صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
حدیث نمبر: 2096
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:"اشترى رسول الله صلى الله عليه وسلم من يهودي طعاما بنسيئة، ورهنه درعه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:"اشْتَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا بِنَسِيئَةٍ، وَرَهَنَهُ دِرْعَهُ".
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ادھار خریدا۔ اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھوائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: Allah's Apostle bought food grains from a Jew on credit and mortgaged his armor to him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 309


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
34. بَابُ شِرَاءِ الدَّوَابِّ وَالْحَمِيرِ:
34. باب: چوپایہ جانوروں اور گھوڑوں، گدھوں کی خریداری کا بیان۔
(34) Chapter. The purchase of animals and donkeys.
حدیث نمبر: Q2097
Save to word اعراب English
وقال ابن عمر رضي الله عنه: قال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر: بعنيه يعني جملا صعبا.وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: بِعْنِيهِ يَعْنِي جَمَلًا صَعْبًا.
‏‏‏‏ اگر کوئی سواری کا جانور یا گدھا خریدے اور بیچنے والا اس پر سوار ہو تو اس کے اترنے سے پہلے خریدار کا قبضہ پورا ہو گا یا نہیں؟ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اسے مجھے بیچ دے۔ آپ کی مراد ایک سرکش اونٹ سے تھی۔
حدیث نمبر: 2097
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه، قال:"كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزاة، فابطا بي جملي واعيا، فاتى علي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: جابر؟ فقلت: نعم، قال: ما شانك؟ قلت: ابطا علي جملي، واعيا، فتخلفت، فنزل يحجنه بمحجنه، ثم قال: اركب، فركبت، فلقد رايته اكفه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: تزوجت؟ قلت: نعم، قال: بكرا ام ثيبا، قلت: بل ثيبا، قال: افلا جارية تلاعبها وتلاعبك، قلت: إن لي اخوات فاحببت ان اتزوج امراة تجمعهن وتمشطهن وتقوم عليهن، قال: اما إنك قادم، فإذا قدمت فالكيس الكيس، ثم قال: اتبيع جملك؟ قلت: نعم، فاشتراه مني باوقية، ثم قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلي، وقدمت بالغداة، فجئنا إلى المسجد، فوجدته على باب المسجد، قال: آلآن قدمت، قلت: نعم، قال: فدع جملك فادخل فصل ركعتين، فدخلت فصليت، فامر بلالا ان يزن له اوقية، فوزن لي بلال، فارجح لي في الميزان، فانطلقت حتى وليت، فقال: ادع ليجابرا، قلت: الآن يرد علي الجمل، ولم يكن شيء ابغض إلي منه، قال: خذ جملك ولك ثمنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا، فَأَتَى عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَابِرٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قُلْتُ: أَبْطَأَ عَلَيَّ جَمَلِي، وَأَعْيَا، فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ يَحْجُنُهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: ارْكَبْ، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَكُفُّهُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا، قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: أَفَلَا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: أَمَّا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ، ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلِي، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: آلْآنَ قَدِمْتَ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعْ جَمَلَكَ فَادْخُلْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لَهُ أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ لِي فِي الْمِيزَانِ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى وَلَّيْتُ، فَقَالَ: ادْعُ لِيجَابِرًا، قُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، قَالَ: خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (ذات الرقاع یا تبوک) میں تھا۔ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا۔ اتنے میں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جابر! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ فرمایا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا ہے، چلتا ہی نہیں اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیرھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے (یعنی ہانکنے لگے) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا۔ چنانچہ میں سوار ہو گیا۔ اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، جابر تو نے شادی بھی کر لی ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں! دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے۔ فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ (جابر بھی کنوارے تھے) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں۔ (اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں، جو انہیں جمع رکھے۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا۔ اس کے بعد فرمایا، کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا جی ہاں! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گئے تھے۔ اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا۔ پھر ہم مسجد آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازہ پر ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا ابھی آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فرمایا، پھر اپنا اونٹ چھوڑ دے اور مسجد میں جا کے دو رکعت نماز پڑھ۔ میں اندر گیا اور نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے۔ انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی تول دی۔ میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ۔ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے واپس کریں گے۔ حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ یہ اپنا اونٹ لے جا اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: I was with the Prophet in a Ghazwa (Military Expedition) and my camel was slow and exhausted. The Prophet came up to me and said, "O Jabir." I replied, "Yes?" He said, "What is the matter with you?" I replied, "My camel is slow and tired, so I am left behind." So, he got down and poked the camel with his stick and then ordered me to ride. I rode the camel and it became so fast that I had to hold it from going ahead of Allah's Apostle . He then asked me, have you got married?" I replied in the affirmative. He asked, "A virgin or a matron?" I replied, "I married a matron." The Prophet said, "Why have you not married a virgin, so that you may play with her and she may play with you?" Jabir replied, "I have sisters (young in age) so I liked to marry a matron who could collect them all and comb their hair and look after them." The Prophet said, "You will reach, so when you have arrived (at home), I advise you to associate with your wife (that you may have an intelligent son)." Then he asked me, "Would you like to sell your camel?" I replied in the affirmative and the Prophet purchased it for one Uqiya of gold. Allah's Apostle reached before me and I reached in the morning, and when I went to the mosque, I found him at the door of the mosque. He asked me, "Have you arrived just now?" I replied in the affirmative. He said, "Leave your camel and come into (the mosque) and pray two rak`at." I entered and offered the prayer. He told Bilal to weigh and give me one Uqiya of gold. So Bilal weighed for me fairly and I went away. The Prophet sent for me and I thought that he would return to me my camel which I hated more than anything else. But the Prophet said to me, "Take your camel as well as its price."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 310


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
35. بَابُ الأَسْوَاقِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَتَبَايَعَ بِهَا النَّاسُ فِي الإِسْلاَمِ:
35. باب: جاہلیت کے بازاروں کا بیان جن میں اسلام کے زمانہ میں بھی لوگوں نے خرید و فروخت کی۔
(35) Chapter. The markets of the Pre-Islamic Period of Ignorance where the people continued to trade after embracing Islam.
حدیث نمبر: 2098
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال:" كانت عكاظ، ومجنة، وذو المجاز اسواقا في الجاهلية، فلما كان الإسلام، تاثموا من التجارة فيها، فانزل الله: ليس عليكم جناح سورة البقرة آية 198"، في مواسم الحج، قرا ابن عباس، كذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَتْ عُكَاظٌ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو الْمَجَازِ أَسْوَاقًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ، تَأَثَّمُوا مِنَ التِّجَارَةِ فِيهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ سورة البقرة آية 198"، فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ، قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ، كَذَا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز یہ سب زمانہ جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے ان میں تجارت کو گناہ سمجھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ليس عليكم جناح‏** في مواسم الحج»، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسی طرح قرآت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: `Ukaz, Majanna and Dhul-Majaz were markets in the Pre-Islamic period. When the people embraced Islam they considered it a sin to trade there. So, the following Holy Verse came:-- 'There is no harm for you if you seek of the bounty of your Lord (Allah) in the Hajj season." (2.198) Ibn `Abbas recited it like this.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 311


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
36. بَابُ شِرَاءِ الإِبِلِ الْهِيمِ أَوِ الأَجْرَبِ:
36. باب: ( «هيم» ) بیمار یا خارشی اونٹ خریدنا۔
(36) Chapter. Purchasing of camel suffering from skin disease or disease causing severe thirts.
حدیث نمبر: Q2099
Save to word اعراب English
الهائم المخالف للقصد في كل شيء.الْهَائِمُ الْمُخَالِفُ لِلْقَصْدِ فِي كُلِّ شَيْءٍ.
‏‏‏‏ «هيم»، «ہائم» کی جمعہ ہے۔ «هيم» اعتدال (میانہ روی) سے گزرنے والا۔
حدیث نمبر: 2099
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: قال عمرو:" كان هاهنا رجل اسمه: نواس، وكانت عنده إبل هيم، فذهب ابن عمررضي الله عنه، فاشترى تلك الإبل من شريك له، فجاء إليه شريكه، فقال: بعنا تلك الإبل، فقال: ممن بعتها؟ قال: من شيخ، كذا، وكذا، فقال: ويحك ذاك، والله ابن عمر، فجاءه، فقال: إن شريكي باعك إبلا هيما ولم يعرفك، قال: فاستقها، قال: فلما ذهب يستاقها، فقال: دعها رضينا بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا عدوى"، سمع سفيان عمرا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عَمْرٌو:" كَانَ هَاهُنَا رَجُلٌ اسْمُهُ: نَوَّاسٌ، وَكَانَتْ عِنْدَهُ إِبِلٌ هِيمٌ، فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَاشْتَرَى تِلْكَ الْإِبِلَ مِنْ شَرِيكٍ لَهُ، فَجَاءَ إِلَيْهِ شَرِيكُهُ، فَقَالَ: بِعْنَا تِلْكَ الْإِبِلَ، فَقَالَ: مِمَّنْ بِعْتَهَا؟ قَالَ: مِنْ شَيْخٍ، كَذَا، وَكَذَا، فَقَالَ: وَيْحَكَ ذَاكَ، وَاللَّهِ ابْنُ عُمَرَ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ: إِنَّ شَرِيكِي بَاعَكَ إِبِلًا هِيمًا وَلَمْ يَعْرِفْكَ، قَالَ: فَاسْتَقْهَا، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبَ يَسْتَاقُهَا، فَقَالَ: دَعْهَا رَضِينَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَى"، سَمِعَ سُفْيَانُ عَمْرًا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں (مکہ میں) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس! وہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہیں (آپ نے فرمایا تھا کہ) «لا عدوى‏.‏» (یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Amr: Here (i.e. in Mecca) there was a man called Nawwas and he had camels suffering from the disease of excessive and unquenchable thirst. Ibn `Umar went to the partner of Nawwas and bought those camels. The man returned to Nawwas and told him that he had sold those camels. Nawwas asked him, "To whom have you sold them?" He replied, "To such and such Sheikh." Nawwas said, "Woe to you; By Allah, that Sheikh was Ibn `Umar." Nawwas then went to Ibn `Umar and said to him, "My partner sold you camels suffering from the disease of excessive thirst and he had not known you." Ibn `Umar told him to take them back. When Nawwas went to take them, Ibn `Umar said to him, "Leave them there as I am happy with the decision of Allah's Apostle that there is no oppression . "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 312


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
37. بَابُ بَيْعِ السِّلاَحِ فِي الْفِتْنَةِ وَغَيْرِهَا:
37. باب: جب مسلمانوں میں آپس میں فساد نہ ہو یا ہو رہا تو ہتھیار بیچنا کیسا ہے؟
(37) Chapter. Selling of arms during the period of Al-Fitnah (trial, affliction) and otherwise.
حدیث نمبر: Q2100
Save to word اعراب English
وكره عمران بن حصين بيعه في الفتنة.وَكَرِهَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ بَيْعَهُ فِي الْفِتْنَةِ.
‏‏‏‏ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے فتنہ کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا مکروہ رکھا۔
حدیث نمبر: 2100
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة رضي الله عنهما، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فاعطاه يعني درعا، فبعت الدرع، فابتعت به مخرفا في بني سلمة، فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَأَعْطَاهُ يَعْنِي دِرْعًا، فَبِعْتُ الدِّرْعَ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ ہم غزوہ حنین کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک زرہ تحفہ دی اور میں نے اسے بیچ دیا۔ پھر میں نے اس کی قیمت سے قبیلہ بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ یہ پہلی جائیداد تھی جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qatada: We set out with Allah's Apostle in the year of Hunain, (the Prophet gave me an armor). I sold that armor and bought a garden in the region of the tribe of Bani Salama and that was the first property I got after embracing Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 313


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
38. بَابٌ في الْعَطَّارِ وَبَيْعِ الْمِسْكِ:
38. باب: عطر بیچنے والے اور مشک بیچنے کا بیان۔
(38) Chapter. (What is said) about the perfume seller and the selling of musk.
حدیث نمبر: 2101
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا ابو بردة بن عبد الله، قال: سمعت ابا بردة بن ابي موسى، عن ابيه رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثل الجليس الصالح، والجليس السوء، كمثل صاحب المسك، وكير الحداد، لا يعدمك من صاحب المسك، إما تشتريه او تجد ريحه، وكير الحداد يحرق بدنك او ثوبك، او تجد منه ريحا خبيثة".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ، وَكِيرِ الْحَدَّادِ، لَا يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْكِ، إِمَّا تَشْتَرِيهِ أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الْحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أَوْ ثَوْبَكَ، أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوبردہ بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوبردہ بن ابی موسیٰ سے سنا اور ان سے ان کے والد موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرور پا لو گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa: Allah's Apostle said, "The example of a good companion (who sits with you) in comparison with a bad one, is I like that of the musk seller and the blacksmith's bellows (or furnace); from the first you would either buy musk or enjoy its good smell while the bellows would either burn your clothes or your house, or you get a bad nasty smell thereof."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 314


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
39. بَابُ ذِكْرِ الْحَجَّامِ:
39. باب: پچھنا لگانے والے کا بیان۔
(39) Chapter. The mentioning of Al-Hajjam (i.e., the one who practises cupping).
حدیث نمبر: 2102
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن حميد، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" حجم ابو طيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامر له بصاع من تمر، وامر اهله ان يخففوا من خراجه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا مِنْ خَرَاجِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں حمید نے، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوطیبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور (بطور اجرت) انہیں دینے کے لیے حکم فرمایا۔ اور ان کے مالک کو فرمایا کہ ان کے خراج میں کمی کر دیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: Abu Taiba cupped Allah's Apostle so he ordered that he be paid one Sa of dates and ordered his masters to reduce his tax (as he was a slave and had to pay a tax to them).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 315


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.