(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التسبيح للرجال والتصفيق للنساء " قال: وفي الباب عن علي وسهل بن سعد , وجابر , وابي سعيد , وابن عمر وقال: علي كنت إذا استاذنت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي سبح. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اهل العلم، وبه يقول: احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَابْنِ عُمَرَ وقَالَ: عَلِيٌّ كُنْتُ إِذَا اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي سَبَّحَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں مردوں کے لیے ”سبحان اللہ“ کہہ کر امام کو اس کے سہو پر متنبہ کرنا اور عورتوں کے لیے دستک دینا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، سہل بن سعد، جابر، ابوسعید، ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگتا اور آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ سبحان اللہ کہتے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام نماز میں بھول جائے تو مرد سبحان اللہ کہہ کر اسے متنبہ کریں اور عورتیں زبان سے کچھ کہنے کے بجائے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر مار کر اسے متنبہ کریں، کچھ لوگ ”سبحان اللہ“ کہنے کے بجائے ”اللہ اکبر“ کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " التثاؤب في الصلاة من الشيطان، فإذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع " قال: وفي الباب عن ابي سعيد الخدري وجد عدي بن ثابت، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وقد كره قوم من اهل العلم التثاؤب في الصلاة، قال إبراهيم: إني لارد التثاؤب بالتنحنح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَجَدِّ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ التَّثَاؤُبَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: إِنِّي لَأَرُدُّ التَّثَاؤُبَ بِالتَّنَحْنُحِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے، جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور عدی بن ثابت کے دادا (عبید بن عازب) سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے نماز میں جمائی لینے کو مکروہ کہا ہے، ابراہیم کہتے ہیں کہ میں جمائی کو کھنکھار سے لوٹا دیتا ہوں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا حسين المعلم، عن عبد الله بن بريدة، عن عمران بن حصين، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل وهو قاعد، فقال: " من صلى قائما فهو افضل، ومن صلى قاعدا فله نصف اجر القائم، ومن صلى نائما فله نصف اجر القاعد " قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وانس , والسائب , وابن عمر، قال ابو عيسى: حديث عمران بن حصين حديث حسن صحيح،(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ، وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، وَأَنَسٍ , وَالسَّائِبِ , وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کی نماز کے بارے میں پوچھا جسے وہ بیٹھ کر پڑھ رہا ہو؟ تو آپ نے فرمایا: ”جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ بیٹھ کر پڑھنے والے کے بالمقابل افضل ہے، کیونکہ اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا، اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ملے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمران بن حصین کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، انس، سائب اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 17 (1115)، و18 (1116)، سنن ابی داود/ الصلاة 179 (951)، سنن النسائی/قیام اللیل 21 (1661)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 141 (1231)، (تحفة الأشراف: 10831)، مسند احمد (4/433، 435، 442، 443) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور یہ فرمان نفل نماز کے بارے میں ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
(مرفوع) وقد روي هذا الحديث عن إبراهيم بن طهمان بهذا الإسناد، إلا انه يقول: عن عمران بن حصين، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة المريض، فقال: " صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جنب "(مرفوع) وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، إِلَّا أَنَّهُ يَقُولُ: عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرِيضِ، فَقَالَ: " صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ "
یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے بھی اسی سند سے مروی ہے، مگر اس میں یوں ہے: عمران بن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مریض کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”کھڑے ہو کر پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پہلو کے بل پڑھو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 19 (1117)، سنن ابی داود/ الصلاة 179 (952)، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 10831) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا بذلك هناد، حدثنا وكيع، عن إبراهيم بن طهمان، عن حسين المعلم بهذا الحديث. قال ابو عيسى: ولا نعلم احدا روى عن حسين المعلم نحو رواية إبراهيم بن طهمان، وقد روى ابو اسامة وغير واحد، عن حسين المعلم نحو، رواية عيسى بن يونس، ومعنى هذا الحديث عند بعض اهل العلم في صلاة التطوع، حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن اشعث بن عبد الملك، عن الحسن، قال: إن شاء الرجل صلى صلاة التطوع قائما وجالسا ومضطجعا، واختلف اهل العلم في صلاة المريض، إذا لم يستطع ان يصلي جالسا، فقال بعض اهل العلم: يصلي على جنبه الايمن، وقال بعضهم: يصلي مستلقيا على قفاه ورجلاه إلى القبلة، قال سفيان الثوري في هذا الحديث: من صلى جالسا فله نصف اجر القائم، قال: هذا للصحيح ولمن ليس له عذر يعني في النوافل، فاما من كان له عذر من مرض او غيره، فصلى جالسا فله مثل اجر القائم، وقد روي في بعض هذا الحديث مثل قول سفيان الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، وَقَدْ رَوَى أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ، رِوَايَةِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: إِنْ شَاءَ الرَّجُلُ صَلَّى صَلَاةَ التَّطَوُّعِ قَائِمًا وَجَالِسًا وَمُضْطَجِعًا، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي صَلَاةِ الْمَرِيضِ، إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ جَالِسًا، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي عَلَى جَنْبِهِ الْأَيْمَنِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلِّي مُسْتَلْقِيًا عَلَى قَفَاهُ وَرِجْلَاهُ إِلَى الْقِبْلَةِ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ صَلَّى جَالِسًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، قَالَ: هَذَا لِلصَّحِيحِ وَلِمَنْ لَيْسَ لَهُ عُذْرٌ يَعْنِي فِي النَّوَافِلِ، فَأَمَّا مَنْ كَانَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ أَوْ غَيْرِهِ، فَصَلَّى جَالِسًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ هَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ قَوْلِ سفيان الثوري.
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اہل علم کے نزدیک اس حدیث میں جس نماز کا ذکر ہے اس سے مراد نفلی نماز ہے۔ ۲- ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا، اور ابن عدی نے اشعث بن عبدالملک سے اور اشعث نے حسن سے روایت کی، وہ کہتے ہیں کہ نفل نماز اگر چاہے تو آدمی کھڑے ہو کر پڑھے اور چاہے تو بیٹھ کر پڑھے اور چاہے تو لیٹ کر، ۳- اور مریض کی نماز کے سلسلہ میں جب وہ بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے اہل علم نے اختلاف کیا ہے: بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے داہنے پہلو پر لیٹ کر پڑھے، اور بعض کہتے ہیں اپنی گدی کے بل چت لیٹ کر پڑھے اور اس کے دونوں پاؤں قبلہ کی طرف ہوں، ۴- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جو یہ ہے کہ جو بیٹھ کر نماز پڑھے گا اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے آدھا ثواب ملے گا تو یہ (نوافل) میں تندرست کے لیے ہے اور اس شخص کے لیے ہے جسے کوئی عذر (شرعی) نہ ہو، رہا وہ شخص جس کے پاس بیماری یا کسی اور چیز کا عذر ہو اور وہ بیٹھ کر (فرض) نماز پڑھے تو اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی طرح پورا پورا ثواب ملے گا۔ اس حدیث کے بعض طرق میں سفیان ثوری کے قول کی طرح کا مضمون (مرفوعاً بھی) مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن السائب بن يزيد، عن المطلب بن ابي وداعة السهمي، عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: " ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبحته قاعدا حتى كان قبل وفاته بعام، فإنه كان يصلي في سبحته قاعدا، ويقرا بالسورة ويرتلها حتى تكون اطول من اطول منها ". وفي الباب عن ام سلمة، وانس بن مالك قال ابو عيسى: حديث حفصة حديث حسن صحيح، وقد روي عن نبي صلى الله عليه وسلم، انه كان " يصلي من الليل جالسا، فإذا بقي من قراءته قدر ثلاثين او اربعين آية قام فقرا، ثم ركع ثم صنع في الركعة الثانية مثل ذلك "، وروي عنه انه كان " يصلي قاعدا، فإذا قرا وهو قائم، ركع وسجد وهو قائم، وإذا قرا وهو قاعد، ركع وسجد وهو قاعد ". قال احمد , وإسحاق: والعمل على كلا الحديثين كانهما رايا كلا الحديثين صحيحا معمولا بهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، وَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ وَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ جَالِسًا، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ "، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ، رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ ". قَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: وَالْعَمَلُ عَلَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ كَأَنَّهُمَا رَأَيَا كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحًا مَعْمُولًا بِهِمَا.
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ جب وفات میں ایک سال رہ گیا تو آپ بیٹھ کر نفلی نماز پڑھنے لگے۔ اور سورت پڑھتے تو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ لمبی سے لمبی ہو جاتی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حفصہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ اور انس بن مالک رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہے، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ رات کو بیٹھ کر نماز پڑھتے اور جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہو جاتے اور قرأت کرتے پھر رکوع میں جاتے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ اور جب کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ ہی کر کرتے۔ ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دونوں حدیثیں صحیح اور معمول بہ ہیں ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن ابي النضر، عن ابي سلمة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يصلي جالسا فيقرا وهو جالس، فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين او اربعين آية، قام فقرا وهو قائم ثم ركع وسجد، ثم صنع في الركعة الثانية مثل ذلك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي جَالِسًا فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرُ مَا يَكُونُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً، قَامَ فَقَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو قرأت بھی بیٹھ ہی کر کرتے، پھر جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہو جاتے اور انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 20 (1118، 1119)، والتہجد 16 (1148)، صحیح مسلم/المسافرین 16 (731)، سنن ابی داود/ الصلاة 179 (953، 954)، سنن النسائی/قیام اللیل 18 (1649)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 140 (1227)، (تحفة الأشراف: 17709)، موطا امام مالک/الجماعة 7 (23)، مسند احمد (6/17846، 231) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا خالد وهو: الحذاء، عن عبد الله بن شقيق، عن عائشة، قال: سالتها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تطوعه، قالت: " كان يصلي ليلا طويلا قائما وليلا طويلا قاعدا، فإذا قرا وهو قائم ركع وسجد وهو قائم، وإذا قرا وهو جالس ركع وسجد وهو جالس ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ وَهُوَ: الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ، قَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ جَالِسٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ جَالِسٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ رات تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور دیر تک بیٹھ کر پڑھتے جب آپ کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے کھڑے کرتے اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کر ہی کرتے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري، عن حميد، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " والله إني لاسمع بكاء الصبي وانا في الصلاة فاخفف مخافة ان تفتتن امه " قال: وفي الباب عن ابي قتادة , وابي سعيد , وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ فَأُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَتَنَ أُمُّهُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اللہ کی! جب نماز میں ہوتا ہوں اور اس وقت بچے کا رونا سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہو جائے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوقتادہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو ایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت نماز ہلکی کر دینی چاہیئے، تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اور چلانے سے گھبرا نہ جائیں۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا قبيصة، عن حماد بن سلمة، عن قتادة، عن ابن سيرين، عن صفية ابنة الحارث، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقبل صلاة الحائض إلا بخمار " قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وقوله الحائض يعني المراة البالغ يعني إذا حاضت، قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن، والعمل عليه عند اهل العلم ان المراة إذا ادركت فصلت وشيء من شعرها مكشوف لا تجوز صلاتها، وهو قول الشافعي، قال: لا تجوز صلاة المراة وشيء من جسدها مكشوف. قال الشافعي: وقد قيل إن كان ظهر قدميها مكشوفا فصلاتها جائزة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ صَفِيَّةَ ابْنَةِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، وَقَوْلُهُ الْحَائِضِ يَعْنِي الْمَرْأَةَ الْبَالِغَ يَعْنِي إِذَا حَاضَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَدْرَكَتْ فَصَلَّتْ وَشَيْءٌ مِنْ شَعْرِهَا مَكْشُوفٌ لَا تَجُوزُ صَلَاتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ الشافعي، قَالَ: لَا تَجُوزُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ وَشَيْءٌ مِنْ جَسَدِهَا مَكْشُوفٌ. قَالَ الشافعي: وَقَدْ قِيلَ إِنْ كَانَ ظَهْرُ قَدَمَيْهَا مَكْشُوفًا فَصَلَاتُهَا جَائِزَةٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کی جاتی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب عورت بالغ ہو جائے اور نماز پڑھے اور اس کے بال کا کچھ حصہ کھلا ہو تو اس کی نماز جائز نہیں، یہی شافعی کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عورت اس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ کھلا ہو جائز نہیں، نیز شافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ کہا گیا ہے: اگر اس کے دونوں پاؤں کی پشت کھلی ہو تو نماز درست ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 85 (641)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 132 (655)، (تحفة الأشراف: 17846)، مسند احمد (6/150، 218، 259) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے سر کے بال ستر میں داخل ہیں، اور ستر کو ڈھکے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
۲؎: اس مسئلہ میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے مگر تحقیقی بات یہی ہے کہ عورت کے قدم ستر میں داخل نہیں ہیں، اس لیے کھلے قدم نماز ہو جائے گی جیسے ہتھیلیوں کے کھلے ہونے کی صورت میں عورت کی نماز جائز ہے، عورتوں کے پاؤں ڈھکنے کی حدیث جو ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی ہے، جو موقوفاً و مرفوعاً دونوں حالتوں میں ضعیف ہے۔