(مرفوع) حدثنا هناد، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من توضا فاحسن الوضوء ثم اتى الجمعة فدنا واستمع وانصت غفر له ما بينه وبين الجمعة وزيادة ثلاثة ايام، ومن مس الحصى فقد لغا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”جس نے وضو کیا اور اچھی طرح کیا ۱؎ پھر جمعہ کے لیے آیا ۲؎، امام کے قریب بیٹھا، غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے ۳؎ کے گناہ ۴؎ بخش دیئے جائیں گے۔ اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغو کیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة 8 (857)، سنن ابی داود/ الصلاة 209 (1050)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 62 (1025)، و81 (1090)، (تحفة الأشراف: 12405)، مسند احمد (2/424) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اچھی طرح وضو کیا کا مطلب ہے سنت کے مطابق وضو کیا۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے وضو کر کے مسجد میں آنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔
۳؎: یعنی دس دن کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک نیکی کا اجر کم سے کم دس گنا ہے۔
۴؎: اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكانما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكانما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكانما قرب كبشا اقرن، ومن راح في الساعة الرابعة فكانما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكانما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح (یعنی خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر نماز جمعہ کے لیے (پہلی گھڑی میں) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا، اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کر کے اللہ کا تقرب حاصل کیا، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، پھر جب امام خطبہ کے لیے گھر سے نکل آیا تو فرشتے ذکر سننے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن محمد بن عمرو، عن عبيدة بن سفيان، عن ابي الجعد يعني الضمري، وكانت له صحبة فيما زعم محمد بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ترك الجمعة ثلاث مرات تهاونا بها طبع الله على قلبه ". قال: وفي الباب عن ابن عمر، وابن عباس، وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابي الجعد حديث حسن. قال: وسالت محمدا عن اسم ابي الجعد الضمري، فلم يعرف اسمه، وقال: لا اعرف له عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا هذا الحديث. قال ابو عيسى: ولا نعرف هذا الحديث إلا من حديث محمد بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ، فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَهُ، وَقَالَ: لَا أَعْرِفُ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوالجعد ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جمعہ تین بار سستی ۱؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوالجعد کی حدیث حسن ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ابوالجعد ضمری کا نام پوچھا تو وہ نہیں جان سکے، ۳- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتا جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۴- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 210 (1052)، سنن النسائی/الجمعة 1 (1369)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 93 (1125)، (تحفة الأشراف: 11883)، مسند احمد (3/424)، سنن الدارمی/الصلاة 205 (1612) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل جمعہ چھوڑنا ایک خطرناک کام ہے، اس سے دل پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد اخروی کامیابی کی امید ختم ہو جاتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، ومحمد بن مدويه، قالا: حدثنا الفضل بن دكين، حدثنا إسرائيل، عن ثوير، عن رجل من اهل قباء، عن ابيه، وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: " امرنا النبي صلى الله عليه وسلم ان نشهد الجمعة من قباء ". وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا ولا يصح. قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه، ولا يصح في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء، وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " الجمعة على من آواه الليل إلى اهله ". وهذا حديث إسناده ضعيف، إنما يروى من حديث معارك بن عباد، عن عبد الله بن سعيد المقبري، وضعف يحيى بن سعيد القطان عبد الله بن سعيد المقبري في الحديث. فقال: واختلف اهل العلم على من تجب الجمعة، قال بعضهم: تجب الجمعة على من آواه الليل إلى منزله، وقال بعضهم: لا تجب الجمعة إلا على من سمع النداء، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ قُبَاءَ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْهَدَ الْجُمُعَةَ مِنْ قُبَاءَ ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا وَلَا يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ ". وَهَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ، إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ مُعَارِكِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ فِي الْحَدِيثِ. فَقَالَ: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، قَالَ بَعْضُهُمْ: تَجِبُ الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى مَنْزِلِهِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَجِبُ الْجُمُعَةُ إِلَّا عَلَى مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
اہل قباء میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتا ہے - اس کے والد صحابہ میں سے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قباء سے آ کر جمعہ میں شریک ہوں۔ اس سلسلے میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ اس پر فرض ہے جو رات کو اپنے گھر والوں تک پہنچ سکے“، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یہ حدیث معارک بن عباد سے روایت کی جاتی ہے اور معارک عبداللہ بن سعید مقبری سے روایت کرتے ہیں، یحییٰ بن سعید قطان نے عبداللہ بن سعید مقبری کی حدیث کی تضعیف کی ہے، ۳- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پر واجب ہے، بعض کہتے ہیں: جمعہ اس شخص پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر پہنچ سکے اور بعض کہتے ہیں: جمعہ صرف اسی پر واجب جس نے اذان سنی ہو، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1569) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی ”رجل من اھل قباء“ مبہم ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (501) إسناده ضعيف ثوير:ضعيف، رمي بالرفض (تق: 862) وشيخه رجل من أهل قباء:مجھول
(مرفوع) سمعت احمد بن الحسن، يقول: كنا عند احمد بن حنبل فذكروا على من تجب الجمعة، فلم يذكر احمد فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم شيئا. قال احمد بن الحسن: فقلت لاحمد بن حنبل فيه: عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال احمد: عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قلت: نعم، قال احمد بن الحسن: حدثنا حجاج بن نصير، حدثنا معارك بن عباد، عن عبد الله بن سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الجمعة على من آواه الليل إلى اهله ". قال: فغضب علي احمد بن حنبل، وقال لي: استغفر، ربك استغفر ربك. قال ابو عيسى: إنما فعل احمد بن حنبل هذا لانه لم يعد هذا الحديث شيئا، وضعفه لحال إسناده.(مرفوع) سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَذَكَرُوا عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، فَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: فَقُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِيهِ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحْمَدُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ ". قَالَ: فَغَضِبَ عَلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَقَالَ لِي: اسْتَغْفِرْ، رَبَّكَ اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: إِنَّمَا فَعَلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ هَذَا لِأَنَّهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ شَيْئًا، وَضَعَّفَهُ لِحَالِ إِسْنَادِهِ.
میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا کہ ہم لوگ احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ جمعہ کس پر واجب ہے؟ تو امام احمد نے اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ذکر نہیں کی، احمد بن حسن کہتے ہیں: تو میں نے احمد بن حنبل سے کہا: اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، تو امام احمد نے پوچھا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے؟ میں نے کہا: ہاں (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے)، پھر احمد بن حسن نے «حجاج بن نصير حدثنا معارك بن عباد عن عبد الله بن سعيد المقبري عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”جمعہ اس پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ سکے“، احمد بن حسن کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل مجھ پر غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا: اپنے رب سے استغفار کرو، اپنے رب سے استغفار کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو کوئی حیثیت نہیں دی اور اسے کسی شمار میں نہیں رکھا، سند کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12965) (ضعیف جداً) (اس کے تین راوی ضعیف ہیں: عبداللہ بن سعید متروک، اور حجاج بن نصیر اور معارک دونوں ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، المشكاة (1386) // ضعيف الجامع الصغير (2661) //
قال الشيخ زبير على زئي: (502) إسناده ضعيف جدًا حجاج بن نصير ضعيف، كان يقبل التلقين (وقال الھيثمي:وقد ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 84/10) ومعارك بن عباد: ضعيف و عبدالله بن سعيد المقبري: متروك (تق:1139 6743،3356)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا فليح بن سليمان، عن عثمان بن عبد الرحمن التيمي، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. قال: وفي الباب عن سلمة بن الاكوع، وجابر، والزبير بن العوام. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح. وهو الذي اجمع عليه اكثر اهل العلم: ان وقت الجمعة إذا زالت الشمس كوقت الظهر، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق. وراى بعضهم ان صلاة الجمعة إذا صليت قبل الزوال انها تجوز ايضا، وقال احمد: ومن صلاها قبل الزوال فإنه لم ير عليه إعادة.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَجَابِرٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ وَقْتَ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كَوَقْتِ الظُّهْرِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ صَلَاةَ الْجُمُعَةِ إِذَا صُلِّيَتْ قَبْلَ الزَّوَالِ أَنَّهَا تَجُوزُ أَيْضًا، وقَالَ أَحْمَدُ: وَمَنْ صَلَّاهَا قَبْلَ الزَّوَالِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرَ عَلَيْهِ إِعَادَةً.
اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع، جابر اور زبیر بن عوام رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی پر اکثر اہل علم کا اجماع ہے کہ جمعہ کا وقت ظہر کے وقت کی طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض کی رائے ہے کہ جمعہ کی نماز جب زوال سے پہلے پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ احمد کہتے ہیں: جس نے جمعہ کی نماز زوال سے پہلے پڑھ لی تو اس پر دہرانا ضروری نہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو حفص عمرو بن علي الفلاس الصيرفي، حدثنا عثمان بن عمر، ويحيى بن كثير ابو غسان العنبري، قالا: حدثنا معاذ بن العلاء، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يخطب إلى جذع فلما اتخذ النبي صلى الله عليه وسلم المنبر حن الجذع حتى اتاه فالتزمه فسكن ". قال: وفي الباب عن انس، وجابر، وسهل بن سعد، وابي بن كعب، وابن عباس، وام سلمة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن غريب صحيح، ومعاذ بن العلاء هو بصري، وهو اخو ابي عمرو بن العلاء.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ الصَّيْرَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَيَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غسان العنبري، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّى أَتَاهُ فَالْتَزَمَهُ فَسَكَنَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَمُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ هُوَ بَصْرِيٌّ، وَهُوَ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے پر (کھڑے ہو کر) خطبہ دیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر بنا لیا تو وہ تنا رو پڑا یہاں تک کہ آپ اس کے پاس آئے اور اسے چمٹا لیا تو وہ چپ ہو گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، جابر، سہل بن سعد، ابی بن کعب، ابن عباس اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة البصري، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يخطب يوم الجمعة ثم يجلس ثم يقوم فيخطب ". قال: مثل ما تفعلون اليوم. قال: وفي الباب عن ابن عباس، وجابر بن عبد الله، وجابر بن سمرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، وهو الذي رآه اهل العلم ان يفصل بين الخطبتين بجلوس.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ يَجْلِسُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ ". قَالَ: مِثْلَ مَا تَفْعَلُونَ الْيَوْمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي رَآهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَفْصِلَ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ بِجُلُوسٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دیتے پھر (بیچ میں) بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے، راوی کہتے ہیں: جیسے آج کل تم لوگ کرتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وهناد، قالا: حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن جابر بن سمرة، قال: " كنت اصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم فكانت صلاته قصدا وخطبته قصدا ". قال: وفي الباب عن عمار بن ياسر، وابن ابي اوفى. قال ابو عيسى: حديث جابر بن سمرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَتْ صَلَاتُهُ قَصْدًا وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو آپ کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی اور خطبہ بھی درمیانا ہوتا تھا۔ (یعنی زیادہ لمبا نہیں ہوتا تھا)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمار بن یاسر اور ابن ابی اوفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔