سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
89. بَابُ مَا جَاءَ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ
89. باب: جنبی سے مصافحہ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Shaking Hands With The Junub Person
حدیث نمبر: 121
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا حميد الطويل، عن بكر بن عبد الله المزني، عن ابي رافع، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم لقيه وهو جنب، قال: فانبجست اي فانخنست فاغتسلت، ثم جئت، فقال: " اين كنت او اين ذهبت؟ " , قلت: إني كنت جنبا قال: " إن المسلم لا ينجس ". قال: وفي الباب عن حذيفة، وابن عباس. قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حسن صحيح، ومعنى قوله فانخنست يعني: تنحيت عنه، وقد رخص غير واحد من اهل العلم في مصافحة الجنب ولم يروا بعرق الجنب والحائض باسا.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ، قَالَ: فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ: " أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ؟ " , قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا قَالَ: " إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي: تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ یا: کہاں چلے گئے تھے (راوی کو شک ہے)۔ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حذیفہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور ان کے قول «فانخنست» کے معنی «تنحیت عنہ» کے ہیں یعنی میں نظر بچا کر نکل گیا،
۴- بہت سے اہل علم نے جنبی سے مصافحہ کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الغسل 23 (283)، صحیح مسلم/الحیض 29 (371)، سنن ابی داود/ الطہارة 92 (230)، سنن النسائی/الطہارة 172 (270)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 80 (534)، (تحفة الأشراف: 14648)، مسند احمد (2/235، 282، 471) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور جب پسینے میں کوئی حرج نہیں تو بغیر پسینے کے بدن کی جلد (سے پاک آدمی کے ہاتھ اور جسم کے ملنے) میں بدرجہ اولیٰ کوئی حرج نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (534)
90. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تَرَى فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ
90. باب: عورت کے خواب میں وہی چیز دیکھنے کا بیان جو مرد دیکھتا ہے۔
Chapter: What Has Been Related About A Woman Who Sees In A Dream, Similar To What A Man Sees
حدیث نمبر: 122
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام سلمة، قالت: جاءت ام سليم بنت ملحان إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله إن الله لا يستحيي من الحق، فهل على المراة تعني غسلا إذا هي رات في المنام مثل ما يرى الرجل؟ قال: " نعم إذا هي رات الماء فلتغتسل " , قالت ام سلمة: قلت لها: فضحت النساء يا ام سليم. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول عامة الفقهاء ان المراة إذا رات في المنام مثل ما يرى الرجل فانزلت ان عليها الغسل، وبه يقول سفيان الثوري , والشافعي، قال: وفي الباب عن ام سليم، وخولة، وعائشة، وانس.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِنْتُ مِلْحَانَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَعْنِي غُسْلًا إِذَا هِيَ رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ قَالَ: " نَعَمْ إِذَا هِيَ رَأَتِ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ " , قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: قُلْتُ لَهَا: فَضَحْتِ النِّسَاءَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ فَأَنْزَلَتْ أَنَّ عَلَيْهَا الْغُسْلَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَالشَّافِعِيُّ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، وَخَوْلَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ.
ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم بنت ملحان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! اللہ حق سے نہیں شرماتا ۱؎ کیا عورت پر بھی غسل ہے، جب وہ خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے ۲؎ آپ نے فرمایا: ہاں، جب وہ منی دیکھے تو غسل کرے ۳؎ ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے ام سلیم سے کہا: ام سلیم! آپ نے تو عورتوں کو رسوا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بیشتر فقہاء کا قول ہے کہ عورت جب خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے پھر اسے انزال ہو جائے (یعنی منی نکل جائے) تو اس پر غسل واجب ہے، یہی سفیان ثوری اور شافعی بھی کہتے ہیں،
۳- اس باب میں ام سلیم، خولہ، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 50 (130)، والغسل 22 (282)، والأنبیاء 1 (3328)، والأدب 68 (6091)، و79 (6121)، صحیح مسلم/الحیض 7 (313)، سنن النسائی/الطہارة 131 (197)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 107 (610)، (تحفة الأشراف: 18264)، مسند احمد (6/292، 302، 306) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شرم و حیاء کی وجہ سے حق کے بیان کرنے سے نہیں رکتا، تو میں بھی ان مسائل کے پوچھنے سے باز نہیں رہ سکتی جن کی مجھے احتیاج اور ضرورت ہے۔
۲؎: جو مرد دیکھتا ہے سے مراد احتلام ہے۔
۳؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منی کے نکلنے سے عورت پر بھی غسل واجب ہو جاتا ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (600)
91. بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْتَدْفِئُ بِالْمَرْأَةِ بَعْدَ الْغُسْلِ
91. باب: غسل کرنے کے بعد مرد عورت سے چمٹ کر گرمی حاصل کرے اس کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related] About The Man Who Seeks The Warmth Of A Woman After Performing Ghusl
حدیث نمبر: 123
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن حريث، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت: " ربما اغتسل النبي صلى الله عليه وسلم من الجنابة، ثم جاء فاستدفا بي فضممته إلي ولم اغتسل ". قال ابو عيسى: هذا ليس بإسناده باس، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي والتابعين: ان الرجل إذا اغتسل فلا باس بان يستدفئ بامراته وينام معها قبل ان تغتسل المراة، وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حُرَيْثٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " رُبَّمَا اغْتَسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَدْفَأَ بِي فَضَمَمْتُهُ إِلَيَّ وَلَمْ أَغْتَسِلْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ وَالتَّابِعِينَ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اغْتَسَلَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَسْتَدْفِئَ بِامْرَأَتِهِ وَيَنَامَ مَعَهَا قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ الْمَرْأَةُ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنابت کا غسل فرماتے پھر آ کر مجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی، اور میں بغیر غسل کے ہوتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ۱؎،
۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ مرد جب غسل کر لے تو اپنی بیوی سے چمٹ کر گرمی حاصل کرنے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں، وہ عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ (چمٹ کر) سو سکتا ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 97 (580)، (تحفة الأشراف: 17620) (ضعیف) (سند میں حریث ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے، اس کے راوی «حریث بن ابی المطر» ضعیف ہیں (جیسا کہ تخریج میں گزرا) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ابوداؤد اور ابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے، جو عبدالرحمٰن افریقی کے طریق سے ہے، عبدالرحمٰن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں، لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دور ہو جاتا ہے، نیز صحیحین میں عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے، وہ یہ ہے: ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازار باندھنے کا حکم دیتے، پھر ہم سے چمٹتے تھے واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (580)، //، المشكاة (459)، ضعيف سنن ابن ماجة (128) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 580
حريث بن أبي مطر: ضعیف كما في التقريب (1182)
92. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّيَمُّمِ لِلْجُنُبِ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ
92. باب: پانی نہ پانے پر جنبی تیمم کر لے۔
Chapter: [What has Been Related] About Tayammum For The Junub Person When He Does Not Find Water
حدیث نمبر: 124
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , ومحمود بن غيلان , قالا: حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن عمرو بن بجدان، عن ابي ذر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الصعيد الطيب طهور المسلم، وإن لم يجد الماء عشر سنين، فإذا وجد الماء فليمسه بشرته فإن ذلك خير ". وقال محمود في حديثه: إن الصعيد الطيب وضوء المسلم. قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وعبد الله بن عمرو، وعمران بن حصين. قال ابو عيسى: وهكذا روى غير واحد، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن عمرو بن بجدان، عن ابي ذر، وقد روى هذا الحديث ايوب، عن ابي قلابة، عن رجل من بني عامر، عن ابي ذر ولم يسمه، قال: وهذا حسن صحيح، وهو قول عامة الفقهاء، ان الجنب والحائض إذا لم يجدا الماء تيمما وصليا، ويروى عن ابن مسعود، انه كان لا يرى التيمم للجنب وإن لم يجد الماء، ويروى عنه انه رجع عن قوله، فقال: يتيمم إذا لم يجد الماء , وبه يقول سفيان الثوري، ومالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ ". وقَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَلَمْ يُسَمِّهِ، قَالَ: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، أَنَّ الْجُنُبَ وَالْحَائِضَ إِذَا لَمْ يَجِدَا الْمَاءَ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا، وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى التَّيَمُّمَ لِلْجُنُبِ وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ، وَيُرْوَى عَنْهُ أَنَّهُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ، فَقَالَ: يَتَيَمَّمُ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ , وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے۔ محمود (محمود بن غیلان) نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر فقہاء کا قول یہی ہے کہ جنبی یا حائضہ جب پانی نہ پائیں تو تیمم کر کے نماز پڑھیں،
۴- ابن مسعود رضی الله عنہ جنبی کے لیے تیمم درست نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ پانی نہ پائے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ جب پانی نہیں پائے گا، تیمم کرے گا، یہی سفیان ثوری، مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطہارة 203 (323)، (تحفة الأشراف: 1971)، مسند احمد (5/155، 180) (صحیح) (سند میں عمروبن بجدان، مجہول ہیں، لیکن بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبی داود 357، والإرواء 153)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (530)، صحيح أبي داود (357)، الإرواء (153)
93. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ
93. باب: مستحاضہ کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related] About Al-Mustahadah
حدیث نمبر: 125
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، وعبدة , وابو معاوية , عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاءت فاطمة بنت ابي حبيش إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله إني امراة استحاض فلا اطهر، افادع الصلاة؟ قال: " لا إنما ذلك عرق وليست بالحيضة، فإذا اقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا ادبرت فاغسلي عنك الدم وصلي ". قال ابو معاوية في حديثه: وقال: " توضئي لكل صلاة حتى يجيء ذلك الوقت " , قال: وفي الباب عن ام سلمة. قال ابو عيسى: حديث عائشة جاءت فاطمة حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول سفيان الثوري، ومالك، وابن المبارك، والشافعي: ان المستحاضة إذا جاوزت ايام اقرائها اغتسلت وتوضات لكل صلاة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَعَبْدَةُ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: " لَا إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي ". قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ فِي حَدِيثِهِ: وَقَالَ: " تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّى يَجِيءَ ذَلِكَ الْوَقْتُ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ جَاءَتْ فَاطِمَةُ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ: أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ إِذَا جَاوَزَتْ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا اغْتَسَلَتْ وَتَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ مجھے استحاضہ کا خون ۱؎ آتا ہے تو میں پاک ہی نہیں رہ پاتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو۔ اور جب وہ چلا جائے (یعنی حیض کے دن پورے ہو جائیں) تو خون دھو کر (غسل کر کے) نماز پڑھو، ابومعاویہ کی روایت میں ہے ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز کے لیے وضو کرو یہاں تک کہ وہ وقت (حیض کا وقت) آ جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے، اور یہی سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ عورت کے حیض کے دن گزر جائیں تو وہ غسل کرے اور ہر نماز کے لیے (تازہ) وضو کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 63 (228)، والحیض 8 (306)، و19 (320)، و24 (325)، و28 (331)، صحیح مسلم/الحیض 14 (333)، سنن ابی داود/ الطہارة 109 (282)، سنن النسائی/الطہارة 135 (213)، و138 (219، 220)، والحیض 4 (359)، و6 (365، 367)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 115 (626)، (تحفة الأشراف: 17070، 17196، 17259)، مسند احمد (6/83، 141، 187)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (801) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عورت کی شرمگاہ سے تین طرح کا خون خارج ہوتا ہے: ایک حیض کا خون جو عورت کے بالغ ہونے سے بڑھاپے تک ایام حمل کے علاوہ ہر ماہ اس کے رحم سے چند مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے اور اس کا رنگ کالا ہوتا ہے، دوسرا نفاس کا خون ہے جو بچہ کی پیدائش کے بعد چالیس دن یا اس سے کم و بیش زچگی میں آتا ہے، تیسرا استحاضہ کا خون ہے، یہ ایک عاذل نامی رگ کے پھٹنے سے جاری ہوتا ہے اور بیماری کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اس کے جاری ہونے کا کوئی مقرر وقت نہیں ہے کسی بھی وقت جاری ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (621)
94. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ تَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ
94. باب: مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے وضو کرے۔
Chapter: What Has Been Related About The Mustahadah Performing Wudu For Every Prayer
حدیث نمبر: 126
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا شريك، عن ابي اليقظان، عن عدي بن ثابت، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال في المستحاضة: " تدع الصلاة ايام اقرائها التي كانت تحيض فيها ثم تغتسل، وتتوضا عند كل صلاة وتصوم وتصلي ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: " تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيهَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَتَصُومُ وَتُصَلِّي ".
عدی کے دادا عبید بن عازب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا: وہ ان دنوں میں جن میں اسے حیض آتا ہو نماز چھوڑے رہے، پھر وہ غسل کرے، اور (استحاضہ کا خون آنے پر) ہر نماز کے لیے وضو کرے، روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 113 (397)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 115 (625)، (تحفة الأشراف: 3542)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (820) (صحیح) (اس کی سند میں ابو الیقظان ضعیف، اور شریک حافظہ کے کمزور ہیں، مگر دوسری سندوں اور حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (625)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 257، جه 625
أبو اليقظان ضعیف مدلس (د297) وللحديث شواهد ضعیفة .
حدیث نمبر: 127
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك نحوه بمعناه. قال ابو عيسى: هذا حديث قد تفرد به شريك، عن ابي اليقظان، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقلت: عدي بن ثابت، عن ابيه، عن جده جد عدي ما اسمه؟ فلم يعرف محمد اسمه، وذكرت لمحمد قول يحيى بن معين ان اسمه: دينار، فلم يعبا به، وقال احمد , وإسحاق في المستحاضة: إن اغتسلت لكل صلاة هو احوط لها، وإن توضات لكل صلاة اجزاها، وإن جمعت بين الصلاتين بغسل واحد اجزاها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شُرَيْكٌ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقُلْتُ: عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ جَدُّ عَدِيٍّ مَا اسْمُهُ؟ فَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ اسْمَهُ، وَذَكَرْتُ لِمُحَمَّدٍ قَوْلَ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّ اسْمَهُ: دِينَارٌ، فَلَمْ يَعْبَأْ بِهِ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق في المستحاضة: إِنِ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ هُوَ أَحْوَطُ لَهَا، وَإِنْ تَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ أَجْزَأَهَا، وَإِنْ جَمَعَتْ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ أَجْزَأَهَا.
اس سند سے بھی شریک نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث میں شریک ابوالیقظان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں،
۲- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ ہر نماز کے وقت غسل کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ احتیاط کی بات ہے اور اگر وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اگر وہ ایک غسل سے دو نمازیں جمع کرے تو بھی کافی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 257، جه 625
أبو اليقظان ضعیف مدلس (د297) وللحديث شواهد ضعیفة .
95. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ
95. باب: مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کر سکتی ہے۔
Chapter: [What Has Been Related] About AI-Mustahadah That She Can Combine Two Prayers With One Ghusl
حدیث نمبر: 128
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا زهير بن محمد، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، عن عمه عمران بن طلحة، عن امه حمنة بنت جحش، قالت: كنت استحاض حيضة كثيرة شديدة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم استفتيه واخبره، فوجدته في بيت اختي زينب بنت جحش، فقلت: يا رسول الله إني استحاض حيضة كثيرة شديدة فما تامرني فيها قد منعتني الصيام والصلاة , قال: " انعت لك الكرسف فإنه يذهب الدم " , قالت: هو اكثر من ذلك، قال: " فتلجمي " , قالت: هو اكثر من ذلك، قال: " فاتخذي ثوبا " , قالت: هو اكثر من ذلك إنما اثج ثجا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " سآمرك بامرين ايهما صنعت اجزا عنك، فإن قويت عليهما فانت اعلم " , فقال: " إنما هي ركضة من الشيطان، فتحيضي ستة ايام او سبعة ايام في علم الله، ثم اغتسلي، فإذا رايت انك قد طهرت واستنقات، فصلي اربعا وعشرين ليلة او ثلاثا وعشرين ليلة وايامها وصومي وصلي، فإن ذلك يجزئك، وكذلك فافعلي كما تحيض النساء وكما يطهرن لميقات حيضهن وطهرهن، فإن قويت على ان تؤخري الظهر وتعجلي العصر، ثم تغتسلين حين تطهرين وتصلين الظهر والعصر جميعا، ثم تؤخرين المغرب وتعجلين العشاء، ثم تغتسلين وتجمعين بين الصلاتين، فافعلي وتغتسلين مع الصبح وتصلين، وكذلك فافعلي وصومي إن قويت على ذلك " , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وهو اعجب الامرين إلي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، ورواه عبيد الله بن عمرو الرقي , وابن جريج , وشريك، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، عن عمه عمران، عن امه حمنة، إلا ان ابن جريج يقول: عمر بن طلحة والصحيح: عمران بن طلحة، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: هو حديث حسن صحيح، وهكذا قال احمد بن حنبل: هو حديث حسن صحيح، وقال احمد , وإسحاق في المستحاضة: إذا كانت تعرف حيضها بإقبال الدم وإدباره، وإقباله ان يكون اسود، وإدباره ان يتغير إلى الصفرة، فالحكم لها على حديث فاطمة بنت ابي حبيش، وإن كانت المستحاضة لها ايام معروفة قبل ان تستحاض، فإنها تدع الصلاة ايام اقرائها، ثم تغتسل وتتوضا لكل صلاة وتصلي، وإذا استمر بها الدم ولم يكن لها ايام معروفة ولم تعرف الحيض بإقبال الدم وإدباره، فالحكم لها على حديث حمنة بنت جحش , وكذلك قال ابو عبيد، وقال الشافعي: المستحاضة إذا استمر بها الدم في اول ما رات فدامت على ذلك، فإنها تدع الصلاة ما بينها وبين خمسة عشر يوما، فإذا طهرت في خمسة عشر يوما او قبل ذلك، فإنها ايام حيض، فإذا رات الدم اكثر من خمسة عشر يوما، فإنها تقضي صلاة اربعة عشر يوما، ثم تدع الصلاة بعد ذلك، اقل ما تحيض النساء وهو يوم وليلة. قال ابو عيسى: واختلف اهل العلم في اقل الحيض واكثره، فقال بعض اهل العلم: اقل الحيض ثلاثة واكثره عشرة، وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة، وبه ياخذ ابن المبارك، وروي عنه خلاف هذا , وقال بعض اهل العلم منهم عطاء بن ابي رباح: اقل الحيض يوم وليلة، واكثره خمسة عشر يوما، وهو قول مالك، والاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وابي عبيد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلَاةَ , قَالَ: " أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَتَلَجَّمِي " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَاتَّخِذِي ثَوْبًا " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ أَيَّهُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ " , فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ، فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، فَافْعَلِي وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَى ذَلِكَ " , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَهُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ , وَابْنُ جُرَيْجٍ , وَشَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ، إِلَّا أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ طَلْحَةَ وَالصَّحِيحُ: عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَهَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، وَإِقْبَالُهُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ، وَإِدْبَارُهُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَى الصُّفْرَةِ، فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، وَإِنْ كَانَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَتُصَلِّي، وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفْ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ , وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِذَا طَهُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ حَيْضٍ، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِنَّهَا تَقْضِي صَلَاةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ثُمَّ تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَهُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِهِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلَاثَةٌ وَأَكْثَرُهُ عَشَرَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَرُوِيَ عَنْهُ خِلَافُ هَذَا , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَأَكْثَرُهُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَأَبِي عُبَيْدٍ.
حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی تھی، میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اور آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی ہوں، اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس نے تو مجھے صوم و صلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہا ہوں اس سے خون بند ہو جائے گا، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا) آپ نے فرمایا: تو لنگوٹ باندھ لیا کرو، کہا: خون اس سے بھی زیادہ آ رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو، کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں تجھے دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے کافی ہو گا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو، آپ نے فرمایا: یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کر لے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہو گئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں، اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے پاک صاف ہو جا اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اگر تم قادر ہو تو اس طرح کرو اور روزے رکھو، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اور جانے کو جانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تو اس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے (حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کرے گی اور ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ اور جب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کا حکم حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۴؎ اسی طرح ابو عبید نے کہا ہے۔ شافعی کہتے ہیں: جب مستحاضہ کو پہلی بار جب اس نے خون دیکھا تبھی سے برابر خون جاری رہے تو وہ خون شروع ہونے سے لے کر پندرہ دن تک نماز چھوڑے رہے گی، پھر اگر وہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہو جاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے، تو وہ چودہ دن کی نماز قضاء کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی نماز چھوڑ دے گی،
۴- حیض کی کم سے کم مدت اور سب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 110 (287)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 115 (622)، (تحفة الأشراف: 15821)، مسند احمد (6/439)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (812) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: ان دونوں باتوں سے مراد: یا تو ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا یا ہر نماز کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بار نہانا۔
۲؎: یعنی روزانہ تین بار نہانا ایک بار ظہر اور عصر کے لیے، دوسری مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرے فجر کے لیے۔
۳؎: یعنی حیض کے اختتام پر مستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے گی۔
۴؎: یعنی ہر روز تین مرتبہ غسل کرے گی، پہلے غسل سے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھے گی اور دوسرے غسل سے مغرب اور عشاء کی اور تیسرے غسل سے فجر کی۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (627)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 287، جه 622، 627
96. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ
96. باب: مستحاضہ عورت ہر نماز کے وقت غسل کرے۔
Chapter: What Has Been Related About Al-Mustahadah That She Is To Perform Ghusl For Every Salat
حدیث نمبر: 129
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، انها قالت: استفتت ام حبيبة ابنة جحش رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إني استحاض فلا اطهر، افادع الصلاة؟ فقال: " لا إنما ذلك عرق، فاغتسلي ثم صلي " , فكانت تغتسل لكل صلاة. قال قتيبة: قال الليث: لم يذكر ابن شهاب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر ام حبيبة ان تغتسل عند كل صلاة، ولكنه شيء فعلته هي. قال ابو عيسى: ويروى هذا الحديث عن الزهري، عن عمرة، عن عائشة، قالت: استفتت ام حبيبة بنت جحش رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد قال بعض اهل العلم: المستحاضة تغتسل عند كل صلاة , وروى الاوزاعي، عن الزهري، عن عروة , وعمرة، عن عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ ابْنَةُ جَحْشٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ: " لَا إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، فَاغْتَسِلِي ثُمَّ صَلِّي " , فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ. قَالَ قُتَيْبَةُ: قَالَ اللَّيْثُ: لَمْ يَذْكُرْ ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أُمَّ حَبِيبَةَ أَنْ تَغْتَسِلَ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، وَلَكِنَّهُ شَيْءٌ فَعَلَتْهُ هِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْمُسْتَحَاضَةُ تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ , وَرَوَى الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ , وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں۔ تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو محض ایک رگ ہے، لہٰذا تم غسل کرو پھر نماز پڑھو، تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابن شہاب زہری نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ام حبیبہ رضی الله عنہا کو ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا، بلکہ یہ ایسا عمل تھا جسے وہ اپنے طور پر کیا کرتی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- نیز یہ حدیث زہری سے «عن عمرة عن عائشہ» کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا،
۲- بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت غسل کرے گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 14 (334)، سنن ابی داود/ الطہارة 108 (279)، و111 (288)، سنن النسائی/الطہارة 134 (207)، والحیض 3 (353)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 116 (626)، (تحفة الأشراف: 16583)، مسند احمد (6/83، 141، 187)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (805) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کسی بھی صحیح روایت میں نہیں آتا کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ام حبیبہ رضی الله عنہا کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا تھا، جو روایتیں اس بارے میں ہیں سب ضعیف ہیں، صحیح بات یہی ہے کہ وہ بطور خود (استحبابی طور سے) ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (626)
97. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْحَائِضِ أَنَّهَا لاَ تَقْضِي الصَّلاَةَ
97. باب: حائضہ کے نماز قضاء نہ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Menstruating Woman: That She Does Not Make Up The Missed Salat
حدیث نمبر: 130
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن معاذة، ان امراة سالت عائشة، قالت: اتقضي إحدانا صلاتها ايام محيضها؟ فقالت: " احرورية انت، قد كانت إحدانا تحيض فلا تؤمر بقضاء ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي عن عائشة من غير وجه، ان الحائض لا تقضي الصلاة، وهو قول عامة الفقهاء، لا اختلاف بينهم في ان الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَتَقْضِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا أَيَّامَ مَحِيضِهَا؟ فَقَالَتْ: " أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ فَلَا تُؤْمَرُ بِقَضَاءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، أَنَّ الْحَائِضَ لَا تَقْضِي الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ فِي أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ.
معاذہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: کیا ہم حیض کے دنوں والی نماز کی قضاء کیا کریں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ ہے؟ ہم میں سے ایک کو حیض آتا تھا تو اسے قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور عائشہ سے اور کئی سندوں سے بھی مروی ہے کہ حائضہ نماز قضاء نہیں کرے گی،
۳- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ حائضہ روزہ قضاء کرے گی اور نماز قضاء نہیں کرے گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحیض 20 (321)، صحیح مسلم/الحیض 15 (335)، سنن ابی داود/ الطہارة 105 (262)، سنن النسائی/الحیض 17 (382)، والصوم 36 (2320)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 119 (631)، (تحفة الأشراف: 17964)، مسند احمد (6/32، 97، 120، 185، 231)، سنن الدارمی/الطہارة 102 (1020) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حروریہ منسوب ہے حروراء کی طرف جو کوفہ سے دو میل کی دوری پر ایک بستی کا نام تھا، خوارج کو اسی گاؤں کی نسبت سے حروری کہا جاتا ہے، اس لیے کہ ان کا ظہور اسی بستی سے ہوا تھا، ان میں کا ایک گروہ حیض کے دنوں کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کو ضروری قرار دیتا ہے اسی لیے عائشہ رضی الله عنہا نے اس عورت کو حروریہ کہا، مطلب یہ تھا کہ کیا تو خارجی عورت تو نہیں ہے جو ایسا کہہ رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (631)

Previous    9    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.