(مرفوع) حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد الاموي، حدثنا ابي، حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ترك مالا فلاهله، ومن ترك ضياعا فإلي "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن جابر وانس، وقد رواه الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم اطول من هذا واتم معنى ضياعا ضائعا ليس له شيء، فانا اعوله وانفق عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَأَنَسٍ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْوَلَ مِنْ هَذَا وَأَتَمَّ مَعْنَى ضَيَاعًا ضَائِعًا لَيْسَ لَهُ شَيْءٌ، فَأَنَا أَعُولُهُ وَأُنْفِقُ عَلَيْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زہری نے یہ حدیث «عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے اور وہ حدیث اس سے طویل اور مکمل ہے، ۳- اس باب میں جابر اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- «ضياعا» کا معنی یہ ہے کہ ایسی اولاد جس کے پاس کچھ نہ ہو تو میں ان کی کفالت کروں گا اور ان پر خرچ کروں گا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1070 (تحفة الأشراف: 151080) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایسے مسلمان یتیموں اور بیواؤں کی کفالت اس حدیث کی رُو سے مسلم حاکم کے ذمے ہے کہ جن کا مورث ان کے لیے کوئی وراثت چھوڑ کر نہ مرا ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح وهو طرف من حديث تقدم بتمامه (1082)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن اور علم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں اضطراب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13498) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب اور محمد بن قاسم اسدی دونوں ضعیف ہیں، اسدی کی بعض لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، الإرواء: 1664، 1665)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (244)، الإرواء (1664) // ضعيف الجامع الصغير (2450) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2091) ضعيف محمد بن القاسم:كذبوه والفضل: ضعيف (تقدما:358) ولبعض الحديث شواھد ضعيفة عند ابن ماجه (2719) وغيره، وفي السند الآخر سليمان بن جابر: مجھول (تق:2541) وكذا تلميذه: مجھول
(مرفوع) وروى ابو اسامة هذا الحديث عن عوف، عن رجل، عن سليمان بن جابر، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، حدثنا بذلك الحسين بن حريث، اخبرنا ابو اسامة، عن عوف بهذا بمعناه، ومحمد بن القاسم الاسدي قد ضعفه احمد بن حنبل وغيره.(مرفوع) وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَوْفٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَابِرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ بِهَذَا بِمَعْنَاهُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْأَسَدِيُّ قَدْ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَغَيْرُهُ.
ابواسامہ نے یہ حدیث «عن عوف عن رجل عن سليمان بن جابر عن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے۔ اور اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ محمد بن قاسم اسدی کو احمد بن حنبل وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفردبہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9235) وأخرجہ النسائی من طرق (6305، 6306 من الکبری) (ضعیف) (سند میں اضطراب ہے، جس کی طرف مؤلف نے اشارہ کیا اور اس کی تفصیل نسائی میں ہے، حافظ ابن حجر کے نزدیک سند میں اختلاف کا سبب عوف ہیں، النکت الظراف، الإرواء: 1664)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (244)، الإرواء (1664) // ضعيف الجامع الصغير (2450) //
3. باب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الْبَنَاتِ
3. باب: لڑکیوں کی میراث کا بیان۔
Chapter: What has been Related About Inheritance For Daughters
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثني زكرياء بن عدي، اخبرنا عبيد الله بن عمرو، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر بن عبد الله، قال: جاءت امراة سعد بن الربيع بابنتيها من سعد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، هاتان ابنتا سعد بن الربيع، قتل ابوهما معك يوم احد شهيدا، وإن عمهما اخذ مالهما، فلم يدع لهما مالا ولا تنكحان إلا ولهما مال، قال: " يقضي الله في ذلك "، فنزلت آية الميراث، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمهما، فقال: " اعط ابنتي سعد الثلثين، واعط امهما الثمن، وما بقي فهو لك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من حديث عبد الله بن محمد بن عقيل، وقد رواه شريك ايضا عن عبد الله بن محمد بن عقيل.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ، قَالَ: " يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ "، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا، فَقَالَ: " أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، وَقَدْ رَوَاهُ شَرِيكٌ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کو جو سعد سے پیدا ہوئی تھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کے باپ آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے، اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اور بغیر مال کے ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا“، چنانچہ اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (لڑکیوں) کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو مال کا دو تہائی حصہ دے دو اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ، اور جو بچے وہ تمہارا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل سے شریک نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: کل ترکہ ۲۴ حصے فرض کریں گے جن میں سے: کل وراثت میں سے بیٹیوں کا ۲/۳ (دو تہائی) =۱۶ حصے، مرنے والے کی بیوی کا ۱/۸ (آٹھواں حصہ) = ۳ حصے اور باقی بھائی کا =۵ حصے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2720)
قال الشيخ زبير على زئي: (2092) إسناده ضعيف / د 2891، جه 2720
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا يزيد بن هارون، عن سفيان الثوري، عن ابي قيس الاودي، عن هزيل بن شرحبيل، قال: جاء رجل إلى ابي موسى وسلمان بن ربيعة، فسالهما عن الابنة، واخت لاب، وام، فقال: للابنة النصف، وللاخت من الاب والام ما بقي، وقالا له: انطلق إلى عبد الله، فاساله فإنه سيتابعنا، فاتى عبد الله فذكر ذلك له واخبره بما وابنة الابن قالا، قال عبد الله: قد ضللت إذا وما انا من المهتدين، ولكن اقضي فيهما كما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم: " للابنة النصف، ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين، وللاخت ما بقي "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو قيس الاودي اسمه عبد الرحمن بن ثروان الكوفي، وقد رواه شعبة، عن ابي قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الْأَوْدِيِّ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَسَأَلَهُمَا عَنِ الِابْنَةِ، وَأُخْتٍ لأب، وأم، فقال: للابنة النصف، وللأخت من الأب والأم ما بقي، وقالا له: انطلق إلى عبد الله، فاسأله فإنه سيتابعنا، فأتى عبد الله فذكر ذلك له وأخبره بما وَابْنَةِ الِابْنِ قَالَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنْ أَقْضِي فِيهِمَا كَمَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلِابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَلِلْأُخْتِ مَا بَقِيَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو قَيْسٍ الْأَوْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ الْكُوفِيُّ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ.
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا: بیٹی کو آدھی میراث اور حقیقی بہن کو باقی حصہ ملے گا، انہوں نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، وہ بھی ہماری طرح جواب دیں گے، وہ آدمی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آیا، ان سے مسئلہ بیان کیا اور ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ نے جو کہا تھا اسے بھی بتایا، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: اگر میں بھی ویسا ہی جواب دوں تب تو میں گمراہ ہو گیا اور ہدایت یافتہ نہ رہا، میں اس سلسلے میں اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا تاکہ (بیٹیوں کا مکمل حصہ) دو تہائی پورا ہو جائے اور باقی حصہ بہن کو ملے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے بھی ابوقیس عبدالرحمٰن بن ثروان اودی کوفی سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: کل ترکہ کے (۱۲) حصے فرض کریں گے جن میں سے: مرنے والے کی بیٹی کے لیے کل ترکہ کا آدھا =۶ حصے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ =۲ حصے اور مرنے والے کی بہن کے لیے باقی ترکہ =۴ حصے۔
(مرفوع) حدثنا بندار، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، انه قال: إنكم تقرءون هذه الآية: من بعد وصية توصون بها او دين سورة النساء آية 12 وان رسول الله صلى الله عليه وسلم " قضى بالدين قبل الوصية، وإن اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات، الرجل يرث اخاه لابيه وامه دون اخيه لابيه ".(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ سورة النساء آية 12 وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ، الرَّجُلُ يَرِثُ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ دُونَ أَخِيهِ لِأَبِيهِ ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہ آیت پڑھتے ہو «من بعد وصية توصون بها أو دين»”تم سے کی گئی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد (میراث تقسیم کی جائے گی ۱؎)“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ (اگر حقیقی بھائی اور علاتی بھائی دونوں موجود ہوں تو) حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی بھائی (جن کے باپ ایک اور ماں دوسری ہو) وارث نہیں ہوں گے، آدمی اپنے حقیقی بھائی کو وارث بناتا ہے علاتی بھائی کو نہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الوصایا 7 (2715)، و یأتي برقم 2122 (تحفة الأشراف: 10043)، و أحمد (1/79، 131، 144) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا راوی ”حارث اعور“ ضعیف ہے، دیکھیے: الإرواء رقم: 1667)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: آیت کے سیاق سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میت کی وصیت پوری کی جائے گی، پھر اس کا قرض ادا کیا جائے گا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق پہلے قرض ادا کیا جائے گا، پھر وصیت کا نفاذ ہو گا، یہی تمام علماء کا قول بھی ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2715)
قال الشيخ زبير على زئي: (2094، 2095) إسناده ضعيف / جه 2715 الحارث الأعور ضعيف (تقدم: 272) ولمفھوم الحديث شاھد حسن عند ابن ماجه (2433) وھو يغني عنه
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا ابو إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، وقد تكلم بعض اهل العلم في الحارث والعمل على هذا الحديث عند عامة اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْحَارِثِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: ”حقیقی بھائی وارث ہوں گے نہ کہ علاتی بھائی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف ابواسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ابواسحاق سبیعی روایت کرتے ہیں حارث سے اور حارث، علی رضی الله عنہ سے، ۲- بعض اہل علم نے حارث کے بارے میں کلام کیا ہے، ۳- عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الوصایا 7 (2715) (زیادةً علی الحدیث المذکور) و في الفرائض 10 (2739) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن انظر ما قبله (2094)
قال الشيخ زبير على زئي: (2094، 2095) إسناده ضعيف / جه 2715 الحارث الأعور ضعيف (تقدم: 272) ولمفھوم الحديث شاھد حسن عند ابن ماجه (2433) وھو يغني عنه
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرحمن بن سعد، اخبرنا عمرو بن ابي قيس، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: " جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني وانا مريض في بني سلمة، فقلت: يا نبي الله، كيف اقسم مالي بين ولدي، فلم يرد علي شيئا، فنزلت: يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين سورة النساء آية 11 الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه شعبة، وابن عيينة، وغيره عن بن المنكدر، عن جابر.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ فِي بَنِي سَلَمَةَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْسِمُ مَالِي بَيْنَ وَلَدِي، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَنَزَلَتْ: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ سورة النساء آية 11 الْآيَةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وغيره عَنْ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کی غرض سے تشریف لائے اس وقت میں بنی سلمہ کے محلے میں بیمار تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنا مال اپنی اولاد ۱؎ کے درمیان کیسے تقسیم کروں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين»”اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے“(النساء: ۱۱)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ، سفیان بن عیینہ اور دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث محمد بن منکدر کے واسطہ سے جابر رضی الله عنہ سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر النساء (3015) (تحفة الأشراف: 3066) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگلی روایت جو صحیحین کی ہے اس میں اولاد کی بجائے بہنوں کا تذکرہ ہے، اور صحیح واقعہ بھی یہی ہے کہ جابر رضی الله عنہ کی اس وقت تو اولاد تھی ہی نہیں، اس لیے یہ روایت صحیح ہونے کے باوجود ”شاذ“ کی قبیل سے ہوئی (دیکھئیے اگلی روایت)۔
(مرفوع) حدثنا الفضل بن الصباح البغدادي، اخبرنا سفيان ابن عيينة، اخبرنا محمد بن المنكدر، سمع جابر بن عبد الله، يقول: " مرضت فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني فوجدني قد اغمي علي، فاتى ومعه ابو بكر وعمر، وهما ماشيان، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم فصب علي من وضوئه، فافقت، فقلت: يا رسول الله، كيف اقضي في مالي، او كيف اصنع في مالي، فلم يجبني شيئا، وكان له تسع اخوات حتى نزلت آية الميراث يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176الآية "، قال جابر: في نزلت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَجَدَنِي قَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَأَتَى وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي، أَوْ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي، فَلَمْ يُجِبْنِي شَيْئًا، وَكَانَ لَهُ تِسْعُ أَخَوَاتٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176الْآيَةَ "، قَالَ جَابِرٌ: فِيَّ نَزَلَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے آئے، آپ نے مجھے بیہوش پایا، آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی تھے، وہ پیدل چل کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی میرے اوپر ڈال دیا، میں ہوش میں آ گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ یا میں اپنے مال (کی تقسیم) کیسے کروں؟ (یہ راوی کا شک ہے) آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا - جابر رضی الله عنہ کے پاس نو بہنیں تھیں - یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة»”لوگ آپ سے (کلالہ ۱؎ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے: اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے“(النساء: ۱۷۶)۔ جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔