سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
56. باب مَا جَاءَ فِي ظَنِّ السُّوءِ
56. باب: بدگمانی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Bad Suspicion
حدیث نمبر: 1988
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: و سمعت عبد بن حميد يذكر عن بعض اصحاب سفيان، قال: قال سفيان: الظن ظنان: فظن إثم، وظن ليس بإثم، فاما الظن الذي هو إثم فالذي يظن ظنا ويتكلم به، واما الظن الذي ليس بإثم فالذي يظن ولايتكلم به.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: و سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَذْكُرُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ سُفْيَانَ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ: الظَّنُّ ظَنَّانِ: فَظَنٌّ إِثْمٌ، وَظَنٌّ لَيْسَ بِإِثْمٍ، فَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي هُوَ إِثْمٌ فَالَّذِي يَظُنُّ ظَنًّا وَيَتَكَلَّمُ بِهِ، وَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي لَيْسَ بِإِثْمٍ فَالَّذِي يَظُنُّ وَلاَيَتَكَلَّمُ بِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سفیان کہتے ہیں کہ ظن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اور ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے، جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر لائے، اور جو ظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 45 (5143)، والأدب 57 (6064)، و58 (6066)، والفرائض 2 (6724)، صحیح مسلم/البر والصلة 9 (2563)، سنن ابی داود/ الأدب 56 (4917) (تحفة الأشراف: 13720)، و مسند احمد (2/245، 312، 342، 465، 470، 482) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے، کیونکہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہر مسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (417)
57. باب مَا جَاءَ فِي الْمِزَاحِ
57. باب: ہنسی مذاق، خوش طبعی اور دل لگی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Joking
حدیث نمبر: 1989
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الوضاح الكوفي، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن شعبة، عن ابي التياح، عن انس، قال: ان كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى إن كان ليقول لاخ لي صغير: " يا ابا عمير، ما فعل النغير ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَضَّاحِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَنْ كَانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ لَيَقُولُ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: " يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر والوں کے ساتھ اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے: ابوعمیر! نغیر کا کیا ہوا؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 333 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نغیر گوریا کی مانند ایک چڑیا ہے جس کی چونچ لال ہوتی ہے، ابوعمیر نے اس چڑیا کو پال رکھا تھا اور اس سے بہت پیار کرتے تھے، جب وہ مر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تسلی مزاح کے طور پر ان سے پوچھتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (333)
حدیث نمبر: 1989M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن ابي التياح، عن انس، نحوه، وابو التياح اسمه يزيد بن حميد الضبعي، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَهُ، وَأَبُو التَّيَّاحِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوالتیاح کا نام یزید بن حمید ضبعی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (333)
حدیث نمبر: 1990
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس بن محمد الدوري البغدادي، حدثنا علي بن الحسن، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن اسامة بن زيد، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قالوا: يا رسول الله، إنك تداعبنا، قال: " إني لا اقول إلا حقا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن معنى قوله: إنك تداعبنا: إنما يعنون إنك تمازحنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ: " إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ مَعْنَى قَوْلِهِ: إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا: إِنَّمَا يَعْنُونَ إِنَّكَ تُمَازِحُنَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں (خوش طبعی اور مزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12949)، وانظر: مسند احمد (2/340، 360) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: لوگوں کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے ہمیں مزاح (ہنسی مذاق) اور خوش طبعی کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ خود خوش طبعی کرتے ہیں، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مزاح اور خوش طبعی کے وقت بھی میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا، جب کہ ایسے موقع پر دوسرے لوگ غیر مناسب اور ناحق باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1726)، مختصر الشمائل (202)
حدیث نمبر: 1991
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا خالد بن عبد الله الواسطي، عن حميد، عن انس بن مالك، ان رجلا استحمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني حاملك على ولد الناقة، فقال: يا رسول الله، ما اصنع بولد الناقة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وهل تلد الإبل إلا النوق "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا اسْتَحْمَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ النَّاقَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کی درخواست کی، آپ نے فرمایا: میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سوا کوئی اور بھی جنتی ہے؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 92 (4998) (تحفة الأشراف: 655) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے، ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: «لا تدخل الجنة عجوز» یعنی بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہو گی، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: «إني حاملك على ولد الناقة» کا بھی حال ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کر لیا جائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4886)، مختصر الشمائل (203)
حدیث نمبر: 1992
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو اسامة، عن شريك، عن عاصم الاحول، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا ذا الاذنين "، قال محمود: قال ابو اسامة: يعني مازحه، وهذا الحديث حديث صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ "، قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي مَازَحَهُ، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے دو کان والے! محمود بن غیلان کہتے ہیں: ابواسامہ نے کہا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مزاح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 92 (5002)، ویأتي في المناقب 56 (برقم: 3828) (تحفة الأشراف: 934)، و مسند احمد (3/117، 127، 242، 260) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (200)
58. باب مَا جَاءَ فِي الْمِرَاءِ
58. باب: تکرار کرنے اور لڑائی جھگڑے کی مذمت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Arguing
حدیث نمبر: 1993
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عقبة بن مكرم العمي البصري، حدثنا ابن ابي فديك، قال: حدثني سلمة بن وردان الليثي، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ترك الكذب وهو باطل بني له في ربض الجنة، ومن ترك المراء وهو محق بني له في وسطها، ومن حسن خلقه بني له في اعلاها "، وهذا الحديث حديث حسن لا نعرفه إلا من حديث سلمة بن وردان، عن انس بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكَرِّمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا، وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا "، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پر ہے، اس کے لیے اطراف جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا، جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (51) (تحفة الأشراف: 868) (ضعیف) سند میں سلمہ بن وردان لیثی مدنی ضعیف راوی ہیں، صحیح الفاظ ابو امامہ رضی الله عنہ کی حدیث سے اس طرح ہیں: ”أنا زعیم ببیت في ربض الجنة لمن ترک المزاح و إن کان محقا، و بیت في وسط الجنة لمن ترک الکذب و إن کان مازحا، و بیت في اعلی الجنة لمن حسن خلقہ“ (أبو داود رقم 4800) تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة 273)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ، ابن ماجة (51) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (6)، الصحيحة (273)، ضعيف الجامع برقم (5522) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1993) إسناده ضعيف / جه 51
سلمة بن وردان ضعيف (تق: 2514) وحديث أبى داود (4800) يغيني عنه
حدیث نمبر: 1994
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا فضالة بن الفضل الكوفي، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابن وهب بن منبه، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كفى بك إثما ان لا تزال مخاصما "، وهذا الحديث حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا فَضَالَةُ بْنُ الْفَضْلِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا "، وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑتے رہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6540) (ضعیف) (سند میں ”ادریس بن بنت وہب بن منبہ“ مجہول راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4096) // ضعيف الجامع الصغير (4186) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1994) إسناده ضعيف
ابن وھب بن منبه: مجھول (تق:8491)
حدیث نمبر: 1995
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا زياد بن ايوب البغدادي، حدثنا المحاربي، عن الليث وهو ابن ابي سليم، عن عبد الملك، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تمار اخاك ولا تمازحه ولا تعده موعدة فتخلفه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وعبد الملك عندي هو ابن ابي بشير.(مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ اللَّيْثِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تُمَارِ أَخَاكَ وَلَا تُمَازِحْهُ وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدَةً فَتُخْلِفَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ عِنْدِي هُوَ ابْنُ أَبِي بَشِيرٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی سے مت جھگڑو، نہ اس سے ہنسی مذاق کرو، اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی تم خلاف ورزی کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6151) (ضعیف) (سند میں ”لیث بن أبی سلیم“ ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4892 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6274) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1995) إسناده ضعيف
ليث بن أبى سليم: ضعيف (تقدم:218)
59. باب مَا جَاءَ فِي الْمُدَارَاةِ
59. باب: حسن معاملہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Being Polite
حدیث نمبر: 1996
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن محمد بن المنكدر، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، قالت: استاذن رجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا عنده، فقال: بئس ابن العشيرة او اخو العشيرة، ثم اذن له فالان له القول، فلما خرج، قلت له: يا رسول الله، قلت له ما قلت ثم النت له القول، فقال: يا عائشة، " إن من شر الناس من تركه الناس او ودعه الناس اتقاء فحشه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ أَوْ أَخُو الْعَشِيرَةِ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُ فَأَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، " إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت میں آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: یہ قوم کا برا بیٹا ہے، یا قوم کا بھائی برا ہے، پھر آپ نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگو کی، جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کو برا کہا تھا، پھر آپ نے اس سے نرم گفتگو کی ۱؎، آپ نے فرمایا: عائشہ! لوگوں میں سب سے برا وہ ہے جس کی بد زبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑ دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 38 (6032)، و48 (6054)، و 82 (6131)، صحیح مسلم/البر والصلة 22 (2591)، سنن ابی داود/ الأدب 6 (4791) (تحفة الأشراف: 16754) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس کے برا ہوتے ہوئے بھی اس کے مہمان ہونے پر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا، یہی باب سے مطابقت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1049)، مختصر الشمائل (301)

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.