جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زکاۃ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ تم سے راضی اور خوش ہو کر ہی جدا ہو“۔
(مرفوع) حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث، حدثنا سفيان بن عيينة، عن داود، عن الشعبي، عن جرير، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه. قال ابو عيسى: حديث داود، عن الشعبي اصح من حديث مجالد، وقد ضعف مجالدا بعض اهل العلم وهو كثير الغلط.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ، وَقَدْ ضَعَّفَ مُجَالِدًا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ كَثِيرُ الْغَلَطِ.
اس سند سے بھی جریر رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: داود کی شعبی سے روایت کی ہوئی حدیث مجالد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، مجالد کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے وہ کثیر الغلط ہیں یعنی ان سے بکثرت غلطیاں ہوتی ہیں۔
(موقوف) حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي، حدثنا حفص بن غياث، عن اشعث، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال: قدم علينا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ الصدقة من اغنيائنا فجعلها في فقرائنا وكنت غلاما يتيما فاعطاني منها قلوصا. قال: وفي الباب عن ابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابي جحيفة حديث حسن.(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَجَعَلَهَا فِي فُقَرَائِنَا وَكُنْتُ غُلَامًا يَتِيمًا فَأَعْطَانِي مِنْهَا قَلُوصًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا) آیا اور اس نے زکاۃ ہمارے مالداروں سے لی اور اسے ہمارے فقراء کو دے دیا۔ میں اس وقت ایک یتیم لڑکا تھا، تو اس نے مجھے بھی اس میں سے ایک اونٹنی دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوجحیفہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11804) (ضعیف الإسناد) (سند میں اشعث بن سوار ضعیف ہیں، لیکن مسئلہ یہی ہے جو دیگر دلائل سے ثابت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (649) إسناده ضعيف أشعث بن سوار: ضعيف (تق:524) وقال النووي: وقد ضعفه الأكثرون ووثقه بعضھم (المجموع شرح المھذب 22/8)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وعلي بن حجر، قال قتيبة: حدثنا شريك، وقال علي: اخبرنا شريك والمعنى واحد، عن حكيم بن جبير، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد، عن ابيه، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سال الناس وله ما يغنيه جاء يوم القيامة ومسالته في وجهه خموش او خدوش او كدوح " قيل: يا رسول الله وما يغنيه، قال: " خمسون درهما او قيمتها من الذهب ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن، وقد تكلم شعبة في حكيم بن جبير من اجل هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، وَقَالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَسْأَلَتُهُ فِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ " قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا يُغْنِيهِ، قَالَ: " خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں سے سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اسے سوال کرنے سے بے نیاز کر دے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا سوال کرنا اس کے چہرے پر خراش ہو گی ۱؎، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کتنے مال سے وہ سوال کرنے سے بے نیاز ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے سے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- شعبہ نے اسی حدیث کی وجہ سے حکیم بن جبیر پر کلام کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 23 (1626)، سنن النسائی/الزکاة 87 (2593)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 26 (1840)، (تحفة الأشراف: 9387) (صحیح) (سند میں حکیم بن جبیر اور شریک القاضی دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن اگلی روایت میں زبید کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: راوی کو شک ہے کہ آپ نے «خموش» کہا یا «خدوش» یا «کدوح» سب کے معنی تقریباً خراش کے ہیں، بعض حضرات «خدوش»، «خموش» اور «کدوح» کو مترادف قرار دے کر شک راوی پر محمول کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ زخم کے مراتب ہیں کم درجے کا زخم «کدوح» پھر «خدوش» اور پھر «خموش» ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: (650،651) إسناده ضعيف /د 1626، ن 2593، جه 1804
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا سفيان، عن حكيم بن جبير بهذا الحديث، فقال له عبد الله بن عثمان صاحب شعبة: لو غير حكيم حدث بهذا الحديث، فقال له سفيان: وما لحكيم لا يحدث عنه شعبة، قال: نعم، قال سفيان: زبيدا يحدث بهذا، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد. والعمل على هذا عند بعض اصحابنا، وبه يقول الثوري، وعبد الله بن المبارك، واحمد، وإسحاق، قالوا: إذا كان عند الرجل خمسون درهما لم تحل له الصدقة، قال: ولم يذهب بعض اهل العلم إلى حديث حكيم بن جبير ووسعوا في هذا، وقالوا: إذا كان عنده خمسون درهما او اكثر وهو محتاج فله ان ياخذ من الزكاة، وهو قول: الشافعي وغيره من اهل الفقه والعلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ صَاحِبُ شُعْبَةَ: لَوْ غَيْرُ حَكِيمٍ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ: وَمَا لِحَكِيمٍ لَا يُحَدِّثُ عَنْهُ شُعْبَةُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سُفْيَانُ: زُبَيْدًا يُحَدِّثُ بِهَذَا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِنَا، وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ خَمْسُونَ دِرْهَمًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ الصَّدَقَةُ، قَالَ: وَلَمْ يَذْهَبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ وَوَسَّعُوا فِي هَذَا، وَقَالُوا: إِذَا كَانَ عِنْدَهُ خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ أَكْثَرُ وَهُوَ مُحْتَاجٌ فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الزَّكَاةِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ.
سفیان نے بھی حکیم بن جبیر سے یہ حدیث اسی سند سے روایت کی ہے۔ جب سفیان نے یہ حدیث روایت کی تو ان سے شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے کہا: کاش حکیم کے علاوہ کسی اور نے اس حدیث کو بیان کیا ہوتا، تو سفیان نے ان سے پوچھا ـ: کیا بات ہے کہ شعبہ حکیم سے حدیث روایت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ نہیں کرتے۔ تو سفیان نے کہا: میں نے اسے زبید کو محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے سنا ہے، اور اسی پر ہمارے بعض اصحاب کا عمل ہے اور یہی سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی کے پاس پچاس درہم ہوں تو اس کے لیے زکاۃ جائز نہیں۔ اور بعض اہل علم حکیم بن جبیر کی حدیث کی طرف نہیں گئے ہیں بلکہ انہوں نے اس میں مزید گنجائش رکھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کے پاس پچاس درہم یا اس سے زیادہ ہوں اور وہ ضرورت مند ہو تو اس کو زکاۃ لینے کا حق ہے، اہل فقہ و اہل حدیث میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ زبير على زئي: (650،651) إسناده ضعيف /د 1626، ن 2593، جه 1804
(مرفوع) حدثنا ابو بكر محمد بن بشار، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا سفيان بن سعيد ح. وحدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن ريحان بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وحبشي بن جنادة، وقبيصة بن مخارق. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو حديث حسن، وقد روى شعبة، عن سعد بن إبراهيم هذا الحديث بهذا الإسناد، ولم يرفعه، وقد روي في غير هذا الحديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تحل المسالة لغني ولا لذي مرة سوي وإذا كان الرجل قويا محتاجا ولم يكن عنده شيء فتصدق عليه اجزا عن المتصدق عند اهل العلم " ووجه هذا الحديث عند بعض اهل العلم على المسالة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ ح. وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ قَوِيًّا مُحْتَاجًا وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَتُصُدِّقَ عَلَيْهِ أَجْزَأَ عَنِ الْمُتَصَدِّقِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ " وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى الْمَسْأَلَةِ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائز ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے، ۲- اور شعبہ نے بھی یہ حدیث اسی سند سے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور اس حدیث کے علاوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ”کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی ہٹے کٹے کے لیے مانگنا جائز ہے“ اور جب آدمی طاقتور و توانا ہو لیکن محتاج ہو اور اس کے پاس کچھ نہ ہو اور اسے صدقہ دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک اس دینے والے کی زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ «لا تحل له الصدقة» کا مطلب ہے کہ اس کے لیے مانگنا درست نہیں ہے ۲؎۔
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، عن مجالد، عن عامر الشعبي، عن حبشي بن جنادة السلولي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع وهو واقف بعرفة، اتاه اعرابي فاخذ بطرف ردائه فساله إياه فاعطاه وذهب فعند ذلك حرمت المسالة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن المسالة لا تحل لغني ولا لذي مرة سوي إلا لذي فقر مدقع او غرم مفظع، ومن سال الناس ليثري به ماله كان خموشا في وجهه يوم القيامة ورضفا ياكله من جهنم، ومن شاء فليقل ومن شاء فليكثر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِطَرَفِ رِدَائِهِ فَسَأَلَهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَاهُ وَذَهَبَ فَعِنْدَ ذَلِكَ حَرُمَتِ الْمَسْأَلَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ ".
حبشی بن جنادہ سلولی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا آپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیا اور وہ چلا گیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔ اور جو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہو گا۔ اور وہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہو گا جسے وہ کھا رہا ہو گا، تو جو چاہے اسے کم کر لے اور جو چاہے زیادہ کر لے“ ا؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3291) (صحیح) (سند میں مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب 802، وتراجع الألبانی 557)»
وضاحت: ا؎: مانگنے کی عادت اختیار کرنے والوں کو اس وعید پر غور وفکر کرنا چاہیئے، بالخصوص دین حق کی اشاعت و دعوت کا کام کرنے والے داعیان و مبلغین کو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 / 384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (877)، ضعيف الجامع الصغير (1781) //
قال الشيخ زبير على زئي: (653،654) إسناده ضعيف مجالد: ضعيف (د 2851)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن عياض بن عبد الله، عن ابي سعيد الخدري، قال: اصيب رجل في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمار ابتاعها فكثر دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تصدقوا عليه " فتصدق الناس عليه، فلم يبلغ ذلك وفاء دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لغرمائه: " خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك ". قال: وفي الباب عن عائشة، وجويرية، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا فَكَثُرَ دَيْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ " فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِغُرَمَائِهِ: " خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَجُوَيْرِيَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص ۱؎ کے پھلوں میں جو اس نے خریدے تھے، کسی آفت کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی نقصان ہو گیا اور اس پر قرض زیادہ ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے صدقہ دو“ چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، مگر وہ اس کے قرض کی مقدار کو نہ پہنچا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا: ”جتنا مل رہا ہے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، جویریہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا مكي بن إبراهيم، ويوسف بن يعقوب الضبعي السدوسي، قالا: حدثنا بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتي بشيء سال اصدقة هي ام هدية؟ فإن قالوا: صدقة لم ياكل، وإن قالوا: هدية اكل ". قال: وفي الباب عن سلمان، وابي هريرة، وانس، والحسن بن علي، وابي عميرة جد معرف بن واصل واسمه رشيد بن مالك، وميمون بن مهران، وابن عباس، وعبد الله بن عمرو، وابي رافع، وعبد الرحمن بن علقمة. وقد روي هذا الحديث ايضا، عن عبد الرحمن بن علقمة، عن عبد الرحمن بن ابي عقيل، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وجد بهز بن حكيم اسمه معاوية بن حيدة القشيري. قال ابو عيسى: وحديث بهز بن حكيم حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَيُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الضُّبَعِيُّ السَّدُوسِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِشَيْءٍ سَأَلَ أَصَدَقَةٌ هِيَ أَمْ هَدِيَّةٌ؟ فَإِنْ قَالُوا: صَدَقَةٌ لَمْ يَأْكُلْ، وَإِنْ قَالُوا: هَدِيَّةٌ أَكَلَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَأَبِي عَمِيرَةَ جَدِّ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ وَاسْمُهُ رُشَيْدُ بْنُ مَالِكٍ، وَمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي رَافِعٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَقِيلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَدُّ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ اسْمُهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے: ”صدقہ ہے یا ہدیہ؟“ اگر لوگ کہتے کہ صدقہ ہے تو آپ نہیں کھاتے اور اگر کہتے کہ ہدیہ ہے تو کھا لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بہز بن حکیم کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں سلمان، ابوہریرہ، انس، حسن بن علی، ابوعمیرہ (معرف بن واصل کے دادا ہیں ان کا نام رشید بن مالک ہے)، میمون (یا مہران)، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، ابورافع اور عبدالرحمٰن بن علقمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نیز یہ حدیث عبدالرحمٰن بن علقمة، سے بھی مروی ہے انہوں نے اسے عبدالرحمٰن بن أبي عقيل سے اور عبدالرحمٰن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: صدقہ اور ہدیہ میں فرق یہ ہے کہ صدقہ سے آخرت کا ثواب مقصود ہوتا ہے اور اس کا دینے والا باعزت اور لینے والا ذلیل و حاجت مند سمجھا جاتا ہے جب کہ ہدیہ سے ہدیہ کئے جانے والے کا تقرب مقصود ہوتا ہے اور ہدیہ کرنے والی کی نظر میں اس کے باعزت اور مکرم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔