الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3084
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة بن عبد الله، عن عبد الله بن مسعود، قال: لما كان يوم بدر وجيء بالاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تقولون في هؤلاء الاسارى؟ فذكر في الحديث قصة طويلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا ينفلتن منهم احد إلا بفداء او ضرب عنق "، قال عبد الله بن مسعود: فقلت: يا رسول الله، إلا سهيل ابن بيضاء فإني قد سمعته يذكر الإسلام، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فما رايتني في يوم اخوف ان تقع علي حجارة من السماء مني في ذلك اليوم، قال: حتى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا سهيل بن بيضاء "، قال: ونزل القرآن بقول عمر: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض سورة الانفال آية 67 إلى آخر الآيات "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو عبيدة بن عبد الله لم يسمع من ابيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَجِيءَ بِالْأَسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأَسَارَى؟ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْفَلِتَنَّ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَاءٍ أَوْ ضَرْبِ عُنُقٍ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا سُهَيْلَ ابْنَ بَيْضَاءَ فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ الْإِسْلَامَ، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُنِي فِي يَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ حِجَارَةٌ مِنَ السَّمَاءِ مِنِّي فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، قَالَ: حَتَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا سُهَيْلَ بْنَ بَيْضَاءِ "، قَالَ: وَنَزَلَ الْقُرْآنُ بِقَوْلِ عُمَرَ: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى آخِرِ الْآيَاتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کی لڑائی ہوئی اور قیدی پکڑ کر لائے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیدیوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟ پھر راوی نے حدیث میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشوروں کا طویل قصہ بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغیر فدیہ کے کسی کو نہ چھوڑا جائے، یا اس کی گردن اڑا دی جائے۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام کی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے، (مجھے توقع ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تو میں نے اس دن اتنا خوف محسوس کیا کہ کہیں مجھ پر پتھر نہ برس پڑیں، اس سے زیادہ کسی دن بھی میں نے اپنے کو خوف زدہ نہ پایا ۱؎، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اور عمر رضی الله عنہ کی تائید میں «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» کسی نبی کے لیے یہ مناسب اور سزاوار نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ پورے طور پر خوں ریزی نہ کر لے (الأنفال: ۶۷)، والی آیت آخر تک نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے سنا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1714 (ضعیف) (سند میں ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت:
۱؎: آپ کی خاموشی میرے لیے پریشانی کا باعث تھی کہ کہیں میری بات آپ کو ناگوار نہ لگی ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف مضى (1767) // (288 / 1783) //
حدیث نمبر: 3085
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرني معاوية بن عمرو، عن زائدة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لم تحل الغنائم لاحد سود الرءوس من قبلكم كانت تنزل نار من السماء فتاكلها "، قال سليمان الاعمش: فمن يقول هذا إلا ابو هريرة الآن، فلما كان يوم بدر وقعوا في الغنائم قبل ان تحل لهم فانزل الله تعالى: لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما اخذتم عذاب عظيم سورة الانفال آية 68، قال 12 ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث الاعمش.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَائِدَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ سُودِ الرُّءُوسِ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانَتْ تَنْزِلُ نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتَأْكُلُهَا "، قَالَ سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ: فَمَنْ يَقُولُ هَذَا إِلَّا أَبُو هُرَيْرَةَ الْآنَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَقَعُوا فِي الْغَنَائِمِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ لَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لَوْلا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة الأنفال آية 68، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں سے پہلے کسی کالے بالوں والے (مراد ہے انسان) کے لیے اموال غنیمت حلال نہ تھے، آسمان سے ایک آگ آتی اور غنائم کو کھا جاتی (بھسم کر دیتی) سلیمان اعمش کہتے ہیں: اسے ابوہریرہ کے سوا اور کون کہہ سکتا ہے اس وقت؟ بدر کی لڑائی کے وقت مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ قبل اس کے کہ اموال غنیمت تقسیم کر کے ہر ایک کو دے کر ان کے لیے حلال کر دی جاتیں وہ لوگ اموال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ اس وقت اللہ نے یہ آیت «لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم» اگر پہلے سے تمہارے حق میں اللہ کی جانب سے لکھا نہ جا چکا ہو تاکہ تمہیں غنائم ملیں گے تو تمہیں تمہارے اس کے لینے کے سبب سے بڑا عذاب پہنچتا (الأنفال: ۶۸) نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12378)، وانظر صحیح مسلم/الجھاد 11 (1747)، و مسند احمد (2/252، 317، 318) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2155)
10. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ
10. باب: سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3086
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، ومحمد بن جعفر، وابن ابي عدي، وسهل بن يوسف، قالوا: حدثنا عوف بن ابي جميلة، حدثنا يزيد الفارسي، حدثنا ابن عباس، قال: قلت لعثمان بن عفان: ما حملكم ان عمدتم إلى الانفال وهي من المثاني، وإلى براءة وهي من المئين فقرنتم بينهما ولم تكتبوا بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم، ووضعتموها في السبع الطول، ما حملكم على ذلك؟ فقال عثمان: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مما ياتي عليه الزمان وهو تنزل عليه السور ذوات العدد، فكان إذا نزل عليه الشيء دعا بعض من كان يكتب فيقول: ضعوا هؤلاء الآيات في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا، وإذا نزلت عليه الآية فيقول ضعوا هذه الآية في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا، وكانت الانفال من اوائل ما انزلت بالمدينة، وكانت براءة من آخر القرآن، وكانت قصتها شبيهة بقصتها فظننت انها منها، فقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يبين لنا انها منها فمن اجل ذلك قرنت بينهما، ولم اكتب بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم فوضعتها في السبع الطول "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث عوف، عن يزيد الفارسي، عن ابن عباس، ويزيد الفارسي هو من التابعين، قد روى عن ابن عباس غير حديث، ويقال هو يزيد بن هرمز، ويزيد الرقاشي هو يزيد بن ابان الرقاشي، وهو من التابعين ولم يدرك ابن عباس إنما روى عن انس بن مالك وكلاهما من التابعين من اهل البصرة، ويزيد الفارسي اقدم من يزيد الرقاشي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وسهل بن يوسف، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، وَإِلَى بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ، مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ وَهُوَ تَنْزِلُ عَلَيْهِ السُّوَرُ ذَوَاتُ الْعَدَدِ، فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ فَيَقُولُ: ضَعُوا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الْآيَةُ فَيَقُولُ ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ بَرَاءَةُ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ هُوَ مِنَ التَّابِعِينَ، قَدْ رَوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ حَدِيثٍ، وَيُقَالُ هُوَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، وَيَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ هُوَ يَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ، وَهُوَ مِنَ التَّابِعِينَ وَلَمْ يُدْرِكْ ابْنَ عَبَّاسٍ إِنَّمَا رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَكِلَاهُمَا مِنَ التَّابِعِينَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ أَقْدَمُ مِنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورۃ الانفال کو جو «مثانی» میں سے ہے اور سورۃ برأۃ کو جو «مئین» میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو «سبع طوال» (سات لمبی سورتوں) میں شامل کر دیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں، تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورۃ میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورۃ میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورۃ الانفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورۃ برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ (و تکملہ) ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورۃ اسی سورۃ کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا اور ہم نے اسے «سبع طوال» میں رکھ دیا (شامل کر دیا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں، انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔ اور یزید رقاشی یہ یزید بن ابان رقاشی ہیں، یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔ انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے، اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔ اور یزید فارسی، یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 125 (786) (تحفة الأشراف: 9819)، و مسند احمد (1/57، 69) (ضعیف) (سند میں یزید الفارسی البصری مقبول راوی ہیں یعنی متابعت کے وقت اور متابعت موجود نہیں ہے اس لیے لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (140) // عندنا برقم (168 / 786) //
حدیث نمبر: 3087
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا حسين بن علي الجعفي، عن زائدة، عن شبيب بن غرقدة، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص، حدثنا ابي، انه شهد حجة الوداع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله واثنى عليه وذكر ووعظ، ثم قال: " اي يوم احرم؟ اي يوم احرم؟ اي يوم احرم؟ قال: فقال الناس: يوم الحج الاكبر يا رسول الله، قال: " فإن دماءكم واموالكم واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، الا لا يجني جان إلا على نفسه، ولا يجني والد على ولده ولا ولد على والده، الا إن المسلم اخو المسلم فليس يحل لمسلم من اخيه شيء إلا ما احل من نفسه، الا وإن كل ربا في الجاهلية موضوع لكم رءوس اموالكم لا تظلمون ولا تظلمون، غير ربا العباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع كله، الا وإن كل دم كان في الجاهلية موضوع، واول دم وضع من دماء الجاهلية دم الحارث بن عبد المطلب كان مسترضعا في بني ليث فقتلته هذيل، الا واستوصوا بالنساء خيرا فإنما هن عوان عندكم ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا ان ياتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن اطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، الا إن لكم على نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا، فاما حقكم على نسائكم فلا يوطئن فرشكم من تكرهون ولا ياذن في بيوتكم من تكرهون، الا وإن حقهن عليكم ان تحسنوا إليهن في كسوتهن وطعامهن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه ابو الاحوص، عن شبيب بن غرقدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ: " أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ؟ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ؟ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ؟ قَالَ: فَقَالَ النَّاسُ: يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا وَلَدٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ فَلَيْسَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِهِ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ مِنْ دِمَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٍ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، أَلَا وَإِنَّ حَقَّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.
سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس ہے؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! حج اکبر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن لو! کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا، کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔ اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گا کہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔ آگاہ رہو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دیدے۔ سن لو! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال (اصل پونجی) لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم و زیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی۔ سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر خون ختم کر دیا گیا ہے ۱؎ اور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے، وہ قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیتے تھے، تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا، سنو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (و برتاؤ) کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے پاس بے کس و لاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم و زیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہو جاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے ابوالا ٔحوص نے شبیب بن غرقدہ سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2159 (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی معاف کر دیا گیا ہے، اب جاہلیت کے کسی خون کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1851)
حدیث نمبر: 3088
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا ابي، عن ابيه، عن محمد بن إسحاق، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن يوم الحج الاكبر؟ فقال: " يوم النحر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ؟ فَقَالَ: " يَوْمُ النَّحْرِ ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: حج اکبر کا دن کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: نحر (قربانی) کا دن ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 957 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس لیے کہ اکثر امور حج طواف، زیارت، رمی اور ذبح و حلق وغیرہ اسی دن انجام پاتے ہیں۔ اور یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں لائیں ہیں «يوم الحج الأكبر» (التوبہ: ۳)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (970)
حدیث نمبر: 3089
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: " يوم الحج الاكبر يوم النحر "، قال: هذا الحديث اصح من حديث محمد بن إسحاق لانه روي من غير وجه، هذا الحديث عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي موقوفا، ولا نعلم احدا رفعه إلا ما روي عن محمد بن إسحاق، وقد روى شعبة هذا الحديث عن ابي إسحاق، عن عبد الله بن مرة، عن الحارث، عن علي موقوفا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ "، قَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق لِأَنَّهُ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر کا دن یوم النحر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ حدیث کئی سندوں سے ابواسحاق سے مروی ہے، اور ابواسحاق حارث کے واسطہ سے علی رضی الله عنہ سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔ اور ہم کسی کو محمد بن اسحاق کے سوا نہیں جانتے کہ انہوں نے اسے مرفوع کیا ہو،
۲- شعبہ نے اس حدیث کو ابواسحاق سے، ابواسحاق نے عبداللہ بن مرہ سے، اور عبداللہ نے حارث کے واسطہ سے علی رضی الله عنہ سے موقوفا ہی روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، انظر حدیث رقم 957 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **
حدیث نمبر: 3090
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عفان بن مسلم، وعبد الصمد بن عبد الوارث، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن انس بن مالك، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم ببراءة مع ابي بكر ثم دعاه، فقال: " لا ينبغي لاحد ان يبلغ هذا إلا رجل من اهلي، فدعا عليا فاعطاه إياها "، قال: هذا حديث حسن غريب من حديث انس بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَاءَةٌ مَعَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ دَعَاهُ، فَقَالَ: " لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُبَلِّغَ هَذَا إِلَّا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِي، فَدَعَا عَلِيًّا فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برأۃ ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ بھیجی ۱؎ پھر آپ نے انہیں بلا لیا، فرمایا: میرے خاندان کے کسی فرد کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جا کر یہ پیغام وہاں پہنچائے (اس لیے تم اسے لے کر نہ جاؤ) پھر آپ نے علی رضی الله عنہ کو بلایا اور انہیں سورۃ برأۃ دے کر (مکہ) بھیجا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث انس بن مالک کی روایت سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 896) (حسن الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: تاکہ مکہ میں جا کر اسے لوگوں کو سنا دیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
حدیث نمبر: 3091
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن سليمان، حدثنا عباد بن العوام، حدثنا سفيان بن حسين، عن الحكم بن عتيبة، عن مقسم، عن ابن عباس، قال: " بعث النبي صلى الله عليه وسلم ابا بكر وامره ان ينادي بهؤلاء الكلمات، ثم اتبعه عليا، فبينا ابو بكر في بعض الطريق إذ سمع رغاء ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم القصواء، فخرج ابو بكر فزعا فظن انه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو علي فدفع إليه كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامر عليا ان ينادي بهؤلاء الكلمات، فانطلقا فحجا، فقام علي ايام التشريق، فنادى ذمة الله ورسوله بريئة من كل مشرك، فسيحوا في الارض اربعة اشهر ولا يحجن بعد العام مشرك، ولا يطوفن بالبيت عريان، ولا يدخل الجنة إلا مؤمن، وكان علي ينادي فإذا عيي قام ابو بكر فنادى بها "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ عَلِيًّا، فَبَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ إِذْ سَمِعَ رُغَاءَ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَصْوَاءِ، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَزِعًا فَظَنَّ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَدَفَعَ إِلَيْهِ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، فَانْطَلَقَا فَحَجَّا، فَقَامَ عَلِيٌّ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَنَادَى ذِمَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ بَرِيئَةٌ مِنْ كُلِّ مُشْرِكٍ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَنَّ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَكَانَ عَلِيٌّ يُنَادِي فَإِذَا عَيِيَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى بِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو (مکہ) بھیجا کہ وہاں پہنچ کر لوگوں میں ان کلمات (سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات) کی منادی کر دیں۔ پھر (ان کے بھیجنے کے فوراً بعد ہی) ان کے پیچھے آپ نے علی رضی الله عنہ کو بھیجا۔ ابوبکر رضی الله عنہ بھی کسی جگہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصویٰ کی بلبلاہٹ سنی، گھبرا کر (خیمہ) سے باہر آئے، انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں، لیکن وہ آپ کے بجائے علی رضی الله عنہ تھے۔ علی رضی الله عنہ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خط انہیں پکڑا دیا، اور (آپ نے) علی رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا (بزبان خود) اعلان کر دیں۔ پھر یہ دونوں حضرات ساتھ چلے، (دونوں نے حج کیا، اور علی رضی الله عنہ نے ایام تشریق میں کھڑے ہو کر اعلان کیا: اللہ اور اس کے رسول ہر مشرک و کافر سے بری الذمہ ہیں، صرف چار مہینے (سر زمین مکہ میں) گھوم پھر لو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے، کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف نہ کرے، جنت میں صرف مومن ہی جائے گا، علی رضی الله عنہ اعلان کرتے رہے جب وہ تھک جاتے تو انہیں کلمات کا ابوبکر رضی الله عنہ اعلان کرنے لگتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6476) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3092
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن زيد بن يثيع، قال: " سالنا عليا باي شيء بعثت في الحجة؟ قال: بعثت باربع: ان لا يطوف بالبيت عريان، ومن كان بينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم عهد فهو إلى مدته، ومن لم يكن له عهد فاجله اربعة اشهر، ولا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يجتمع المشركون والمسلمون بعد عامهم هذا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح من حديث سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق، ورواه الثوري، عن ابي إسحاق، عن بعض اصحابه، عن علي، وفي الباب، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، قَالَ: " سَأَلْنَا عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ فِي الْحَجَّةِ؟ قَالَ: بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ: أَنْ لَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَهُوَ إِلَى مُدَّتِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
زید بن یثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ حج میں کیا پیغام لے کر بھیجے گئے تھے؟ کہا: میں چار چیزوں کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا (ایک یہ کہ) کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف (آئندہ) نہیں کرے گا۔ (دوسرے) یہ کہ جس کافر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ مدت ختم ہونے تک قائم رہے گا اور جن کا کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہو گی ۱؎ (تیسرے) یہ کہ جنت میں صرف ایمان والا (مسلمان) ہی داخل ہو سکے گا۔ (چوتھے یہ کہ) اس سال کے بعد مسلم و مشرک دونوں حج نہ کر سکیں گے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث سفیان بن عیینہ کی روایت سے جسے وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح ہے،
۲- اسے سفیان ثوری نے ابواسحاق کے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور انہوں نے علی رضی الله عنہ سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 871 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مسلمان ہو جائیں یا وطن چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں، یا پھر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں، حرم ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جائے گا۔
۲؎: حج صرف مسلمان کریں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (878)
حدیث نمبر: 3092M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، وغير واحد، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق، عن زيد بن يثيع، عن علي نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ.
سفیان بن عیینہ نے بسند «أبي إسحق عن زيد بن أثيع عن علي» اسی طرح روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (878)

Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.