عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے جو بھی خون ہوتا ہے اس خون کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے (پہلے) بیٹے پر جاتا ہے، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے خون کرنے کی سبیل نکالی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ خلاف شریعت اور برے کاموں کو پہلے پہل کرنا جس کی بعد میں لوگ تقلید کریں کتنا بڑا جرم ہے، قیامت تک اس برے کام کے کرنے کا گناہ اسے بھی ملتا رہے گا، اس لیے امن و سلامتی کی زندگی گزار نے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کریں اور بدعات و خرافات سے اجتناب کریں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من دعا إلى هدى كان له من الاجر مثل اجور من يتبعه لا ينقص ذلك من اجورهم شيئا , ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من يتبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا , وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی ہو، اور جس نے ضلالت (و گمراہی) کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر گمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو“۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا المسعودي، عن عبد الملك بن عمير، عن ابن جرير بن عبد الله، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سن سنة خير فاتبع عليها فله اجره ومثل اجور من اتبعه غير منقوص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل اوزار من اتبعه، غير منقوص من اوزارهم شيئا " , وفي الباب عن حذيفة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن جرير بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وقد روي هذا الحديث عن المنذر بن جرير بن عبد الله، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم , وقد روي عن عبيد الله بن جرير، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ، غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا " , وفي الباب عن حُذَيْفَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا.
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو گا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے، جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اور جریر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۴- یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے، اور عبیداللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۵- اس باب میں حذیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 20 (1017)، والعلم 6 (1017/15)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 14 (203) (تحفة الأشراف: 13976) و مسند احمد (4/357، 358، 361، 362)، وسنن الدارمی/المقدمة 44 (518) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا، اسی طرح شر و فساد اور قتل و غارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا بقية بن الوليد، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن عبد الرحمن بن عمرو السلمي، عن العرباض بن سارية، قال: وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال رجل: إن هذه موعظة مودع، فماذا تعهد إلينا يا رسول الله؟ قال: " اوصيكم بتقوى الله، والسمع، والطاعة، وإن عبد حبشي فإنه من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا، وإياكم ومحدثات الامور فإنها ضلالة، فمن ادرك ذلك منكم فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وقد روى ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن عبد الرحمن بن عمرو السلمي، عن العرباض بن سارية، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رَوَى ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز فجر کے بعد ایک موثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرز گئے، ایک شخص نے کہا: یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دنیا سے (آخری بار) رخصت ہو کر جانے والے کیا کرتے ہیں، تو اللہ کے رسول! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا تو تم (باقی رہنے والوں) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیئے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے“۔ (اور اس پر عمل پیرا رہے)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ثور بن یزید نے بسند «خالد بن معدان عن عبدالرحمٰن بن عمرو السلمي عن العرباض بن سارية عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔
اس سند سے بھی عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عرباض بن ساریہ کی کنیت ابونجیح ہے۔ ۲- یہ حدیث بطریق: «حجر بن حجر عن عرباض بن سارية عن النبي صلى الله عليه وسلم» کے طریق سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا محمد بن عيينة، عن مروان بن معاوية الفزاري، عن كثير بن عبد الله هو ابن عمرو بن عوف المزني، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال بن الحارث: " اعلم "، قال: ما اعلم يا رسول الله، قال: " اعلم يا بلال "، قال: ما اعلم يا رسول الله، قال: " إنه من احيا سنة من سنتي قد اميتت بعدي فإن له من الاجر مثل من عمل بها من غير ان ينقص من اجورهم شيئا، ومن ابتدع بدعة ضلالة لا يرضاها الله ورسوله كان عليه مثل آثام من عمل بها لا ينقص ذلك من اوزار الناس شيئا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومحمد بن عيينة هو مصيصي شامي، وكثير بن عبد الله هو ابن عمرو بن عوف المزني.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ: " اعْلَمْ "، قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " اعْلَمْ يَا بِلَالُ "، قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا يَرْضَاهَا اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ هُوَ مَصِّيصِيٌّ شَامِيٌّ، وَكَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ.
عمرو بن عوف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث رضی الله عنہ سے کہا: ”سمجھ لو“(جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”سمجھ لو اور جان لو“، انہوں نے عرض کیا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی و خوش نہیں، تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہو گا، اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محم بن عیینہ مصیصی شامی ہیں، ۳- اور کثیر بن عبداللہ سے مراد کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 15 (210) (تحفة الأشراف: 10776) (ضعیف) (سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (210) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (37)، تخريج " السنة " لابن أبي عاصم (42)، المشكاة (1682)، ضعيف الجامع الصغير (965) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2677) إسناده ضعيف جدًا / جه 209 كثير بن عبدالله: متروك (تقدم: 490)
(مرفوع) حدثنا مسلم بن حاتم الانصاري البصري، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، عن ابيه، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، قال: قال انس بن مالك , قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بني " إن قدرت ان تصبح وتمسي ليس في قلبك غش لاحد فافعل، ثم قال لي: يا بني وذلك من سنتي، ومن احيا سنتي فقد احبني، ومن احبني كان معي في الجنة " , وفي الحديث قصة طويلة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، ومحمد بن عبد الله الانصاري ثقة، وابوه ثقة، وعلي بن زيد صدوق، إلا انه ربما يرفع الشيء الذي يوقفه غيره، قال: وسمعت محمد بن بشار يقول: قال ابو الوليد، قال شعبة، حدثنا علي بن زيد وكان رفاعا، ولا نعرف لسعيد بن المسيب، عن انس رواية إلا هذا الحديث بطوله , وقد روى عباد بن ميسرة المنقري هذا الحديث , عن علي بن زيد، عن انس، ولم يذكر فيه عن سعيد بن المسيب، قال ابو عيسى: وذاكرت به محمد بن إسماعيل فلم يعرفه ولم يعرف لسعيد بن المسيب، عن انس هذا الحديث ولا غيره , ومات انس بن مالك سنة ثلاث وتسعين، ومات سعيد بن المسيب بعده بسنتين، مات سنة خمس وتسعين.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الْأَنْصَارِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ , قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بُنَيَّ " إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا بُنَيَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي، وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ " , وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ثِقَةٌ، وَأَبُوهُ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ صَدُوقٌ، إِلَّا أَنَّهُ رُبَّمَا يَرْفَعُ الشَّيْءَ الَّذِي يُوقِفُهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ وَكَانَ رَفَّاعًا، وَلَا نَعْرِفُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَنَسٍ رِوَايَةً إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ , وَقَدْ رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمِنْقَرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل فَلَمْ يَعْرِفْهُ وَلَمْ يُعْرَفْ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثُ وَلَا غَيْرُهُ , وَمَاتَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَتِسْعِينَ، وَمَاتَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ بَعْدَهُ بِسَنَتَيْنِ، مَاتَ سَنَةَ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بیٹے: اگر تم سے ہو سکے کہ صبح و شام تم اس طرح گزارے کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے بھی کھوٹ (بغض، حسد، کینہ وغیرہ) نہ ہو تو ایسا کر لیا کرو“، پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بیٹے! ایسا کرنا میری سنت (اور میرا طریقہ) ہے، اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں ایک طویل قصہ بھی ہے، ۲- اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ۳- محمد بن عبداللہ انصاری ثقہ ہیں، اور ان کے باپ بھی ثقہ ہیں، ۴- علی بن زید صدوق ہیں (ان کا شمار سچوں میں ہے) بس ان میں اتنی سی کمی و خرابی ہے کہ وہ بسا اوقات بعض روایات کو جسے دوسرے راوی موقوفاً روایت کرتے ہیں اسے یہ مرفوع روایت کر دیتے ہیں، ۵- میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوالولید نے کہا: شعبہ کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن زید نے حدیث بیان کی اور علی بن زید رفاع تھے، ۶- ہم سعید بن مسیب کی انس کے واسطہ سے اس طویل حدیث کے سوا اور کوئی روایت نہیں جانتے، ۷- عباد بن میسرہ منقری نے یہ حدیث علی بن زید کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اس حدیث میں سعید بن مسیب کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، ۸- میں نے اس حدیث کا محمد بن اسماعیل بخاری سے ذکر کر کے اس کے متعلق جاننا چاہا تو انہوں نے اس کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، ۹- انس بن مالک سے سعید بن مسیب کی روایت سے یہ یا اس کے علاوہ کوئی بھی حدیث معروف نہیں ہے۔ انس بن مالک ۹۳ ہجری میں انتقال فرما گئے اور سعید بن مسیب ان کے دو سال بعد ۹۵ ہجری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 865) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (175) // ضعيف الجامع الصغير (6389) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2678) إسناده ضعيف على بن زيد: ضعيف (تقدم:589)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتركوني ما تركتكم فإذا حدثتكم فخذوا عني فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على انبيائهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اتْرُكُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فَخُذُوا عَنِّي فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو، پھر جب میں تم سے کوئی چیز بیان کروں تو اسے لے لو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ بہت زیادہ سوالات کرنے اور اپنے انبیاء سے کثرت سے اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی خواہ مخواہ مسئلے مسائل پوچھ کر اپنے لیے تنگی اور دشواری نہ پیدا کرو، میرے بیان کرنے کے مطابق اس پر عمل کرو، کیونکہ کثرت سوال سے اسی طرح پریشانی میں پڑ سکتے ہو جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں کا حال ہوا، سورۃ البقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا وہ اس سلسلہ میں بے انتہا عبرت آموز ہے۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن الصباح البزار، وإسحاق بن موسى الانصاري، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رواية " يوشك ان يضرب الناس اكباد الإبل يطلبون العلم فلا يجدون احدا اعلم من عالم المدينة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , وهو حديث ابن عيينة، وقد روي عن ابن عيينة انه قال في هذا سئل: من عالم المدينة؟ فقال: إنه مالك بن انس، وقال إسحاق بن موسى، سمعت ابن عيينة يقول: هو العمري عبد الله بن عبد العزيز الزاهد واسمه: عبد العزيز بن عبد الله، وسمعت يحيى بن موسى يقول، قال عبد الرزاق، هو مالك بن انس، والعمري هو عبد الله بن عبد العزيز من ولد عمر بن الخطاب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، وَإِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً " يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا سُئِلَ: مَنْ عَالِمُ الْمَدِينَةِ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَقَالَ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: هُوَ الْعُمَرِيُّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزَ الزَّاهِدُ وَاسْمُهُ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مُوسَى يَقُولُ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، هُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْعُمَرِيُّ هُوَ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ عَبْدُ الْعَزِيزِ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے، لیکن (کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے، ۲- سفیان بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: مالک بن انس ہیں، ۳- اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں: میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ (یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں، ۴- میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ (عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں، ۵- عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں، اور یہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 12877)، و مسند احمد (2/299) (ضعیف) (سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے، مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط، اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (246)، التعليق على التنكيل (1 / 385)، الضعيفة (4833) // ضعيف الجامع الصغير (6448) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2680) إسناده ضعيف ابن جريج و أبو الزبير عنعنا (تقدما: 674،10) وللحديث شاهد منقطع عند ابن عبدالبر في الإنتقاء (ص209)