الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
حدیث نمبر: 329
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 327 (صحیح)»
133. باب مَا جَاءَ فِي الْقُعُودِ فِي الْمَسْجِدِ وَانْتِظَارِ الصَّلاَةِ مِنَ الْفَضْلِ
133. باب: مسجد میں بیٹھنے اور نماز کے انتظار کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Virtues Of Sitting In The Masjid And Waiting For The Salat
حدیث نمبر: 330
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال احدكم في صلاة ما دام ينتظرها، ولا تزال الملائكة تصلي على احدكم ما دام في المسجد، اللهم اغفر له، اللهم ارحمه ما لم يحدث فقال رجل من حضرموت: وما الحدث يا ابا هريرة، قال: فساء او ضراط ". قال: وفي الباب عن علي , وابي سعيد , وانس , وعبد الله بن مسعود , وسهل بن سعد، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَ يَنْتَظِرُهَا، وَلَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي الْمَسْجِدِ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ مَا لَمْ يُحْدِثْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ: وَمَا الْحَدَثُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: فُسَاءٌ أَوْ ضُرَاطٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَنَسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتا ہے اور فرشتے اس کے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، کہتے ہیں «اللهم اغفر له» ‏‏‏‏ اللہ! اسے بخش دے «اللهم ارحمه» اے اللہ! اس پر رحم فرما جب تک وہ «حدث» نہیں کرتا، تو حضر موت کے ایک شخص نے پوچھا: «حدث» کیا ہے ابوہریرہ؟ تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: آہستہ سے یا زور سے ہوا خارج کرنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابوسعید، انس، عبداللہ بن مسعود اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 34 (176)، والصلاة 161 (445)، و87 (477)، والأذان 30 (647)، و36 والبیوع 49 (2013)، وبدء الخلق 7 (3229)، صحیح مسلم/المساجد 49 (649)، سنن ابی داود/ الصلاة 20 (469)، سنن النسائی/المساجد 40 (734)، سنن ابن ماجہ/المساجد 19 (799)، (تحفة الأشراف: 14723)، مسند احمد (2/266، 289، 312، 319، 394، 415، 421، 486، 502)، موطا امام مالک/الصلاة 27 (51) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں «حدث» کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (799)
134. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ
134. باب: چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat On A Khumrah
حدیث نمبر: 331
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصلي على الخمرة ". قال: وفي الباب عن ام حبيبة وابن عمر، وام سليم، وعائشة، وميمونة، وام كلثوم بنت ابي سلمة بن عبد الاسد، ولم تسمع من النبي صلى الله عليه وسلم وام سلمة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وبه يقول: بعض اهل العلم، وقال احمد , وإسحاق: قد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة على الخمرة. قال ابو عيسى: والخمرة هو: حصير قصير.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ وَابْنِ عُمَرَ، وَأُمِّ سُلَيْمٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَيْمُونَةَ، وَأُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الْأَسَدِ، وَلَمْ تَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ يَقُولُ: بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ عَلَى الْخُمْرَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْخُمْرَةُ هُوَ: حَصِيرٌ قَصِيرٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «خمرہ» چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ام حبیبہ، ابن عمر، ام سلیم، عائشہ، میمونہ، ام کلثوم بنت ابی سلمہ بن عبدالاسد (ام کلثوم بنت ابی سلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے) اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا یہی خیال ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «خمرہ» پر نماز ثابت ہے،
۴- «خمرہ» چھوٹی چٹائی کو کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6115)، وانظر: مسند احمد (1/269، 309، 32، 358) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة
135. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْحَصِيرِ
135. باب: چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat On The Hasir (Mat)
حدیث نمبر: 332
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، عن ابي سعيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى على حصير ". قال: وفي الباب عن انس , والمغيرة بن شعبة، قال ابو عيسى: وحديث ابي سعيد حديث حسن، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، إلا ان قوما من اهل العلم اختاروا الصلاة على الارض استحبابا، وابو سفيان اسمه: طلحة بن نافع.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى عَلَى حَصِيرٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ , وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، إِلَّا أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا الصَّلَاةَ عَلَى الْأَرْضِ اسْتِحْبَابًا، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ: طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی پر نماز پڑھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں انس اور مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، البتہ اہل علم کی ایک جماعت نے زمین پر نماز پڑھنے کو استحباباً پسند کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 52 (519)، والصلاة 48 (661)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 63 (1029)، (تحفة الأشراف: 3982)، مسند احمد (3/10، 52، 59) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں «حصیر» اور اوپر والی میں «خمرہ» کا لفظ آیا ہے، فرق یہ ہے کہ «خمرہ» چھوٹی ہوتی ہے اس پر ایک آدمی ہی نماز پڑھ سکتا ہے اور حصیر بڑی اور لمبی ہوتی ہے جس پر ایک سے زیادہ آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں، دونوں ہی کھجور کے پتوں سے بنی جاتی تھیں، اور اس زمانہ میں ٹاٹ، پلاسٹک، اون اور کاٹن سے مختلف سائز کے مصلے تیار ہوتے ہیں، عمدہ اور نفیس قالین بھی بنائے جاتے ہیں، جو مساجد اور گھروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مذکور بالا حدیث میں ان کے جواز کی دلیل پائی جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1029)
136. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْبُسُطِ
136. باب: بچھونے پر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat On Busut
حدیث نمبر: 333
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن ابي التياح الضبعي، قال: سمعت انس بن مالك، يقول: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخالطنا حتى إن كان يقول لاخ لي صغير: يا ابا عمير ما فعل النغير، قال: ونضح بساط لنا فصلى عليه "قال: وفي الباب عن ابن عباس، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم لم يروا بالصلاة على البساط والطنفسة باسا، وبه يقول: احمد , وإسحاق، واسم ابي التياح: يزيد بن حميد.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَقُولُ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ، قَالَ: وَنُضِحَ بِسَاطٌ لَنَا فَصَلَّى عَلَيْهِ "قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يَرَوْا بِالصَّلَاةِ عَلَى الْبِسَاطِ وَالطُّنْفُسَةِ بَأْسًا، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَاسْمُ أَبِي التَّيَّاحِ: يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے: ابوعمیر! «ما فعل النغير» بلبل کا کیا ہوا؟ ہماری چٹائی ۱؎ پر چھڑکاؤ کیا گیا پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ وہ چادر اور قالین پر نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 81 (6129)، و112 (6203)، صحیح مسلم/المساجد 48 (659)، سنن ابن ماجہ/الأدب 24 (3720)، (تحفة الأشراف: 1692)، مسند احمد (3/212)، ویأتي عند المؤلف في البر والصلة برقم: (1989) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «بساط» یعنی بچھاون سے مراد چٹائی ہے کیونکہ یہ زمین پر بچھائی جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3720 - 3740)
137. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْحِيطَانِ
137. باب: باغات میں نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat In Al-Hitan
حدیث نمبر: 334
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، حدثنا الحسن بن ابي جعفر، عن ابي الزبير، عن ابي الطفيل، عن معاذ بن جبل، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" يستحب الصلاة في الحيطان" قال ابو داود: يعني البساتين. قال ابو عيسى: حديث معاذ حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث الحسن بن ابي جعفر، والحسن بن ابي جعفر قد ضعفه يحيى بن سعيد وغيره، وابو الزبير اسمه: محمد بن مسلم بن تدرس، وابو الطفيل اسمه: عامر بن واثلة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَسْتَحِبُّ الصَّلَاةَ فِي الْحِيطَانِ" قَالَ أَبُو دَاوُدَ: يَعْنِي الْبَسَاتِينَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ قَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ اسْمُهُ: مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ تَدْرُسَ، وَأَبُو الطُّفَيْلِ اسْمُهُ: عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باغات میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «حيطان» سے مراد «بساتین» باغات ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
معاذ کی حدیث غریب ہے،
اسے ہم حسن بن ابی جعفر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور حسن بن ابی جعفر کو یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11323) (ضعیف) (سند میں حسن بن ابی جعفر ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4270) // ضعيف الجامع الصغير (4554) //
138. باب مَا جَاءَ فِي سُتْرَةِ الْمُصَلِّي
138. باب: نمازی کے سترے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Sutrah For The One Performing Salat
حدیث نمبر: 335
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وهناد، قالا: حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن موسى بن طلحة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا وضع احدكم بين يديه مثل مؤخرة الرحل فليصل ولا يبالي من مر وراء ذلك ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وسهل بن ابي حثمة , وابن عمر , وسبرة بن معبد الجهني , وابي جحيفة، وعائشة، قال ابو عيسى: حديث طلحة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقالوا: سترة الإمام سترة لمن خلفه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ , وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَهُ.
طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزرا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- طلحہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 47 (499)، سنن ابی داود/ الصلاة 102 (685)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 36 (940)، (تحفة الأشراف: 5011)، مسند احمد (1/161، 162) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سترہ ایسی چیز ہے جسے نمازی اپنے آگے نصب کرے یا کھڑا کرے، خواہ وہ دیوار ہو یاس تون، نیزہ ہو یا لکڑی وغیرہ تاکہ یہ گزرنے والے اور نمازی کے درمیان آڑ رہے، اس کی سخت تاکید ہے، نیز میدان یا مسجد میں اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے، اور خانہ کعبہ میں سترہ کے آگے سے گزرنے والی حدیثیں ضعیف ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (940)
139. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدِيِ الْمُصَلِّي
139. باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Dislike for Passing In Front Of The Person Performing Salat
حدیث نمبر: 336
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ابي النضر، عن بسر بن سعيد، ان زيد بن خالد الجهني ارسله إلى ابي جهيم يساله: ماذا سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدي المصلي؟ فقال ابو جهيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان ان يقف اربعين خير له من ان يمر بين يديه " قال ابو النضر: لا ادري، قال: اربعين يوما او شهرا او سنة. قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد الخدري , وابي هريرة , وابن عمر , وعبد الله بن عمرو، قال ابو عيسى: وحديث ابي جهيم حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لان يقف احدكم مائة عام خير له من ان يمر بين يدي اخيه وهو يصلي " والعمل عليه عند اهل العلم كرهوا المرور بين يدي المصلي، ولم يروا ان ذلك يقطع صلاة الرجل، واسم ابي النضر: سالم مولى عمر بن عبيد الله المديني.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ: مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي؟ فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ " قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا أَدْرِي، قَالَ: أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَوْ سَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي جُهَيْمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَأَنْ يَقِفَ أَحَدُكُمْ مِائَةَ عَامٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ وَهُوَ يُصَلِّي " وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ ذَلِكَ يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ، وَاسْمُ أَبِي النَّضْرِ: سَالِمٌ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيِّ.
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم رضی الله عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کیا (گناہ) ہے تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چالیس … تک کھڑا رہنا بہتر ہو گا۔ ابونضر سالم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوجہیم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا سو سال کھڑے رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزرے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو،
۴- اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو مکروہ جانا ہے، لیکن ان کی یہ رائے نہیں کہ آدمی کی نماز کو باطل کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 101 (510)، صحیح مسلم/الصلاة 48 (507)، سنن ابی داود/ الصلاة 109 (701)، سنن النسائی/القبلة 8 (757)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 37 (945)، (تحفة الأشراف: 11884)، موطا امام مالک/قصرالصلاة 10 (34)، مسند احمد (4/169)، سنن الدارمی/الصلاة 130 (1456) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (945)
140. باب مَا جَاءَ لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْءٌ
140. باب: کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی۔
Chapter: What Has Been Related About 'The Salat Is Not severed By Anything'
حدیث نمبر: 337
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: كنت رديف الفضل على اتان، فجئنا والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي باصحابه بمنى، قال:فنزلنا عنها فوصلنا الصف فمرت بين ايديهم فلم تقطع صلاتهم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عائشة، والفضل بن عباس، وابن عمر، قال ابو عيسى: وحديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم من التابعين، قالوا: لا يقطع الصلاة شيء، وبه يقول: سفيان الثوري , والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ الْفَضْلِ عَلَى أَتَانٍ، فَجِئْنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ بِمِنًى، قَالَ:فَنَزَلْنَا عَنْهَا فَوَصَلْنَا الصَّفَّ فَمَرَّتْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمْ تَقْطَعْ صَلَاتَهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري , وَالشَّافِعِيُّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر (اپنے بھائی) فضل رضی الله عنہ کے پیچھے سوار تھا، ہم آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے، ہم گدھی سے اترے اور صف میں مل گئے۔ اور وہ (گدھی) ان لوگوں کے سامنے پھرنے لگی، تو اس نے ان کی نماز باطل نہیں کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، فضل بن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز کو کوئی چیز باطل نہیں کرتی، سفیان ثوری اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 18 (76) والصلاة 90 (493)، والأذان 161 (861)، وجزاء الصید 25 (1857)، والمغازي 77 (4411)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (504)، سنن ابی داود/ الصلاة 113 (715)، سنن النسائی/القبلة 7 (753)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 38 (947) (تحفة الأشراف: 5834)، مسند احمد (1/219، 264، 265، 337، 342، 365)، سنن الدارمی/الصلاة 29 (1455) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں ہے کہ کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی، جبکہ اگلی حدیث میں ہے کہ کتا، گدھا اور عورت کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، ان دونوں حدیثوں میں اس طرح جمع کیا گیا ہے،
۱- صحیح بخاری میں وہ گدھی ان لوگوں کے سامنے سے گزری تو اس سے ان کی نماز باطل نہیں ہوئی کا جملہ نہیں ہے اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ گدھی یا وہ دونوں صرف صف کے بعض حصوں سے گزرے تھے جبکہ امام (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کا سترہ صف کے ان حصوں کا سترہ بھی ہو گیا تھا (آپ خصوصا میدان میں بغیر سترہ کے نماز پڑھتے ہی نہیں تھے)
۲- پہلی حدیث یا اس معنی کی دوسری حدیثوں سے اس بات پر استدلال کسی طرح واضح نہیں ہے،
۳- جبکہ اگلی حدیث قولی میں امت کے لیے خاص حکم ہے، اور زیادہ صحیح حدیث ہے، اس لیے مذکورہ تینوں چیزوں کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے (باطل کا معنی اگلی حدیث کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (947)
141. باب مَا جَاءَ أَنَّهُ لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ إِلاَّ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ
141. باب: نماز کو کتے، گدھے اور عورت نماز کے سوا کوئی اور چیز باطل نہیں کرتی۔
Chapter: What Has Been Related About 'Salat Is Not Severed Except By A Dog, A Donkey, And A Woman'
حدیث نمبر: 338
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يونس بن عبيد، ومنصور بن زاذان، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، قال: سمعت ابا ذر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى الرجل وليس بين يديه كآخرة الرحل او كواسطة الرحل، قطع صلاته الكلب الاسود والمراة والحمار " فقلت لابي ذر: ما بال الاسود من الاحمر من الابيض؟ فقال: يا ابن اخي سالتني كما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الكلب الاسود شيطان " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , والحكم بن عمرو الغفاري , وابي هريرة , وانس، قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إليه، قالوا: يقطع الصلاة الحمار والمراة والكلب الاسود، قال احمد: الذي لا اشك فيه ان الكلب الاسود يقطع الصلاة، وفي نفسي من الحمار والمراة شيء، قال إسحاق: لا يقطعها شيء إلا الكلب الاسود.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ وَلَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ أَوْ كَوَاسِطَةِ الرَّحْلِ، قَطَعَ صَلَاتَهُ الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ " فَقُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ مِنَ الْأَبْيَضِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتَنِي كَمَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَيْهِ، قَالُوا: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، قَالَ أَحْمَدُ: الَّذِي لَا أَشُكُّ فِيهِ أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ، وَفِي نَفْسِي مِنَ الْحِمَارِ وَالْمَرْأَةِ شَيْءٌ، قَالَ إِسْحَاق: لَا يَقْطَعُهَا شَيْءٌ إِلَّا الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یا کہا: کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیز نہ ہو تو: کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی نماز باطل ہو جائے گی ۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: کالا کتا شیطان ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، حکم بن عمرو بن غفاری، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گدھا، عورت اور کالا کتا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا نماز باطل کر دیتا ہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز نماز باطل نہیں کرتی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 50 (510)، سنن ابی داود/ الصلاة 110 (702)، سنن النسائی/القبلة 7 (751)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 38 (952)، (تحفة الأشراف: 11939)، مسند احمد (5/149، 551، 160، 161)، سنن الدارمی/الصلاة 128 (1454) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کے ثواب اور اس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے، سرے سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں، بعض علماء بالکل باطل ہو جانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے مصلے کو سترہ کی طرف نماز پڑھنے کی از حد خیال کرنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (952)

Previous    15    16    17    18    19    20    21    22    23    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.