(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابن ابي خزامة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن ابن عيينة كلتا الروايتين، فقال بعضهم: عن ابي خزامة، عن ابيه، وقال بعضهم، عن ابن ابي خزامة، عن ابيه، وقد روى غير ابن عيينة هذا الحديث، عن الزهري، عن ابي خزامة، عن ابيه، وهذا اصح، ولا نعرف لابي خزامة، عن ابيه، غير هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- دونوں روایتیں سفیان ابن عیینہ سے مروی ہیں، ان کے بعض شاگردوں نے سند میں «عن أبي خزامة، عن أبيه» کہا ہے اور بعض نے «عن ابن أبي خزامة، عن أبيه» کہا ہے، ابن عیینہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اسے «عن الزهري، عن أبي خزامة، عن أبيه» روایت کی ہے، یہ زیادہ صحیح ہے، ۳- ہم اس روایت کے علاوہ ابوخزامہ سے ان کی دوسری کوئی روایت نہیں جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3437) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (749)، وسيأتي برقم (379 / 2252) //
22. باب مَا جَاءَ فِي الْكَمْأَةِ وَالْعَجْوَةِ
22. باب: صحرائے عرب میں زیر زمین پائی جانے والی ایک ترکاری (فقعہ) اور عجوہ کھجور کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Truffles And Al-'Ajwah
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عجوہ (کھجور) جنت کا پھل ہے، اس میں زہر سے شفاء موجود ہے اور صحرائے عرب کا «فقعہ»۱؎ ایک طرح کا «من»(سلوی والا «من») ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ محمد بن عمرو کی روایت سے ہے، ہم اسے صرف محمد بن عمر ہی سعید بن عامر کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ محمد بن عمرو سے روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں سعید بن زید، ابوسعید اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 8 (3455) (تحفة الأشراف: 15027) و مسند احمد (2/301، 305، 325، 356، 421، 488، 490، 511) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں حدیث میں وارد لفظ «الکمأۃ» کا ترجمہ ”کھمبی“ قطعاً درست نہیں ہے «الکمأۃ» کو عربوں کی عامی زبان میں «فقعہ» کہا جاتا ہے، یہ «فقعہ» موسم سرما کی بارشوں کے بعد صحرائے نجد و نفود کبریٰ، مملکت سعودیہ کے شمال اور ملک عراق کے جنوب میں پھیلے ہوئے بہت بڑے صحراء میں زیر زمین پھیلتا ہے، اس کی رنگت اور شکل و صورت آلو جیسی ہوتی ہے، جب کہ کھمبی زمین سے باہر اور ہندوستان کے ریتلے علاقوں میں ہوتی ہے، ابن القیم، ابن حجر اور دیگر علماء امت نے «الکمأۃ» کی جو تعریف لکھی ہے اس کے مطابق بھی «الکمأۃ» درحقیقت «فقعہ» ہے کھمبی نہیں، (تفصیل کے لیے فتح الباری اور تحفۃ الأحوذی کا مطالعہ کر لیں، نیز اس پر تفصیلی کلام ابن ماجہ کے حدیث نمبر (۳۴۵۵) کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں، اور جہاں بھی «کمأۃ» کا ترجمہ کھمبی لکھا ہے، اس کی جگہ «فقعہ» لکھ لیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (4235 / التحقيق الثانى)
سعید بن زید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صحرائے عرب کا فقعہ ایک طرح کا «من»(سلوی والا «من») ہے اور اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا ابي، عن قتادة، عن شهر بن حوشب، عن ابي هريرة، ان ناسا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا: الكماة جدري الارض، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " الكماة من المن، وماؤها شفاء للعين، والعجوة من الجنة، وهي شفاء من السم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: الْكَمْأَةُ جُدَرِيُّ الْأَرْضِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: کھنبی زمین کی چیچک ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صحرائے عرب کا «فقعہ» ایک طرح کا «من» ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے، اور عجوہ کھجور جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے، وہ زہر کے لیے شفاء ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2066 (تحفة الأشراف: 13496) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے)»
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ، حدثنا ابي، عن قتادة، قال: حدثت، ان ابا هريرة، قال: " اخذت ثلاثة اكمؤ، او خمسا او سبعا فعصرتهن فجعلت ماءهن في قارورة فكحلت به جارية لي فبرات ".(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حُدِّثْتُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَخَذْتُ ثَلَاثَةَ أَكْمُؤٍ، أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا فَعَصَرْتُهُنَّ فَجَعَلْتُ مَاءَهُنَّ فِي قَارُورَةٍ فَكَحَلْتُ بِهِ جَارِيَةً لِي فَبَرَأَتْ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تین، پانچ یا سات کھنبی لی، ان کو نچوڑا، پھر اس کا عرق ایک شیشی میں رکھا اور اسے ایک لڑکی کی آنکھ میں ڈالا تو وہ صحت یاب ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (سند میں قتادہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ موقوف ہے، یعنی ابوہریرہ کا کلام ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مع وقفه
قال الشيخ زبير على زئي: (2069) إسناده ضعيف / السند منقطع
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا ابي، عن قتادة، قال: حدثت، ان ابا هريرة، قال: " الشونيز دواء من كل داء إلا السام "، قال قتادة: ياخذ كل يوم إحدى وعشرين حبة فيجعلهن في خرقة فلينقعه فيتسعط به كل يوم في منخره الايمن قطرتين، وفي الايسر قطرة، والثاني: في الايسر قطرتين، وفي الايمن قطرة، والثالث: في الايمن قطرتين، وفي الايسر قطرة.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ بْنِ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حُدِّثْتُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: " الشُّونِيزُ دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا السَّامَ "، قَالَ قَتَادَةُ: يَأْخُذُ كُلَّ يَوْمٍ إِحْدَى وَعِشْرِينَ حَبَّةً فَيَجْعَلُهُنَّ فِي خِرْقَةٍ فَلْيَنْقَعْهُ فَيَتَسَعَّطُ بِهِ كُلَّ يَوْمٍ فِي مَنْخَرِهِ الْأَيْمَنِ قَطْرَتَيْنِ، وَفِي الْأَيْسَرِ قَطْرَةً، وَالثَّانِي: فِي الْأَيْسَرِ قَطْرَتَيْنِ، وَفِي الْأَيْمَنِ قَطْرَةً، وَالثَّالِثُ: فِي الْأَيْمَنِ قَطْرَتَيْنِ، وَفِي الْأَيْسَرِ قَطْرَةً.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کلونجی موت کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ قتادہ ہر روز کلونجی کے اکیس دانے لیتے، ان کو ایک پوٹلی میں رکھ کر پانی میں بھگوتے پھر ہر روز داہنے نتھنے میں دو بوند اور بائیں میں ایک بوند ڈالتے، دوسرے دن بائیں میں دو بوندیں اور داہنی میں ایک بوند ڈالتے اور تیسرے روز داہنے میں دو بوند اور بائیں میں ایک بوند ڈالتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (اس سند میں بھی قتادہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ موقوف ہے، یعنی ابوہریرہ کا کلام ہے، لیکن ابوہریرہ کا یہ قول مرفوع حدیث سے ثابت ہے، الصحیحة 1905)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مع وقفه، لكن، الصحيحة مرفوعا دون قول قتادة: " يأخذ ... "، الصحيحة (1905)
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1133، 1276 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: غیب کا علم صرف رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اسی لیے اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل اور غلط طریقے سے جو مال لوگوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ حرام ہے، زنا معصیت اور فحش کے اعمال میں سے سب سے بدترین عمل ہے، اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت ناپاک اور حرام ہے، کتا ایک نجس جانور ہے اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ جس برتن میں یہ منہ ڈال دے شریعت نے اسے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے، اسی لیے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، سوائے اس کے کہ گھر، جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن مدويه، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن عيسى اخيه، قال: دخلت على عبد الله بن عكيم ابي معبد الجهني اعوده وبه حمرة، فقلنا: الا تعلق شيئا، قال: الموت اقرب من ذلك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: " من تعلق شيئا وكل إليه "، قال ابو عيسى: وحديث عبد الله بن عكيم إنما نعرفه من حديث محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، وعبد الله بن عكيم لم يسمع من النبي صلى الله عليه وسلم، وكان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم يقول: كتب إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم،(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عِيسَى أَخِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ أَبِي مَعْبَدِ الْجُهَنِيِّ أَعُودُهُ وَبِهِ حُمْرَةٌ، فَقُلْنَا: أَلَا تُعَلِّقُ شَيْئًا، قَالَ: الْمَوْتُ أَقْرَبُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُكَيْمٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كَتَبَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عیسیٰ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عکیم ابومعبد جہنی کے ہاں ان کی عیادت کرنے گیا، ان کو «حمرة» کا مرض تھا ۱؎ ہم نے کہا: کوئی تعویذ وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے ہیں؟ انہوں نے کہا: موت اس سے زیادہ قریب ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عکیم کی حدیث کو ہم صرف محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، عبداللہ بن عکیم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نہیں سنی ہے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کے پاس لکھ کر بھیجا ہے۔
وضاحت: ۱؎: «حمرہ» ایک قسم کا وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے بخار آتا ہے، اور بدن پر سرخ دانے پڑ جاتے ہیں۔
۲؎: جو چیزیں کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہیں وہ حرام ہیں، چنانچہ تعویذ گنڈا اور جادو منتر وغیرہ اسی طرح حرام کے قبیل سے ہیں، تعویذ میں آیات قرآنی کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ حدیث میں مطلق لٹکانے کو ناپسند کیا گیا ہے، یہ حکم عام ہے اس کے لیے کوئی دوسری چیز مخص نہیں ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی تعویذ، گنڈا یا کوئی منکا وغیرہ لٹکایا اُس نے شرک کیا“۔
قال الشيخ الألباني: حسن غاية المرام (297)
قال الشيخ زبير على زئي: (2072) إسناده ضعيف محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلي: ضعيف (تقدم:194) وللحديث شاھد ضعيف عند النسائي (112/7 ح4084)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن سعيد بن مسروق، عن عباية بن رفاعة، عن جده رافع بن خديج، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الحمى فور من النار فابردوها بالماء "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن اسماء بنت ابي بكر، وابن عمر، وامراة الزبير، وعائشة، وابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْحُمَّى فَوْرٌ مِنَ النَّارِ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَامْرَأَةِ الزُّبَيْرِ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کی گرمی سے ہوتا ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں اسماء بنت ابوبکر، ابن عمر، زبیر کی بیوی، ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں (عائشہ رضی الله عنہا کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 10 (3262)، والطب 28 (5726)، صحیح مسلم/السلام 26 (2212)، سنن ابن ماجہ/الطب 19 (3473) (تحفة الأشراف: 3562)، و مسند احمد (3/464)، و (4/141)، وسنن الدارمی/الرقاق 55 (2811) (صحیح)»