صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
37. بَابُ بَيْعِ السِّلاَحِ فِي الْفِتْنَةِ وَغَيْرِهَا:
37. باب: جب مسلمانوں میں آپس میں فساد نہ ہو یا ہو رہا تو ہتھیار بیچنا کیسا ہے؟
(37) Chapter. Selling of arms during the period of Al-Fitnah (trial, affliction) and otherwise.
حدیث نمبر: Q2100
Save to word اعراب English
وكره عمران بن حصين بيعه في الفتنة.وَكَرِهَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ بَيْعَهُ فِي الْفِتْنَةِ.
‏‏‏‏ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے فتنہ کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا مکروہ رکھا۔

حدیث نمبر: 2100
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة رضي الله عنهما، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فاعطاه يعني درعا، فبعت الدرع، فابتعت به مخرفا في بني سلمة، فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَأَعْطَاهُ يَعْنِي دِرْعًا، فَبِعْتُ الدِّرْعَ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ ہم غزوہ حنین کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک زرہ تحفہ دی اور میں نے اسے بیچ دیا۔ پھر میں نے اس کی قیمت سے قبیلہ بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ یہ پہلی جائیداد تھی جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qatada: We set out with Allah's Apostle in the year of Hunain, (the Prophet gave me an armor). I sold that armor and bought a garden in the region of the tribe of Bani Salama and that was the first property I got after embracing Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 313


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4321حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري7170حارث بن ربعيمن له بينة على قتيل قتله فله سلبه
   صحيح البخاري2100حارث بن ربعيخرجنا مع رسول الله عام حنين فأعطاه يعني درعا فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام
   صحيح مسلم3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   جامع الترمذي1562حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن أبي داود2717حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن ابن ماجه2837حارث بن ربعينفله سلب قتيل قتله يوم حنين
   المعجم الصغير للطبراني601حارث بن ربعي اللهم اغفر له ثلاثا ونفلني سلب مسعدة
   مسندالحميدي427حارث بن ربعينفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلب قتيل قتلته يوم حنين

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2100 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2100  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ترجمہ باب کا ایک جز یعنی جب فساد نہ ہو اس وقت جنگی سامان بیچنا درست ہے، نکلتا ہے کیوں کہ زرہ بھی ہتھیار یعنی لڑائی کے سامان میں داخل ہیں۔
اب رہی یہ بات کہ فساد کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا، تو یہ بعض نے مکروہ رکھا ہے جب ان لوگوں کے ہاتھ بیچے جو فتنہ میں ناحق پر ہوں۔
اس لیے کہ یہ اعانت ہے گناہ اور معصیت پر اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا و تعاونوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان (المائدۃ: 2)
اس جماعت کے ہاتھ جو حق پر ہو بیچنا مکروہ نہیں ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2100   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2100  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ حنین کے موقع پر ایک کافر کو قتل کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مقتول کا تمام سامان دے دیا،جس میں وہ زرہ تھی جسے انھوں نے فروخت کرکے باغ خریدا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں اسے مفصل طور پر ذکر کیا ہے۔
(صحیح البخاری،المغازی،حدیث: 4823) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ فتنہ وفساد کے زمانے میں ہتھیار فروخت کرنا ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خریدار کی اعانت ہوتی ہے۔
یہ اس صورت میں ہے جب خریدار کا حال مشتبہ ہو کہ وہ حق پر ہے یا بغاوت کرنے والا ہے۔
اگر اس بات کا یقین ہوجائے کہ خریدار حق پر ہے تو اس کے پاس ہتھیار فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(3)
دراصل امام نوی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اپنا مال کسی بھی شخص کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس کی تحدید کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے جب زرہ فروخت کی تو اس وقت بھی ہنگامی حالات تھے لیکن آپ نے قطعی طور پر ایسے شخص کو زرہ فروخت نہیں کی جس سے مسلمانوں کو خطرہ تھا۔
والله اعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2100   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1562   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3142  
امام صاحب اپنے دوسرے استاد سے بھی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طرز عمل بیان کیا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3142]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جمہور کے نزدیک قربانی کے دن،
سورج چڑھنے کے بعد کنکریاں مارنا افضل ہے۔
اور بعد کے دنوں میں سورج ڈھلنے کے بعد،
اگرایام تشریق میں سورج ڈھلنے سے پہلے کنکریاں مارے گا،
تو ائمہ اربعہ کے نزدیک کنکریاں دوبارہ مارنی ہوں گی تیسرے دن احناف اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سورج ڈھلنے سے پہلے کنکریاں مار سکتا ہے لیکن روانگی سورج ڈھلنے کے بعد ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3142   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3142  
3142. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے، پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو مسلمانوں میں کچھ اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس دوران میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر سوار ہے۔ یہ دیکھ کر میں اس کے گرد گھوما، پیچھے سے آکر میں نے اس کے کندھے پر تلوار ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا اور مجھے اتنے زور سے دبایا کہ میں نے موت کی ہوا محسوس کی۔ آخر کار اس کو موت نے آلیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اسکے بعد میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور ان سےدریافت کیا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا لیکن جب مسلمان مقابلے میں سنبھل گئے اور واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے سکون سے بیٹھ کر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر دو گواہ بھی پیش کردے تو مقتول کاسارا سازوسامان اسی کو ملے گا۔ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3142]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوا کہ مقتول کافر کا سامان قاتل مجاہد ہی کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے مگر یہ خود امیر لشکر اس کو تحقیق کرنے کے بعد دیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3142   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7170  
7170. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7170]
حدیث حاشیہ:
جب دو انصاریوں نے آپ کو مسجد سے باہر ان کے ساتھ چلتے دیکھا تھا تو ان کی بدگمانی دور کرنے کے لیے آپ نے یہ فرمایا تھا جس کی تفصیل آگے والی حدیث میں وارد ہے۔
تو اگر حاکم یا قاضی نے کسی شخص کو زنا یا چوری یا خون کرتے دیکھا تو صرف اپنے علم کی بنا پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باقاعدہ شہادت سے ثبوت نہ ہو۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں قیاس تو یہ تھا کہ ان سب مقدمات میں بھی قاضی کو اپنے علم پر فیصلہ کرنا جائز ہوتا لیکن میں قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں اور استحسان کے رو سے یہ کہتا ہوں کہ قاضی ان مقدمات میں اپنے علم کی بنا پر حکم نہ دے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7170   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3142  
3142. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے، پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو مسلمانوں میں کچھ اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس دوران میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر سوار ہے۔ یہ دیکھ کر میں اس کے گرد گھوما، پیچھے سے آکر میں نے اس کے کندھے پر تلوار ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا اور مجھے اتنے زور سے دبایا کہ میں نے موت کی ہوا محسوس کی۔ آخر کار اس کو موت نے آلیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اسکے بعد میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور ان سےدریافت کیا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا لیکن جب مسلمان مقابلے میں سنبھل گئے اور واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے سکون سے بیٹھ کر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر دو گواہ بھی پیش کردے تو مقتول کاسارا سازوسامان اسی کو ملے گا۔ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3142]
حدیث حاشیہ:

حنین طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک وادی ہے جو مکہ مکرمہ کے مشرقی جانب تقریباً 46کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے آٹھ ہجری میں وہاں جنگ لڑی گئی جس میں ہوازن کے تیر اندازوں سے مقابلہ ہوا۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مقتول کافر کا جو سامان ہو وہ قاتل کو دیا جاتا تھا۔
اس سے خمس نہیں لیا جاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت قتادہ ؓ کو مال سلب دیا جس پر کسی اور شخص نے قبضہ کر لیا تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ ابو قتادہ ؓ ہی قاتل ہیں تو آپ نے وہ سازو سامان لے کر ان کے حوالے کردیا رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر میں یہی قاعدہ نافذ کیا تھا پھر غزوہ حنین کے وقت بھی اسے جاری رکھا کہ سلب کا مستحق وہی ہے جو کسی کافر کو قتل کردے یا اس طرح زخمی کردے۔
کہ اس کی زندگی محال ہو۔
ایسی حالت میں جو پاس کھڑا ہوتا ہے اس کا مال سلب میں کوئی حق نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3142   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7170  
7170. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7170]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم یا قاضی کسی شخص کو زنا یا چوری یا قتل کرتے دیکھتا ہے تو صرف اپنے علم کی بنیاد پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باضابطہ شہادت سے اسے ثابت نہ کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے اور شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ کر دیا جائے تو اس سے کئی ایک مفاسد پیدا ہوتے ہیں پھر قاضی جسے چاہے گا، اسے سزادے ڈالے گا۔

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں کہ قیاس کے مطابق ان سب مقدمات میں قاضی کے لیے اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائز ہے لیکن میں قیاس کو چھوڑ کر بطور استحسان کہتا ہوں کہ کوئی قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے، اس میں عافیت کا راستہ ہے۔
(فتح الباري: 200/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7170   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.