سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
18. باب مَا جَاءَ فِي عَالِمِ الْمَدِينَةِ
باب: عالم مدینہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2680
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، وَإِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً " يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا سُئِلَ: مَنْ عَالِمُ الْمَدِينَةِ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَقَالَ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: هُوَ الْعُمَرِيُّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزَ الزَّاهِدُ وَاسْمُهُ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مُوسَى يَقُولُ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، هُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْعُمَرِيُّ هُوَ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ عَبْدُ الْعَزِيزِ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے، لیکن
(کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے،
۲- سفیان بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: مالک بن انس ہیں،
۳- اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں: میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ
(یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں،
۴- میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ
(عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں،
۵- عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں، اور یہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 12877)، و مسند احمد (2/299) (ضعیف) (سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے، مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط، اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (246) ، التعليق على التنكيل (1 / 385) ، الضعيفة (4833) // ضعيف الجامع الصغير (6448) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2680) إسناده ضعيف
ابن جريج و أبو الزبير عنعنا (تقدما: 674،10) وللحديث شاهد منقطع عند ابن عبدالبر في الإنتقاء (ص209)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2680 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2680
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
(سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں،
اورروایت عنعنہ سے ہے،
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے،
مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط،
اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2680
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 246
´حصول علم کی ترغیب`
«. . . وَعَن أبي هُرَيْرَة رِوَايَةً: «يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالم الْمَدِينَة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ فِي جَامِعِهِ. قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أنس وَمثله عَن عبد الرَّزَّاق قَالَ اسحق بْنُ مُوسَى: وَسَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ: هُوَ الْعُمَرِيُّ الزَّاهِدُ وَاسْمُهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عبد الله . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، (فرماتے ہیں) قریب ہے وہ زمانہ کہ لوگ علم حاصل کرنے کے لئے اونٹوں کے جگروں کو ماریں گے، یعنی اونٹوں کو نہایت تیزی کے ساتھ سفروں میں چلائیں گے اور علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز ملکوں کا سفر کریں گے مگر مدینہ کے عالم سے کسی بڑے عالم کو کہیں نہیں پائیں گے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ابن عیینہ اور عبدالرزاق نے کہا ہے کہ مدینے کے بڑے عالم سے مراد امام مالک بن انس ہیں، اور اسحاق بن موسی کا بیان ہے کہ میں نے ابن عیینہ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ عالم مدینہ سے عمری زاہد مراد ہیں یعنی عمر کے خاندان سے جن کا نام حضرت عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 246]
تحقیق الحدیث:
اس کی سند ضعیف ہے۔
◄ اس میں ابن جریج اور ابوالزبیر المکی دونوں مدلس ہیں اور روایت «عن» سے ہے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
◄ [الانتقاء لابن عبدالبر ص20] میں اس کا ایک منقطع (یعنی ضعیف) شاہد بھی ہے۔
فائدہ:
جب یہ روایت ضعیف ہے تو پھر یہ کہنا کہ ”اس سے مراد فلاں ہیں یا فلاں“ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
◄ یہ بالکل برحق ہے کہ امام مالک بہت بڑے ثقہ امام تھے اور عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر العمری بھی ثقہ تھے، لیکن پہلے حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے، اس کے بعد ہی فقہ الحدیث پر غور ہو سکتا ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 246
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1181
1181- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”عنقریب وہ وقت آئے گا جب لوگ علم کے حصول کے لیے اونٹوں کے جگر پگھلادیں گے لیکن انہیں کوئی ایسا عالم نہیں ملے گا جو مدینہ کے عالم سے زیادہ علم رکھتا ہو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1181]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم قیامت تک چلتا رہے گا، اور علم کے طالب دور دراز کا سفر کرتے رہیں گے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ منورہ علم کا سر چشمہ تھا، ہے اور رہے گا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1179