سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
Chapters on Manners
حدیث نمبر: 2824M
Save to word اعراب
(مرفوع) وقد روي عن حكيم بن معاوية، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا شؤم، وقد يكون اليمن في الدار، والمراة، والفرس "، حدثنا بذلك علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن سليمان بن سليم، عن يحيى بن جابر الطائي، عن معاوية بن حكيم، عن عمه حكيم بن معاوية، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.(مرفوع) وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَال: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا شُؤْمَ، وَقَدْ يَكُونُ الْيُمْنُ فِي الدَّارِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالْفَرَسِ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
حکیم بن معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کسی بھی چیز میں) کوئی نحوست نہیں ہے اور خیر و برکت گھر میں، عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی ہے۔ ہم سے اس کی روایت علی بن حجر نے کی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا اسماعیل بن عیاش نے اور اسماعیل نے سلمان سے، سلیمان بن سلیم نے یحییٰ بن جابر طائی سے، یحییٰ نے معاویہ بن حکیم سے معاویہ نے اپنے چچا حکیم بن معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 55 (1993) (تحفة الأشراف: 3439) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح بزيادة: " إن كان الشؤم فى شيء ففي "، الصحيحة (443 و 799 و 1897)
59. باب مَا جَاءَ لاَ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ ثَالِثٍ
59. باب: تین آدمی ہوں تو ایک کو چھوڑ کر دو کانا پھوسی کریں یہ درست نہیں ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2825
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش. ح قال: وحدثني ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كنتم ثلاثة، فلا يتناجى اثنان دون صاحبهما، وقال سفيان في حديثه: لا يتناجى اثنان دون الثالث فإن ذلك يحزنه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لا يتناجى اثنان دون واحد، فإن ذلك يؤذي المؤمن، والله عز وجل يكره اذى المؤمن "، وفي الباب، عن ابن عمر، وابي هريرة، وابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، وَقَالَ سُفْيَانُ فِي حَدِيثِهِ: لَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ، فَإِنَّ ذَلِكَ يُؤْذِي الْمُؤْمِنَ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَكْرَهُ أَذَى الْمُؤْمِنِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم تین آدمی ایک ساتھ ہو، تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر باہم کانا پھوسی نہ کریں، سفیان نے اپنی روایت میں «لا يتناجى اثنان دون الثالث فإن ذلك يحزنه» کہا ہے، یعنی تیسرے شخص کو چھوڑ کر دو سرگوشی نہ کریں کیونکہ اس سے اسے دکھ اور رنج ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک کو نظر انداز کر کے دو سرگوشی نہ کریں، کیونکہ اس سے مومن کو تکلیف پہنچتی ہے، اور اللہ عزوجل مومن کی تکلیف کو پسند نہیں کرتا ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 45 (6288)، و 47 (6290)، صحیح مسلم/السلام 15 (2184)، سنن ابی داود/ الأدب 29 (4851)، سنن ابن ماجہ/الأدب 50 (3775) (تحفة الأشراف: 9253)، وط/السلام 6 (13)، و مسند احمد (1/425) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3775)
60. باب مَا جَاءَ فِي الْعِدَةِ
60. باب: عہد و پیمان کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2826
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن ابي جحيفة، قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ابيض قد شاب، وكان الحسن بن علي يشبهه، وامر لنا بثلاثة عشر قلوصا، فذهبنا نقبضها فاتانا موته فلم يعطونا شيئا، فلما قام ابو بكر قال: من كانت له عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عدة فليجئ، فقمت إليه فاخبرته فامر لنا بها "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى مروان بن معاوية هذا الحديث بإسناد له، عن ابي جحيفة، نحو هذا وقد روى غير واحد، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن ابي جحيفة، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم وكان الحسن بن علي يشبهه، ولم يزيدوا على هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْيَضَ قَدْ شَابَ، وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ، وَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ قَلُوصًا، فَذَهَبْنَا نَقْبِضُهَا فَأَتَانَا مَوْتُهُ فَلَمْ يُعْطُونَا شَيْئًا، فَلَمَّا قَامَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ فَلْيَجِئْ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَمَرَ لَنَا بِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ هَذَا الْحَدِيثَ بِإِسْنَادٍ لَهُ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، نَحْوَ هَذَا وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ، وَلَمْ يَزِيدُوا عَلَى هَذَا.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورا چٹا دیکھا، آپ پر بڑھاپا آ چلا تھا حسن بن علی رضی الله عنہما (شکل و صورت میں) آپ کے مشابہ تھے۔ آپ نے تیرہ (۱۳) جوان اونٹنیاں ہم کو عنایت کرنے کے لیے حکم صادر فرمایا، ہم انہیں لینے کے لیے گئے ہی تھے کہ اچانک آپ کے انتقال کی خبر آ گئی، چنانچہ لوگوں نے ہمیں کچھ نہ دیا، پھر جب ابوبکر رضی الله عنہ نے مملکت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کسی کا بھی کوئی عہد و پیمان ہو تو وہ ہمارے پاس آئے (اور پیش کرے) چنانچہ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور انہیں آپ کے حکم سے آگاہ کیا، تو انہوں نے ہمیں ان اونٹنیوں کے دینے کا حکم فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- مروان بن معاویہ نے یہ حدیث اپنی سند سے ابوجحیفہ رضی الله عنہ کے واسطے سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- کئی اور لوگوں نے بھی اسماعیل بن ابوخالد کے واسطہ سے ابوجحیفہ سے روایت کی ہے، (اس روایت میں ہے) وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے حسن بن علی رضی الله عنہما آپ کے مشابہ تھے۔ اور انہوں نے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3544)، صحیح مسلم/الفضائل 29 (2343) (تحفة الأشراف: 11798) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2827
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن إسماعيل بن ابي خالد، حدثنا ابو جحيفة، قال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم وكان الحسن بن علي يشبهه "، قال ابو عيسى: وهكذا روى غير واحد، عن إسماعيل بن ابي خالد، نحو هذا. وفي الباب، عن جابر، وابو جحيفة اسمه وهب السوائي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جُحَيْفَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، نَحْوَ هَذَا. وَفِي الْبَابِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُهُ وَهْبٌ السُّوَائِيُّ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، حسن بن علی رضی الله عنہما آپ کے مشابہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اسی طرح کئی ایک نے اسماعیل بن ابوخالد سے اسی جیسی روایت کی ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- ابوجحیفہ رضی الله عنہ کا نام وہب سوائی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
61. باب مَا جَاءَ فِي فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي
61. باب: ”میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں“ کہنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2828
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري، حدثنا سفيان بن عيينة، عن يحيى بن سعيد، عن سعيد بن المسيب، عن علي، قال: " ما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم جمع ابويه لاحد غير سعد بن ابي وقاص ".(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ أَبَوَيْهِ لِأَحَدٍ غَيْرَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 80 (2905)، والمغازي 18 (4058، 4059)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 51 (2411)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 77 (190-194)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (129)، وانظر رقم 2830 (تحفة الأشراف: 10116) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی «فداک ابی امی» میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ایسا سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا، سعد کے لیے استعمال سے ثابت ہوا کہ اور کسی کے لیے بھی یہ جملہ کہا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (130)
حدیث نمبر: 2829
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا الحسن بن الصباح البزار، حدثنا سفيان، عن ابن جدعان، ويحيى بن سعيد، سمعا سعيد بن المسيب، يقول: قال علي: " ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم اباه وامه لاحد إلا لسعد بن ابي وقاص، قال له يوم احد: ارم فداك ابي وامي، وقال له: ارم ايها الغلام الحزور " وفي الباب، عن الزبير، وجابر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن علي.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعَا سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، يَقُولُ: قَالَ عَلِيٌّ: " مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ لِأَحَدٍ إِلَّا لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، وَقَالَ لَهُ: ارْمِ أَيُّهَا الْغُلَامُ الْحَزَوَّرُ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد اور اپنی ماں کو سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے سوا کسی کے لیے جمع نہیں کیا۔ جنگ احد میں آپ نے ان سے کہا: تیر چلاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اور آپ نے ان سے یہ بھی کہا: اے بہادر قوی جوان! تیر چلاتے جاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث علی سے متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے،
۳- اس حدیث کو متعدد لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے سعید بن مسیب سے، سعید بن مسیب نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو یکجا کر دیا۔ آپ نے فرمایا: تیر چلائے جاؤ، تم پر ہمارے ماں باپ قربان ہوں،
۴- اس باب میں زبیر اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، اور ان کی روایت میں ”الغلام الحزور“ کا لفظ صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث صحیح کے متابعات و شواہد صحیحین میں موجود ہیں)»

قال الشيخ الألباني: منكر بذكر الغلام الحزور // سيأتي (783 / 4019) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2829) إسناده ضعيف / وسيأتي: 3753/2
قوله: ”ارم أيها الغلام الحزور“:ضعيف، ابن عيينة عنعن (تقدم:867)
حدیث نمبر: 2830
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) وقد روى غير واحد هذا الحديث، عن يحيى بن سعيد، عن سعيد بن المسيب، عن سعد بن ابي وقاص، قال: " جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ابويه يوم احد، قال: ارم فداك ابي وامي "، حدثنا بذلك قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، وعبد العزيز بن محمد، عن يحيى بن سعيد، عن سعيد بن المسيب، عن سعد بن ابي وقاص، قال: " جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ابويه يوم احد "، وهذا حديث حسن صحيح، وكلا الحديثين صحيح.(مرفوع) وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: " جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: " جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ "، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَكِلا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی لڑائی کے دن میرے لیے «فداك أبي وأمي» کہہ کر اپنے ماں باپ کو یکجا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 15 (3725)، والمغازي 18 (405
5- 4057)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 51 (2412)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (130) (تحفة الأشراف: 3857) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
62. باب مَا جَاءَ فِي يَا بُنَىَّ
62. باب: کسی کو پیار و شفقت سے ”میرے بیٹے“ کہنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2831
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا ابو عوانة، حدثنا ابو عثمان شيخ له، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا بني "، وفي الباب، عن المغيرة، وعمر بن ابي سلمة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير هذا الوجه عن انس، وابو عثمان هذا شيخ ثقة، وهو الجعد بن عثمان ويقال ابن دينار وهو بصري، وقد روى عنه يونس بن عبيد، وشعبة، وغير واحد من الائمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ شَيْخٌ لَهُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " يَا بُنَيَّ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَعُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ، وَأَبُو عُثْمَانَ هَذَا شَيْخٌ ثِقَةٌ، وَهُوَ الْجَعْدُ بْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ ابْنُ دِينَارٍ وَهُوَ بَصْرِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَشُعْبَةُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «يا بني» اے میرے بیٹے کہہ کر پکارا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس سند کے علاوہ کچھ دیگر سندوں سے بھی انس سے روایت ہے،
۳- ابوعثمان یہ ثقہ شیخ ہیں اور ان کا نام جعد بن عثمان ہے، اور انہیں ابن دینار بھی کہا جاتا ہے اور یہ بصرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان سے یونس بن عبید اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے،
۴- اس باب میں مغیرہ اور عمر بن ابی سلمہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الآداب 6 (2151)، سنن ابی داود/ الأدب 73 (4964) (تحفة الأشراف: 514)، و مسند احمد (3/285) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے ثابت ہوا کہ اپنے بیٹے کے علاوہ بھی کسی بچے کو اے میرے بیٹے! کہا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
63. باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ اسْمِ الْمَوْلُودِ
63. باب: نومولود کا نام جلد رکھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2832
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن سعد بن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، حدثني عمي يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا شريك، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم " امر بتسمية المولود يوم سابعه ووضع الاذى عنه والعق "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي يَعْقُوبُ بْنُ إِبَرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَ بِتَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ يَوْمَ سَابِعِهِ وَوَضْعِ الْأَذَى عَنْهُ وَالْعَقِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن نومولود بچے کا نام رکھنے اس اور اس کا عقیقہ کر دینے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8790) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نومولود بچے کا نام اس کی پیدائش کے ساتویں دن رکھا جائے، بچے کی پیدائشی آلائش صاف کر کے یعنی اس کے سر کے بال اتروا کر بچے کو نہلایا جائے اور ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے، یہ افضل ہے، ایسے عائشہ رضی الله عنہا کے فرمان کے مطابق چودھویں یا اکیسویں کو بھی ایسا کیا جا سکتا ہے (حاکم)۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (4 / 399 - 400 / التحقيق الثانى)
64. باب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَسْمَاءِ
64. باب: پسندیدہ ناموں کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2833
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن الاسود ابو عمرو الوراق البصري، حدثنا معمر بن سليمان الرقي، عن علي بن صالح المكي، عن عبد الله بن عثمان، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " احب الاسماء إلى الله عز وجل عبد الله، وعبد الرحمن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْوَرَّاقُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الآداب 1 (2132)، سنن ابن ماجہ/الأدب 30 (3728) (تحفة الأشراف: 7720)، وحإ (2/24، 128)، وسنن الدارمی/الاستئذان 60 (2737) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ لفظ «عبد» لگا کر رکھے جانے والے نام اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3728)

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.