صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
39. بَابُ ذِكْرِ الْحَجَّامِ:
باب: پچھنا لگانے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2102
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا مِنْ خَرَاجِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں حمید نے، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوطیبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور (بطور اجرت) انہیں دینے کے لیے حکم فرمایا۔ اور ان کے مالک کو فرمایا کہ ان کے خراج میں کمی کر دیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2102 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2102
حدیث حاشیہ:
یعنی جو روزانہ یا ماہواری اس سے لیا کرتے تھے۔
عرب میں مالک لوگ اپنے غلام کی محنت اور لیاقت کے لحاظ سے اس پر شرح مقرر کر دیا کرتے تھے کہ اتنا روز یا مہینے مہینے ہم کو دیا کرے اس کو خراج کہتے ہیں۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2102
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 429
´ پچھنے لگانے کی اُجرت`
«. . . ابو طيبة، فامر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وامر اهله ان يخففوا عنه من خراجه . . .»
”. . . ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے (مزدوری میں) کھجوروں کا ایک صاع دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ اس پر خراج (مقرر کردہ رقم) میں کمی کر دیں . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 429]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2102، 2110، من حديث مالك، ومسلم 1577، من حديث حميد الطّويل به وصرح حميد بالسماع عند مسلم 64/1577]
تفقه:
➊ بیماری کے علاج کے لئے آلات کے ذریعے سے جسم کے کسی حصے سے خون نکالنے کے عمل کو پچھنے لگانا یا سینگی لگانا کہتے ہیں۔
➋ پچھنے لگانے کی اجرت جائز ہے اور جن احادیث میں اسے خبیث کہا گیا ہے یا پچھنے لگانے سے منع کیا گیا ہے وہ کراہیت تنزیہی پر محمول ہیں یا پھر منسوخ ہیں۔
➌ اس سے ہمارے دور میں نائیوں کی مروجہ حجامت مراد نہیں ہے جس میں وہ سر وغیرہ کے بال کاٹتے ہیں۔ اگر مروجہ حجامت میں شریعت کے خلاف کوئی بات نہ ہو تو اس کی اجرت بھی جائز اور حلال ہے۔ یاد رہے کہ داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کاٹنا حرام ہے لہٰذا ایسی حرکت کرنے والے نائیوں (حجاموں) کی آمدنی حرام ہے۔
➍ اگر اسلامی حکومت ہو تو غلامی جائز ہے۔ میدان جہاد میں قیدی کافروں کو غلام بنا کر بعد میں بیچا جا سکتا ہے۔
➎ اچھے کام میں سفارش کرنا مسنون ہے۔
➏ بیماری کا علاج کرانا مسنون ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 152
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1837
´محرم پچھنا لگوائے تو کیسا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1837]
1837. اردو حاشیہ:
➊ سینگی لگوانا اور فصد کھلوانا اس دور کا معروف طریقہ علاج تھا۔ اور مذکورہ بالا احادیث میں دو مختلف واقعات کا بیان آیا ہے۔
➋ اب بھی بوقت ضرورت اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اورظاہر ہے کہ اس عمل میں بالوں کی جگہ سے بال کاٹے جاتے ہیں۔جلد پر چیرالگایا جاتا ہے۔پس اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم کئی ایک فقہاء بال کاٹنے کی بنا پر فدیہ کے قائل ہیں۔نیز دانت نکلوانے یا کسی عمل جراحی کی صورت میں کوئی فدیہ لازم نہیں آتا۔
➌ بیماری میں علاج کرانا سنت رسول ﷺ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1837
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2852
´محرم کے اوپری پاؤں پر پچھنا لگانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں کے اوپری حصہ پر اس تکلیف کی وجہ سے جو آپ کو تھی پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2852]
اردو حاشہ:
(1) ”وَثْئٍ“ وہ چوٹ یا تکلیف جو گوشت کو پہنچے، ہڈی بچ جائے، یا چوٹ ہڈی پر آئے لیکن ہڈی ٹوٹنے سے محفوظ رہے، ہمارے ہاں اسے موچ سے تعبیر کرتے ہیں۔
(2) مذکورہ روایت بھی راجح قول کے مطابق صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2852
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1251
1251- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے انصار کے کسی قبیلے کے ایک غلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھنے لگائے تھے اس قبیلے کا نام ”بنو بیاضہ“ تھا اور اس شخص کا نام ابوطیبہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک صاع یا دو صاع، ایک مدیا دومد (معاوضے کے طور پر) عطا کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آقاؤں سے بات چیت کی، تو انہوں نے اس کے ذمے لازم ادائیگی کو کم کردیا، یعنی اس کے ذمے خراج کو کم کردیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1251]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سینگی لگانا درست ہے، آج کل اس کے دو طریقے ہیں: ایک گلاس کے ذریعے اور دوسرا مشین کے ذریعے، سینگی لگانے والے کو اجرت دینی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1249
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4038
حمید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے سینگی لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی، آپ ﷺ کو ابو طیبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سینگی لگائی، تو آپ ﷺ نے اسے دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا، اور اس کے مالکوں سے گفتگو کی، انہوں نے اس سے محصول لینے میں کمی کر دی اور آپ ﷺ نے فرمایا: ”جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو، ان میں سے بہترین چیز... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4038]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
خراج:
وہ رقم جو روزانہ مالک غلام سے وصول کرتا ہے،
جس کو خريبه بھی کہتے ہیں۔
(2)
أفضل،
أمثل اور خیر تینوں کا مفہوم یکساں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4038
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4040
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ایک سینگی لگانے والے غلام کو بلوایا، اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی لگائی، تو آپﷺ نے اسے ایک صاع یا ایک دو مد (اناج) دینے کا حکم دیا، اور اس کے بارے میں (اس کے مالکوں سے) گفتگو کی، تو اس کے خراج میں تخفیف کر دی گئی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4040]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
غلام کے مالک روزانہ اس سے دو صاع وصول کرتے تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو صاع کی بجائے ایک صاع لینے کے لیے کہا،
اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صاع،
دو صاع ہی تصور کیا،
اور آئندہ ایک صاع ہی اس سے وصول کیا،
اس لیے بعض حدیثوں میں ایک صاع دینے کا تذکرہ ہے،
اور بعض میں دو کا،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل ہی سے جمہور فقہاء نے ناپسندیدہ ہونے کے باوجود،
حجامت (سینگی لگانا)
کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4040
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2280
2280. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا: نبی ﷺ سینگی لگواتے تھے اور کسی کی مزدوری میں کمی نہیں فرماتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2280]
حدیث حاشیہ:
باب کی احادیث سے حضرت امام بخاری ؒنے یہ ثابت فرمایا کہ حجام یعنی پچھنا لگانے والے کی اجرت حلال ہے اور یہ پیشہ بھی جائز ہے اگریہ پیشہ ناجائز ہوتا تو نہ آپ پچھنا لگواتے نہ اس کو اجرت دیتے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے کاموں کو بنظر حقارت دیکھنے والے غلطی پر ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2280
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2281
2281. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ سینگی لگانے والے غلام کو بلایا تو اس نے آپ کو پچھنےلگائے اور آپ نے اس کے لیے ایک صاع یا دوصاع یا ایک یا دو غلہ دینے کا حکم دیا اور اس کے معاملے کے متعلق گفتگوفرمائی تو اس کے مقررہ یومیہ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2281]
حدیث حاشیہ:
پچھلی حدیث میں پچھنا لگانے والے غلام کی کنیت ابوطیبہ ؓ مذکور ہے۔
ان کا نام نافع بتلایا گیا ہے۔
حافظ ؒنے اسی کو صحیح کہا ہے۔
ابن حذاءنے کہا کہ ابوطیبہ نے 134سال کی عمر پائی تھی۔
حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ غلام یا لونڈی کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کرانے کی سفارش کرنا درست ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا یہ بدترین دور تقریباً دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔
مگر اب غلامی کے دوسرے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جو اور بھی بدتر ہیں۔
اب قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جن کے لیے اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات مروج ہو گئی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2281
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2210
2210. حضرت انس بن مالک سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ابو طیبہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو سینگی لگائی تو آپ نے اسے ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا، نیز آپ نے اس کے مالکان سے کہا کہ اس کے محصول سے کچھ کمی کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2210]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے مثلاً یہ کہ پچھنا لگواناجائز ہے۔
اور وہ حدیث جس میں اس کی ممانعت وارد ہے وہ منسوخ ہے۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نوکروں، خادموں، غلاموں سے ان کی طاقت کے موافق خدمت لینی چاہئے۔
اور ان کی مزدوری میں بخل نہ ہونا چاہئے۔
اور یہ بھی کہ اجرت میں نقدی کے علاوہ اجناس بھی دینی درست ہیں بشرطیکہ مزدور پسند کرے۔
خراج سے یہاں وہ ٹیکس مراد ہے جو ا س کے آقا اس سے روزانہ وصول کیا کرتے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ اس میں کمی کردیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2277
2277. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ابو طیبہ نے نبی ﷺ کو پچھنے لگائے تو آپ نے اس کے لیے یا دوصاع اناج دینے کا حکم دیا اور اس کے مالکان سے سفارش کی کہ جو ٹیکس اس پر مقررہے، اس میں کچھ کمی کردیں (تووہ کم کردیا گیا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2277]
حدیث حاشیہ:
(1)
مالک اپنے زر خرید غلام پر جو ٹیکس مقرر کرتا ہے جسے وہ ہر روز ادا کرتا ہے اسے ضريبة العبد کہا جاتا ہے۔
حدیث میں مذکور ابو طیبہ نے اپنے مالک کی طرف سے عائد کردہ رقم کے زیادہ ہونے کا شکوہ کیا ہوگا تو آپ ﷺ نے اس میں کمی کرنے کی سفارش کردی۔
(2)
اس حدیث میں لونڈی کے ٹیکس کی صراحت نہیں ہے۔
امام بخاری ؒ نے غلام کے ٹیکس پر اسے قیاس کیا ہے کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں، البتہ لونڈیوں کے ذرائع آمدن پر نگرانی کرنے کا حکم ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ پیشۂ زنا سے حاصل کرنے لگیں، اس لیے مالک کو چاہیے کہ لونڈی پر عائد کردہ ٹیکس کا خیال رکھے کہ وہ زنا اور بدکاری سے حاصل کرکے اسے نہ دے رہی ہو۔
اگرچہ غلام کی کمائی بھی چوری وغیرہ سے ہوسکتی ہے لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 578/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2277
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2280
2280. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا: نبی ﷺ سینگی لگواتے تھے اور کسی کی مزدوری میں کمی نہیں فرماتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2280]
حدیث حاشیہ:
قبل ازیں ایک روایت گزر چکی ہے کہ ابو جحیفہ ؓ نے ایک سینگی لگانے والا غلام خریدا تو اس کے آلات وغیرہ توڑ ڈالے، بیٹے کے سوال کرنے پر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے خون کی قیمت سے منع کیا ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2238)
اس روایت کے پیش نظر کچھ لوگوں کو تردد تھا کہ پچھنا لگوانا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے ان روایات سے یہ ثابت کیا ہے کہ سینگی لگوانا جائز ہے اور اس پر مزدوری لینا بھی مباح ہے۔
بعض روایات میں سینگی لگانے کی اجرت کو خبیث کہا گیا ہے،اس سے مراد نہی تحریم نہیں بلکہ نہی تنزیہ ہے،یعنی بہتر ہے کہ اس طرح کے کاروبار سے بچاجائے کیونکہ بعض دفعہ خون وغیرہ انسان کے حلق سے نیچے بھی اتر سکتا ہے، اس لیے آپ نے اس کی اجرت کو لفظ"خبیث" سے تعبیر کیا ہے۔
(فتح الباري: 579/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2280
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2281
2281. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ سینگی لگانے والے غلام کو بلایا تو اس نے آپ کو پچھنےلگائے اور آپ نے اس کے لیے ایک صاع یا دوصاع یا ایک یا دو غلہ دینے کا حکم دیا اور اس کے معاملے کے متعلق گفتگوفرمائی تو اس کے مقررہ یومیہ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2281]
حدیث حاشیہ:
1۔
سینگی لگانے والے غلام کی کنیت ابو طیبہ اور نام نافع تھا۔
اس روایت میں راوی کو ترددہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کتنا غلہ دیا جبکہ قبل ازیں روایت گزرچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کھجور کا ایک صاع عنایت فرمایا تھا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2102)
جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ایک صاع دیں۔
(جامع الترمذي، البیوع، حدیث: 1278، و سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث: 2163)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ تیرا یومیہ ٹیکس کس قدر ہے؟ تو اس نے کہا:
دوصاع، پھر آپ کی سفارش سے اس کے مالکان نے ایک صاع معاف کردیا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 267/6)
اس کے مالکان بنو حارثہ قبیلے کے لوگ تھے،ان میں سے حضرت محّیصہ بن مسعود ؓ بھی ہیں۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بنو بیاضہ کے غلام تھے، حالانکہ یہ وہم ہے کیونکہ ان کا غلام ابو ہندتھا۔
(فتح الباري: 581/4)
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس غلام کے متعلق سفارش فرمائی تھی۔
(2)
اگر غلام کا محصول اس قدر زیادہ ہوکہ اسے ادا کرنے کی طاقت نہ ہوتو حاکم وقت اس میں تخفیف لازم کرسکتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا دور ختم ہوچکاہے لیکن اب افراد کو غلام بنانے کے بجائے قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جس کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔
أعاذناالله منه.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2281