(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، حدثنا عبد الله بن الوليد العدني، عن سفيان الثوري، عن ابي حمزة، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله نحوه، ولم يرفعه ولم يذكر فيه، والنعي اذان بالميت. قال ابو عيسى: وهذا اصح من حديث عن ابي حمزة، وابو حمزة هو: ميمون الاعور وليس هو بالقوي عند اهل الحديث، قال 12 ابو عيسى: حديث عبد الله حديث حسن غريب، وقد كره بعض اهل العلم النعي، والنعي عندهم ان ينادى في الناس ان فلانا مات ليشهدوا جنازته، وقال بعض اهل العلم: لا باس ان يعلم اهل قرابته وإخوانه، وروي عن إبراهيم، انه قال: لا باس بان يعلم الرجل قرابته.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ: مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ، وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَى فِي النَّاسِ أَنَّ فُلَانًا مَاتَ لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ، وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَا بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا ہے کہ ” «نعی» موت کے اعلان کا نام ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں، ۴- بعض اہل علم نے «نعی» کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک «نعی» یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مر گیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے، ۶- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: (984،985) إسناده ضعيف أبوحمزة مسلم بن كيسان الأعور ضعيف (تق: 6641)
حذیفہ بن الیمان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں مر جاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہو گی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن سعد بن سنان، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الصبر في الصدمة الاولى ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصَّبْرُ فِي الصَّدْمَةِ الْأُولَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بے صبری کا مظاہرہ، اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے، بعد میں توہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن عاصم بن عبيد الله، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، " ان النبي صلى الله عليه وسلم قبل عثمان بن مظعون وهو ميت وهو يبكي " او قال: " عيناه تذرفان ". وفي الباب: عن ابن عباس، وجابر، وعائشة، قالوا: إن ابا بكر قبل النبي صلى الله عليه وسلم وهو ميت. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ وَهُوَ يَبْكِي " أَوْ قَالَ: " عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، قَالُوا: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کا بوسہ لیا - وہ انتقال کر چکے تھے - آپ رو رہے تھے۔ یا (راوی نے) کہا: آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا ۲؎ اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان میت کو بوسہ لینا اور اس پر رونا جائز ہے، رہیں وہ احادیث جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ ایسے رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1456)
قال الشيخ زبير على زئي: (989) إسناده ضعيف / د 3163، جه 1456
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا خالد، ومنصور، وهشام، فاما خالد، وهشام، فقالا: عن محمد، وحفصة، وقال: منصور: عن محمد، عن ام عطية، قالت: توفيت إحدى بنات النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " اغسلنها وترا ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك إن رايتن، واغسلنها بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا، او شيئا من كافور، فإذا فرغتن فآذنني "، فلما فرغنا آذناه، فالقى إلينا حقوه، فقال: " اشعرنها به ". قال هشيم: وفي حديث غير هؤلاء ولا ادري ولعل هشاما منهم، قالت: وضفرنا شعرها ثلاثة قرون، قال هشيم: اظنه قال: فالقيناه خلفها، قال هشيم: فحدثنا خالد من بين القوم، عن حفصة، ومحمد، عن ام عطية، قالت: وقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وابدان بميامنها ومواضع الوضوء " وفي الباب: عن ام سليم. قال ابو عيسى: حديث ام عطية حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد روي عن إبراهيم النخعي، انه قال: غسل الميت كالغسل من الجنابة، وقال مالك بن انس: ليس لغسل الميت عندنا حد مؤقت وليس لذلك صفة معلومة ولكن يطهر، وقال الشافعي: إنما قال مالك قولا مجملا: يغسل وينقى، وإذا انقي الميت بماء قراح او ماء غيره، اجزا ذلك من غسله، ولكن احب إلي ان يغسل ثلاثا فصاعدا لا يقصر عن ثلاث، لما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اغسلنها ثلاثا او خمسا، وإن انقوا في اقل من ثلاث مرات اجزا "، ولا نرى ان قول النبي صلى الله عليه وسلم إنما هو على معنى الإنقاء ثلاثا او خمسا ولم يؤقت، وكذلك قال: الفقهاء وهم اعلم بمعاني الحديث، وقال احمد، وإسحاق: وتكون الغسلات بماء وسدر، ويكون في الآخرة شيء من كافور.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، وَمَنْصُورٌ، وَهِشَامٌ، فأما خالد، وهشام، فقالا: عَنْ مُحَمَّدٍ، وَحَفْصَةَ، وَقَالَ: مَنْصُورٌ: عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ، وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي "، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: " أَشْعِرْنَهَا بِهِ ". قَالَ هُشَيْمٌ: وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلَاءِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ، قَالَتْ: وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ، قَالَ هُشَيْمٌ: أَظُنُّهُ قَالَ: فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا، قَالَ هُشَيْمٌ: فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ، عَنْ حَفْصَةَ، وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ " وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَهَّرُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلًا مُجْمَلًا: يُغَسَّلُ وَيُنْقَى، وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَاءٍ قَرَاحٍ أَوْ مَاءٍ غَيْرِهِ، أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِهِ، وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ، لِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا، وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ "، وَلَا نَرَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى مَعْنَى الْإِنْقَاءِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ، وَكَذَلِكَ قَالَ: الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: وَتَكُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَيَكُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْءٌ مِنْ كَافُورٍ.
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا“، یا فرمایا: ”تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا“، چنانچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: ”اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو“۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی الله عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلیم رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے، ۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کر دیا جائے گا، ۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کر دیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو“، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کر دیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں، ۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہو گا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔
وضاحت: ۱؎: جمہور کے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی الله عنہا تھیں، ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی الله عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی الله عنہا تھیں، صحیح پہلا قول ہی ہے۔
۲؎: یعنی خالد، منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔
۳؎: اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دینا چاہیئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن شعبة، عن خليد بن جعفر، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن المسك، فقال: " هو اطيب طيبكم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وهو قول: احمد، وإسحاق، وقد كره بعض اهل العلم المسك للميت، قال: وقد رواه المستمر بن الريان ايضا، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال علي: قال يحيى بن سعيد: المستمر بن الريان ثقة، قال يحيى: خليد بن جعفر ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْمِسْكِ، فَقَالَ: " هُوَ أَطْيَبُ طِيبِكُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمِسْكَ لِلْمَيِّتِ، قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ أَيْضًا، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ثِقَةٌ، قَالَ يَحْيَى: خُلَيْدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ تمہاری خوشبوؤں میں سب سے بہتر خوشبو ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسے مستمر بن ریان نے بھی بطریق: «أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کو مکروہ قرار دیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا عبد العزيز بن المختار، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من غسله الغسل، ومن حمله الوضوء يعني الميت ". قال: وفي الباب، عن علي، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن، وقد روي عن ابي هريرة موقوفا، وقد اختلف اهل العلم في الذي يغسل الميت، فقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا غسل ميتا فعليه الغسل، وقال بعضهم: عليه الوضوء. وقال مالك بن انس: استحب الغسل من غسل الميت ولا ارى ذلك واجبا، وهكذا قال الشافعي: وقال احمد: من غسل ميتا ارجو ان لا يجب عليه الغسل، واما الوضوء فاقل ما قيل فيه، وقال إسحاق: لا بد من الوضوء، قال: وقد روي عن عبد الله بن المبارك، انه قال: لا يغتسل ولا يتوضا من غسل الميت.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مِنْ غُسْلِهِ الْغُسْلُ، وَمِنْ حَمْلِهِ الْوُضُوءُ يَعْنِي الْمَيِّتَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْوُضُوءُ. وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَلَا أَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ: وقَالَ أَحْمَدُ: مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْغُسْلُ، وَأَمَّا الْوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيهِ، وقَالَ إِسْحَاق: لَا بُدَّ مِنَ الْوُضُوءِ، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: لَا يَغْتَسِلُ وَلَا يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں علی اور عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے، ۵- بعض کہتے ہیں: اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں: میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ۱؎ اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے، ۶- احمد کہتے ہیں: جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہو گا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے، ۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: وضو ضروری ہے ۲؎، عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔
وضاحت: ۱؎: جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس، فحسبكم أن تغسلوا أيديكم»”جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی (یعنی عورتوں، مردوں، بچوں میں سے ہر ایک) پاک ہی مرتا ہے، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو“ لہٰذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔
۲؎: انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البسوا من ثيابكم البياض، فإنها من خير ثيابكم وكفنوا فيها موتاكم ". وفي الباب: عن سمرة، وابن عمر، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وهو الذي يستحبه اهل العلم، وقال ابن المبارك: احب إلي ان يكفن في ثيابه التي كان يصلي فيها، وقال احمد، وإسحاق: احب الثياب إلينا ان يكفن فيها البياض ويستحب حسن الكفن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُكَفَّنَ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّي فِيهَا، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَيْنَا أَنْ يُكَفَّنَ فِيهَا الْبَيَاضُ وَيُسْتَحَبُّ حُسْنُ الْكَفَنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو بھی کفناؤ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سمرہ، ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اہل علم اسی کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ نماز پڑھتا تھا، ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔ اور اچھا کفن دینا مستحب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ اللباس 16 (4061)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 12 (1472) (تحفة الأشراف: 5534)، مسند احمد (1/355) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں امر استحباب کے لیے ہے اس امر پر اجماع ہے کہ کفن کے لیے بہتر سفید کپڑا ہی ہو۔