عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی جانب سے متعین میراث کے حصوں کو حصہ داروں تک پہنچا دو، پھر اس کے بعد جو بچے وہ میت کے قریبی مرد رشتہ دار کا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: «عصبہ» وہ رشتہ دار جو باپ کی جانب سے ہوں، شرعی اصطلاح میں «عصبہ» ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو میت کی میراث میں سے متعین حصہ کے بغیر وارث ہوں۔ یعنی: «ذوی الفروض» کو دینے کے بعد جو بچ جائے اس کے وہ وارث ہوتے ہیں، جیسے بیٹا، بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کبھی باپ، کبھی پوتا، کبھی دادا، کبھی چچا اور بھتیجا وغیرہ۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى بعضهم عن ابن طاوس، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنِ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُرْسَلًا.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث «عن ابن طاووس عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2740)
9. باب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الْجَدِّ
9. باب: دادا کی میراث کا بیان۔
Chapter: What has been Related About The Inheritance For The Grandfather
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا يزيد بن هارون، عن همام بن يحيى، عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابني مات فما لي في ميراثه، قال: " لك السدس " فلما ولى دعاه، فقال: " لك سدس آخر " فلما ولى دعاه، قال: " إن السدس الآخر طعمة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن معقل بن يسار.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي مَاتَ فَمَا لِي فِي مِيرَاثِهِ، قَالَ: " لَكَ السُّدُسُ " فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: " لَكَ سُدُسٌ آخَرُ " فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، قَالَ: " إِنَّ السُّدُسَ الْآخَرَ طُعْمَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کی میراث میں سے کتنا حصہ ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ”تمہیں چھٹا حصہ ملے گا، جب وہ مڑ کر جانے لگا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: ”تمہیں ایک اور چھٹا حصہ ملے گا“، پھر جب وہ مڑ کر جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا کر فرمایا: ”دوسرا چھٹا حصہ بطور خوراک ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں معقل بن یسار رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الفرائض 6 (2896) (تحفة الأشراف: 10801) (ضعیف) (سند میں قتادة اور حسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حسن بصری کے عمران بن حصین رضی الله عنہ سے سماع میں بھی سخت اختلاف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (500) // (619 / 2896)، المشكاة (3060) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2099) إسناده ضعيف / د 2896
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، قال مرة: قال قبيصة، وقال مرة: رجل، عن قبيصة بن ذؤيب، قال: جاءت الجدة ام الام وام الاب إلى ابي بكر، فقالت: إن ابن ابني او ابن بنتي مات، وقد اخبرت ان لي في كتاب الله حقا، فقال ابو بكر: ما اجد لك في الكتاب من حق، وما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى لك بشيء وساسال الناس، قال: فسال الناس، فشهد المغيرة بن شعبة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " اعطاها السدس " قال: ومن سمع ذلك معك، قال: محمد بن مسلمة، قال: " فاعطاها السدس "، ثم جاءت الجدة الاخرى التي تخالفها إلى عمر، قال سفيان: وزادني فيه معمر، عن الزهري، ولم احفظه عن الزهري، ولكن حفظته من معمر، ان عمر، قال: إن اجتمعتما فهو لكما وايتكما انفردت به فهو لها.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ مَرَّةً: قَالَ قَبِيصَةُ، وقَالَ مَرَّةً: رَجُلٌ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ أُمُّ الْأُمِّ وَأُمُّ الْأَبِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَ ابْنِي أَوِ ابْنَ بِنْتِي مَاتَ، وَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنّ لِي فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقًّا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَجِدُ لَكِ فِي الْكِتَابِ مِنْ حَقٍّ، وَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى لَكِ بِشَيْءٍ وَسَأَسْأَلُ النَّاسَ، قَالَ: فَسَأَلَ النَّاسَ، فَشَهِدَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَعْطَاهَا السُّدُسَ " قَالَ: وَمَنْ سَمِعَ ذَلِكَ مَعَكَ، قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: " فَأَعْطَاهَا السُّدُسَ "، ثُمَّ جَاءَتِ الْجَدَّةُ الْأُخْرَى الَّتِي تُخَالِفُهَا إِلَى عُمَرَ، قَالَ سُفْيَانُ: وَزَادَنِي فِيهِ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَلَمْ أَحْفَظْهُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَلَكِنْ حَفِظْتُهُ مِنْ مَعْمَرٍ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: إِنِ اجْتَمَعْتُمَا فَهُوَ لَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا انْفَرَدَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا.
قبیصہ بن ذویب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس ایک دادی یا نانی نے آ کر کہا: میرا پوتا یا نواسہ مر گیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کی کتاب (قرآن) میں میرے لیے متعین حصہ ہے۔ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں اللہ کی کتاب (قرآن) میں تمہارے لیے کوئی حصہ نہیں پاتا ہوں اور نہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے تمہارے لیے کسی حصہ کا فیصلہ کیا، البتہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھوں گا۔ ابوبکر رضی الله عنہ نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھٹا حصہ دیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: تمہارے ساتھ اس کو کس نے سنا ہے؟ مغیرہ رضی الله عنہ نے کہا: محمد بن مسلمہ نے۔ چنانچہ ابوبکر رضی الله عنہ نے اسے چھٹا حصہ دے دیا، پھر عمر رضی الله عنہ کے پاس اس کے علاوہ دوسری دادی آئی (اگر پہلے والی دادی تھی تو عمر کے پاس نانی آئی اور اگر پہلی والی نانی تھی تو عمر کے پاس دادی آئی) سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: زہری کے واسطہ سے روایت کرتے ہوئے معمر نے اس حدیث میں مجھ سے کچھ زیادہ باتیں بیان کی ہیں، لیکن زہری کے واسطہ سے مروی روایت مجھے یاد نہیں، البتہ مجھے معمر کی روایت یاد ہے کہ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اگر تم دونوں (دادی اور نانی) وارث ہو تو چھٹے حصے میں دونوں شریک ہوں گی، اور جو منفرد ہو تو چھٹا حصہ اسے ملے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الفرائض 5 (2894)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 4 (2724) (تحفة الأشراف: 11232) (ضعیف) (سند میں قبیصہ اور مغیرہ و ابوبکر صدیق رضی الله عنہما وغیرہ کے درمیان انقطاع ہے، اور زہری کے تلامذہ کے درمیان اس حدیث کو زہری سے نقل کرنے میں اضطراب ہے، دیکھیے: ضعیف أبي داود رقم: 497، والإروائ: 1680)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1680)، ضعيف أبي داود (497) // (617 / 2894)، ضعيف ابن ماجة (595 / 2724) //
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عثمان بن إسحاق بن خرشة، عن قبيصة بن ذؤيب، قال: " جاءت الجدة إلى ابي بكر تساله ميراثها، قال: فقال لها: ما لك في كتاب الله شيء، وما لك في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء فارجعي حتى اسال الناس، فسال الناس، فقال المغيرة بن شعبة: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم " فاعطاها السدس "، فقال ابو بكر: هل معك غيرك، فقام محمد بن مسلمة الانصاري، فقال: مثل ما قال المغيرة بن شعبة، فانفذه لها ابو بكر، قال: ثم جاءت الجدة الاخرى إلى عمر بن الخطاب تساله ميراثها، فقال: ما لك في كتاب الله شيء، ولكن هو ذاك السدس فإن اجتمعتما فيه فهو بينكما، وايتكما خلت به فهو لها "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن بريدة، وهذا احسن وهو اصح من حديث ابن عيينة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ خَرَشَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، قَالَ: " جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهَا: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْءٌ، وَمَا لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ، فَسَأَلَ النَّاسَ، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَأَعْطَاهَا السُّدُسَ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ، فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَتِ الْجَدَّةُ الْأُخْرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْءٌ، وَلَكِنْ هُوَ ذَاكَ السُّدُسُ فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا، وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَهَذَا أَحْسَنُ وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
قبیصہ بن ذویب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس ایک دادی یا نانی میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی، ابوبکر رضی الله عنہ نے اس سے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب (قرآن) میں کچھ نہیں ہے اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی کچھ نہیں ہے، تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھ لوں، انہوں نے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ نے دادی یا نانی کو چھٹا حصہ دیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ محمد بن مسلمہ انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور اسی طرح کی بات کہی جیسی مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے کہی تھی۔ چنانچہ ابوبکر رضی الله عنہ نے اس کے لیے حکم جاری کر دیا، پھر عمر رضی الله عنہ کے پاس دوسری دادی (اگر پہلی دادی تھی تو دوسری نانی تھی اور اگر پہلی نانی تھی تو دوسری دادی تھی) میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی۔ انہوں نے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب (قرآن) میں کچھ نہیں ہے البتہ وہی چھٹا حصہ ہے، اگر تم دونوں (دادی اور نانی) اجتماعی طور پر وارث ہو تو چھٹا حصہ تم دونوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، اور تم میں سے جو منفرد اور اکیلی ہو تو وہ اسی کو ملے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہ (مالک کی) روایت سفیان بن عیینہ کی روایت کی بنسبت زیادہ صحیح ہے، ۳- اس باب میں بریدہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا يزيد بن هارون، عن محمد بن سالم، عن الشعبي، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود، قال في الجدة مع ابنها: " إنها اول جدة اطعمها رسول الله صلى الله عليه وسلم سدسا مع ابنها وابنها حي "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه مرفوعا إلا من هذا الوجه، وقد ورث بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الجدة مع ابنها ولم يورثها بعضهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ فِي الْجَدَّةِ مَعَ ابْنِهَا: " إِنَّهَا أَوَّلُ جَدَّةٍ أَطْعَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُدُسًا مَعَ ابْنِهَا وَابْنُهَا حَيٌّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ وَرَّثَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدَّةَ مَعَ ابْنِهَا وَلَمْ يُوَرِّثْهَا بَعْضُهُمْ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ (پوتے کے ترکہ میں) دادی اور اس کے بیٹے کے حصہ کے بارے میں کہتے ہیں: وہ پہلی دادی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کی موجودگی میں چھٹا حصہ دیا، اس وقت اس کا بیٹا زندہ تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- بعض صحابہ نے بیٹے کی موجودگی میں دادی کو وارث ٹھہرایا ہے اور بعض نے وارث نہیں ٹھہرایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9565) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن سالم“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1687)
قال الشيخ زبير على زئي: (2102) إسناده ضعيف محمد بن سالم: ضعيف (تق: 5898)
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے ابوعبیدہ رضی الله عنہ کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ اور اس کے رسول ولی (سر پرست) ہیں جس کا کوئی ولی (سر پرست) نہیں ہے اور ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ اور مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن عمرو بن مسلم، عن طاوس، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الخال وارث من لا وارث له "، وهذا حديث حسن غريب، وقد ارسله بعضهم ولم يذكر فيه عن عائشة، واختلف فيه اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فورث بعضهم الخال والخالة والعمة، وإلى هذا الحديث ذهب اكثر اهل العلم في توريث ذوي الارحام، واما زيد بن ثابت فلم يورثهم، وجعل الميراث في بيت المال.(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ "، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ أَرْسَلَهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، وَاخْتَلَفَ فِيهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَرَّثَ بَعْضُهُمُ الْخَالَ وَالْخَالَةَ وَالْعَمَّةَ، وَإِلَى هَذَا الْحَدِيثِ ذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَوْرِيثِ ذَوِي الْأَرْحَامِ، وَأَمَّا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَلَمْ يُوَرِّثْهُمْ، وَجَعَلَ الْمِيرَاثَ فِي بَيْتِ الْمَالِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض لوگوں نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ رضی الله عنہا کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، ۳- اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا اختلاف ہے، بعض لوگوں نے ماموں، خالہ اور پھوپھی کو وارث ٹھہرایا ہے۔ ذوی الارحام (قرابت داروں) کو وارث بنانے کے بارے میں اکثر اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، ۴- لیکن زید بن ثابت رضی الله عنہ نے بھی انہیں وارث نہیں ٹھہرایا ہے یہ میراث کو بیت المال میں رکھنے کے قائل ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک آزاد کردہ غلام کھجور کی ٹہنی سے گرا اور مر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو، کیا اس کا کوئی وارث ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”اس کا مال اس کے گاؤں کے کچھ لوگوں کو دے دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الفرائض 8 (2902)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 7 (2733) (تحفة الأشراف: 16381)، و مسند احمد (6/137، 181 (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عوسجة، عن ابن عباس، " ان رجلا مات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يدع وارثا إلا عبدا هو اعتقه، فاعطاه النبي صلى الله عليه وسلم ميراثه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، والعمل عند اهل العلم في هذا الباب، إذا مات الرجل، ولم يترك عصبة ان ميراثه يجعل في بيت مال المسلمين.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، " أَنَّ رَجُلًا مَاتَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا إِلَّا عَبْدًا هُوَ أَعْتَقَهُ، فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِيرَاثَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَابِ، إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ، وَلَمْ يَتْرُكْ عَصَبَةً أَنَّ مِيرَاثَهُ يُجْعَلُ فِي بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی مر گیا اور اپنے پیچھے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی غلام کو اس کی میراث دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں اہل علم کا عمل ہے کہ جب کوئی آدمی مر جائے اور اپنے پیچھے کوئی عصبہ نہ چھوڑے تو اس کا مال مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔