهم كانوا إذا احلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه"، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد السلام بن حرب، وغطيف بن اعين ليس بمعروف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" يَا عَدِيُّ، اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سورة التوبة آية 31، قَالَ:" أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، وَغُطَيْفُ بْنُ أَعْيَنَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ فِي الْحَدِيثِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ نے فرمایا: ”عدی! اس بت کو نکال کر پھینک دو، میں نے آپ کو سورۃ برأۃ کی آیت: «اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله»”انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو معبود بنا لیا ہے“(التوبہ: ۳۱)، پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عبدالسلام بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ۳- غطیف بن اعین حدیث میں معروف نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9877) (حسن) (سند میں غطیف ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس طرح وہ احبار و رہبان حلال و حرام ٹھہرا کر اللہ کے اختیار میں شریک بن گئے، اور اس حلال و حرام کو ماننے والے لوگ مشرک اور ان احبار و رہبان کے ”عبادت گزار“ قرار دئیے گئے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: (3095) إسناده ضعيف غطيف: ضعيف (تق: 5364) وللحديث شاھد موقوف عندالطبري فى تفسيرة (81/10) وسنده ضعيف منقطع
(مرفوع) حدثنا زياد بن ايوب البغدادي، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا همام، حدثنا ثابت، عن انس، ان ابا بكر حدثه، قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم ونحن في الغار: لو ان احدهم ينظر إلى قدميه لابصرنا تحت قدميه، فقال:" يا ابا بكر، ما ظنك باثنين الله ثالثهما"، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب، إنما يعرف من حديث همام تفرد به، وقد روى هذا الحديث حبان بن هلال، وغير واحد، عن همام نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي الْغَارِ: لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ يَنْظُرُ إِلَى قَدَمَيْهِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا"، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ تَفَرَّدَ بِهِ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ هَمَّامٍ نَحْوَ هَذَا.
ابوبکر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جب غار میں تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر ان (کافروں) میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالے تو ہمیں اپنے قدموں کے نیچے (غار میں) دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا: ”ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال و گمان ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ہمام کی حدیث مشہور ہے اور ہمام اس روایت میں منفرد ہیں، ۳- اس حدیث کو حبان بن ہلال اور کئی لوگوں نے اسی کے مانند ہمام سے روایت کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: سمعت عمر بن الخطاب، يقول: لما توفي عبد الله بن ابي، دعي رسول الله صلى الله عليه وسلم للصلاة عليه، فقام إليه فلما وقف عليه يريد الصلاة تحولت حتى قمت في صدره، فقلت: يا رسول الله، اعلى عدو الله عبد الله بن ابي القائل يوم كذا وكذا كذا وكذا يعد ايامه، قال: ورسول الله صلى الله عليه وسلم يتبسم، حتى إذا اكثرت عليه، قال:" اخر عني يا عمر، إني خيرت فاخترت قد قيل لي: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80 لو اعلم اني لو زدت على السبعين غفر له لزدت، قال: ثم صلى عليه ومشى معه فقام على قبره حتى فرغ منه قال: فعجب لي وجراتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله ورسوله اعلم، فوالله ما كان إلا يسيرا حتى نزلت هاتان الآيتان ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84 إلى آخر الآية، قال: فما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعده على منافق، ولا قام على قبره حتى قبضه الله"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ، فَقَامَ إِلَيْهِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا يَعُدُّ أَيَّامَهُ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ:" أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ قَدْ قِيلَ لِي: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80 لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ وَمَشَى مَعَهُ فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ قَالَ: فَعَجَبٌ لِي وَجُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، وَلَا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے، آپ کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہا تھا؟ وہ اس کے بےادبی و بدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے یہاں تک کہ جب میں بہت کچھ کہہ گیا (حد سے تجاوز کر گیا) تو آپ نے فرمایا: ”(بس بس) مجھ سے ذرا پرے جاؤ عمر! مجھے اختیار دیا گیا ہے تو میں نے اس کے لیے مغفرت طلبی کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ مجھ سے کہا گیا ہے: «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم»”ان (منافقوں) کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اگر تم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کرو گے تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا“(التوبہ: ۸۰)، اگر میں جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت طلب کرنے سے وہ معاف کر دیا جائے گا تو ستر بار سے بھی زیادہ میں اس کے لیے مغفرت مانگتا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ اس کے کفن دفن سے فارغ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اپنی جرات و جسارت پر مجھے حیرت ہوئی۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ۱؎، قسم اللہ کی! بس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره»”ان میں سے کسی (منافق) کی جو مر جائے نماز جنازہ کبھی بھی نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو“(التوبہ: ۸۴)، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرنے تک کبھی بھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا فرمائی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا عبيد الله، اخبرنا نافع، عن ابن عمر، قال: جاء عبد الله بن عبد الله بن ابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم حين مات ابوه، فقال: اعطني قميصك اكفنه فيه، وصل عليه، واستغفر له، فاعطاه قميصه وقال: إذا فرغتم فآذنوني"، فلما اراد ان يصلي جذبه عمر، وقال: اليس قد نهى الله ان تصلي على المنافقين؟ فقال:" انا بين خيرتين استغفر لهم او لا تستغفر لهم سورة التوبة آية 80 فصلى عليه، فانزل الله ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84 فترك الصلاة عليهم"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ أَبُوهُ، فَقَالَ: أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، وَصَلِّ عَلَيْهِ، وَاسْتَغْفِرْ لَهُ، فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ وَقَالَ: إِذَا فَرَغْتُمْ فَآذِنُونِي"، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ جَذَبَهُ عُمَرُ، وَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ نَهَى اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ؟ فَقَالَ:" أَنَا بَيْنَ خِيرَتَيْنِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سورة التوبة آية 80 فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِمْ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کے باپ کا جب انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ اپنی قمیص ہمیں عنایت فرما دیں، میں انہیں (عبداللہ بن ابی) اس میں کفن دوں گا۔ اور ان کی نماز جنازہ پڑھ دیجئیے اور ان کے لیے استغفار فرما دیجئیے۔ تو آپ نے عبداللہ کو اپنی قمیص دے دی۔ اور فرمایا: ”جب تم (غسل و غیرہ سے) فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دو۔ پھر جب آپ نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر رضی الله عنہ نے آپ کو کھینچ لیا، اور کہا: کیا اللہ نے آپ کو منافقین کی نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے دو چیزوں «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم»”ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو“ میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا۔ چنانچہ آپ نے اس کی نماز پڑھی۔ جس پر اللہ نے آیت «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» نازل فرمائی۔ تو آپ نے ان (منافقوں) پر نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عمران بن ابي انس، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد، عن ابي سعيد الخدري، انه قال:" تمارى رجلان في المسجد الذي اسس على التقوى من اول يوم فقال رجل هو مسجد قباء، وقال الآخر: هو مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو مسجدي هذا"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث عمران بن ابي انس، وقد روي هذا عن ابي سعيد من غير هذا الوجه، ورواه انيس بن ابي يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" تَمَارَى رَجُلَانِ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ فَقَالَ رَجُلٌ هُوَ مَسْجِدُ قُبَاءَ، وَقَالَ الْآخَرُ: هُوَ مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ مَسْجِدِي هَذَا"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَاهُ أُنَيْسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمی اس مسجد کے بارے میں اختلاف کر بیٹھے جس کی تاسیس و تعمیر پہلے دن سے تقویٰ پر ہوئی ہے ۱؎(کہ وہ کون سی ہے؟) ایک شخص نے کہا: وہ مسجد قباء ہے اور دوسرے نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ تب آپ نے فرمایا: ”وہ میری یہی مسجد (مسجد نبوی) ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمران بن ابی انس کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابو سعید خدری سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے، ۳- اسے انیس بن ابی یحییٰ نے اپنے والد سے اور ان کے والد ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ ارشاد باری «لمسجد أسس على التقوى من أول يوم»(التوبہ: ۱۰۸) کی طرف اشارہ ہے۔
۲؎: اس مسجد کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مسجد نبوی ہے یا مسجد قباء اس حدیث میں ہے کہ وہ مسجد نبوی ہے، جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ وہ مسجد قباء ہے، اور آیت کے سیاق و سباق سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ مسجد قباء ہے، تو اس حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ”وہ یہی مسجد نبوی ہے“ کا کیا جواب ہے؟ جواب یہ ہے کہ آپ کے جواب کا مطلب صرف اتنا ہے کہ میری اس مسجد کی بھی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد پڑی ہے، علماء کی توجیہات کا یہی خلاصہ ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء ابو كريب، حدثنا معاوية بن هشام، حدثنا يونس بن الحارث، عن إبراهيم بن ابي ميمونة، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" نزلت هذه الآية في اهل قباء فيه رجال يحبون ان يتطهروا والله يحب المطهرين سورة التوبة آية 108، قال: كانوا يستنجون بالماء فنزلت هذه الآية فيهم"، قال: هذا حديث غريب من هذا الوجه، قال: وفي الباب، عن ابي ايوب، وانس بن مالك، ومحمد بن عبد الله بن سلام.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مَيْمُونَة، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي أَهْلِ قُبَاءَ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ سورة التوبة آية 108، قَالَ: كَانُوا يَسْتَنْجُونَ بِالْمَاءِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِيهِمْ"، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیت «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين»”اس میں (قباء میں) وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے“(التوبہ: ۱۰۸)، اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ استنجاء پانی سے کرتے تھے، تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب، انس بن مالک اور محمد بن عبداللہ بن سلام سے بھی روایت ہے۔