(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن فراس، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين او قال اليمين الغموس " شك شعبة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَالَ الْيَمِينُ الْغَمُوسُ " شَكَّ شُعْبَةُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبائر یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، یا کہا: جھوٹی قسم کھانا“۔ اس میں شعبہ کو شک ہو گیا ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ام سلمة، انها قالت: " يغزو الرجال ولا تغزو النساء، وإنما لنا نصف الميراث فانزل الله تبارك وتعالى: ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض سورة النساء آية 32، قال مجاهد: فانزل فيها إن المسلمين والمسلمات سورة الاحزاب آية 35 وكانت ام سلمة اول ظعينة قدمت المدينة مهاجرة "، قال ابو عيسى: هذا حديث مرسل، ورواه بعضهم عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد مرسل، ان ام سلمة، قالت: كذا وكذا.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " يَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا تَغْزُو النِّسَاءُ، وَإِنَّمَا لَنَا نِصْفُ الْمِيرَاثِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ سورة النساء آية 32، قَالَ مُجَاهِدٌ: فَأَنْزَلَ فِيهَا إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ سورة الأحزاب آية 35 وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَوَّلَ ظَعِينَةٍ قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ مُهَاجِرَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلٌ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَذَا وَكَذَا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مرد جنگ کرتے ہیں، عورتیں جنگ نہیں کرتیں، ہم عورتوں کو آدھی میراث ملتی ہے (یعنی مرد کے حصے کا آدھا) تو اللہ تعالیٰ نے آیت «ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض»۱؎ نازل فرمائی۔ مجاہد کہتے ہیں: انہیں کے بارے میں آیت «إن المسلمين والمسلمات»۲؎ بھی نازل ہوئی ہے، ام سلمہ پہلی مسافرہ ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ مرسل حدیث ہے، ۲- اس حدیث کو بعض راویوں نے ابن ابی نجیح کے واسطہ سے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے، کہ ام سلمہ نے اس اس طرح کہا ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”اور اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر جو برتری دی ہے اس کی تمنا نہ کرو“(النساء: ۳۲)، اور اس ممانعت سے مراد ایسی تمنا ہے کہ یہ چیز اس کو کیوں ملی ہے ہم کو کیوں نہیں ملی؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر اعتراض ہے، ہاں یہ تمنا جائز ہے کہ اللہ ہمیں بھی ایسی ہی نعمت سے بہرہ ور فرما دے، شرط یہ ہے کہ یہ چیز بھی اس کے لحاظ سے ممکنات میں سے ہو اپنے لیے کسی غیر ممکن اور محال چیز کی تمنا جائز نہیں، جیسے یہ کہ اللہ مجھے بھی کسی دن امریکا کا صدر بنا دے۔
۲؎: ”بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں …“(الاحزاب: ۳۵)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3022) إسناده ضعيف السند مرسل وابن أبى نجيح عنعن (د 364)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن رجل من ولد ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: " يا رسول الله، لا اسمع الله ذكر النساء في الهجرة فانزل الله تعالى: اني لا اضيع عمل عامل منكم من ذكر او انثى بعضكم من بعض سورة آل عمران آية 195 ".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَسْمَعُ اللَّهَ ذَكَرَ النِّسَاءَ فِي الْهِجْرَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ سورة آل عمران آية 195 ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول! میں عورتوں کی ہجرت کا ذکر کلام پاک میں نہیں سنتی، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «أني لا أضيع عمل عامل منكم من ذكر أو أنثى بعضكم من بعض»۱؎ نازل فرمائی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18249) (صحیح) (سند میں ”رجل من ولد أم سلمہ“ مبہم ہے، سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”تم میں سے کسی عمل صالح کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کروں گا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو“(آل عمران: ۱۹۵)۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: قال عبد الله: " امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقرا عليه وهو على المنبر فقرات عليه من سورة النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل امة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا سورة النساء آية 41، غمزني رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده فنظرت إليه وعيناه تدمعان "، قال ابو عيسى: هكذا روى ابو الاحوص، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، وإنما هو إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: " أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْهِ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، غَمَزَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَإِنَّمَا هُوَ إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا»۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابولأحوص نے اعمش سے، اعمش نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے علقمہ کے واسطہ سے، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اور حقیقت میں وہ سند یوں ہے «إبراهيم عن عبيدة عن عبد الله»( «عن علقمة» نہیں)۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا معاوية بن هشام، حدثنا سفيان الثوري، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقرا علي، فقلت: يا رسول الله اقرا عليك وعليك انزل؟ قال: إني احب ان اسمعه من غيري، فقرات سورة النساء حتى إذا بلغت وجئنا بك على هؤلاء شهيدا سورة النساء آية 41 قال: فرايت عيني النبي صلى الله عليه وسلم تهملان "، قال ابو عيسى: هذا اصح من حديث ابي الاحوص.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41 قَالَ: فَرَأَيْتُ عَيْنَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَهْمِلَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ“۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟، آپ نے فرمایا: ”اپنے سے ہٹ کر دوسرے سے سننا چاہتا ہوں“، تو میں نے سورۃ نساء پڑھی، جب میں آیت: «وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوالا ٔحوص کی روایت سے صحیح تر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر النساء 9 (4582)، وفضائل القرآن 32 (5049)، و33 (5050)، و35 (5055)، صحیح مسلم/المسافرین 40 (800)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 9402)، و مسند احمد (1/380) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرحمن بن سعد، عن ابي جعفر الرازي، عن عطاء بن السائب، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي بن ابي طالب، قال: " صنع لنا عبد الرحمن بن عوف طعاما، فدعانا وسقانا من الخمر، فاخذت الخمر منا، وحضرت الصلاة فقدموني، فقرات " قل يايها الكافرون " لا اعبد ما تعبدون، ونحن نعبد ما تعبدون، قال: فانزل الله تعالى: يايها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وانتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون سورة النساء آية 43 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا، فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنَ الْخَمْرِ، فَأَخَذَتِ الْخَمْرُ مِنَّا، وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَدَّمُونِي، فَقَرَأْتُ " قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ سورة النساء آية 43 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں، اور اسی دوران نماز کا وقت آ گیا، تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا «قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون»”اے نبی! کہہ دیجئیے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو“، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون»”اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو، تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو“(النساء: ۴۳)۱؎۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير انه حدثه، ان عبد الله بن الزبير حدثه، ان رجلا من الانصار خاصم الزبير في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليه، فاختصموا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير: " اسق يا زبير، وارسل الماء إلى جارك "، فغضب الانصاري، وقال: يا رسول الله، ان كان ابن عمتك، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: " يا زبير، اسق واحبس الماء حتى يرجع إلى الجدر "، فقال الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم سورة النساء آية 65 "، قال ابو عيسى: سمعت محمدا، يقول: قد روى ابن وهب هذا الحديث عن الليث بن سعد، ويونس، عن الزهري، عن عروة، عن عبد الله بن الزبير نحو هذا الحديث، وروى شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، عن عروة، عن الزبير، ولم يذكر فيه عن عبد الله بن الزبير.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: " اسْقِ يَا زُبَيْرُ، وَأَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ "، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " يَا زُبَيْرُ، اسْقِ وَاحْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ "، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: قَدْ رَوَى ابْنُ وَهْبٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَيُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے (ان کے والد) زبیر بن العوام رضی الله عنہ سے، حرہ ۱؎ کی نالی کے معاملہ میں، جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر رضی الله عنہ سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے ۲؎، زبیر نے انکار کیا، پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے کہا: زبیر! تم (اپنا کھیت) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہو گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ (یہ سن کر) آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا آپ نے کہا: زبیر! اپنا کھیت سینچ لو، اور پانی اتنا بھر لو کہ منڈیروں تک پہنچ جائے“۔ زبیر کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں گمان کرتا ہوں کہ آیت: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم»”سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں“(النساء: ۶۵)۔ اسی مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابن وہب نے بطریق: «الليث بن سعد ويونس عن الزهري عن عروة عن عبد الله بن الزبير» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۲- اور شعیب بن ابی حمزہ نے بطریق: «الزهري عن عروة عن الزبير» روایت کی ہے اور انہوں نے اپنی روایت میں عبداللہ بن زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1363 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مدینہ میں ایک معروف جگہ ہے
۲؎: زبیر رضی الله عنہ کا کھیت انصاری کے کھیت سے پہلے اونچائی پر پڑتا تھا، پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو حکم دیا کہ ضرورت کے مطابق پانی لے کر پانی چھوڑ دو، مگر جب انصاری نے الزام تراشی کر دی تو آپ نے زبیر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ تم خوب خوب اپنا کھیت سیراب کر کے ہی پانی چھوڑ و جو تمہارا شرعی اور قانونی حق ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، قال: سمعت عبد الله بن يزيد يحدث، عن زيد بن ثابت، انه قال في هذه الآية: فما لكم ين فئتين سورة النساء آية 88، قال: رجع ناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد، فكان الناس فيهم فريقين: فريق يقول اقتلهم، وفريق يقول: لا، فنزلت هذه الآية فما لكم في المنافقين فئتين سورة النساء آية 88، وقال: إنها طيبة، وقال: إنها تنفي الخبث كما تنفي النار خبث الحديد "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وعبد الله بن يزيد هو الانصاري الخطمي وله صحبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: فَمَا لَكُمْ ينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، قَالَ: رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فَرِيقَيْنِ: فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ، وَفَرِيقٌ يَقُولُ: لَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، وَقَالَ: إِنَّهَا طِيبَةُ، وَقَالَ: إِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيَدَ هُوَ الْأَنْصَارِيُّ الْخَطْمِيُّ وَلَهُ صُحْبَةٌ.
عبداللہ بن یزید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ آیت: «فما لكم في المنافقين فئتين» کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ (ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے) لوٹ آئے ۱؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے کہا: انہیں قتل کر دو، اور دوسرے فریق نے کہا: نہیں، قتل نہ کرو تو یہ آیت «فما لكم في المنافقين فئتين»۱؎ نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا: ”مدینہ پاکیزہ شہر ہے، یہ ناپاکی و گندگی کو (إن شاء اللہ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی (میل و زنگ) کو دور کر دیتی ہے۔ (یہ منافق یہاں رہ نہ سکیں گے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبداللہ بن یزید انصاری خطمی ہیں اور انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہے۔
(قدسي) حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني، حدثنا شبابة، حدثنا ورقاء بن عمر، عن عمرو بن دينار، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يجيء المقتول بالقاتل يوم القيامة ناصيته وراسه بيده واوداجه تشخب دما، يقول: يا رب هذا قتلني حتى يدنيه من العرش "، قال: فذكروا لابن عباس التوبة فتلا هذه الآية ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم سورة النساء آية 93، قال: ما نسخت هذه الآية ولا بدلت وانى له التوبة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن عمرو بن دينار، عن ابن عباس نحوه ولم يرفعه.(قدسي) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا، يَقُولُ: يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ "، قَالَ: فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، قَالَ: مَا نُسِخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا بُدِّلَتْ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنَ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، (یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم»۱؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہو گی؟ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو بعض راویوں نے عمر بن دینار کے واسطہ سے ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا“(النساء: ۹۳)۔
۲؎: کسی مومن کو عمداً اور ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ اس بابت صحابہ میں اختلاف ہے، ابن عباس رضی الله عنہما کی رائے ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، ان کی دلیل یہی آیت ہے جوان کے بقول بالکل آخری آیت ہے، جس کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری، مگر جمہور صحابہ و سلف کی رائے ہے کہ قرآن کی دیگر آیات کا مفاد ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ ہے، جب مشرک سے توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہو گی تو قاتل عمد کی توبہ کیوں قبول نہیں ہو گی۔ البتہ یہ ہے کہ اللہ مقتول کو راضی کر دیں گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3465 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (3 / 203)، الصحيحة (2697)