(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابي بكر، عن ابي إسحاق، عن مجاهد، عن ابي هريرة، قال:" استاذن جبريل عليه السلام , على النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: ادخل، فقال: كيف ادخل وفي بيتك ستر فيه تصاوير , فإما ان تقطع رءوسها، او تجعل بساطا يوطا، فإنا معشر الملائكة لا ندخل بيتا فيه تصاوير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" اسْتَأْذَنَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: ادْخُلْ، فَقَالَ: كَيْفَ أَدْخُلُ وَفِي بَيْتِكَ سِتْرٌ فِيهِ تَصَاوِيرُ , فَإِمَّا أَنْ تُقْطَعَ رُءُوسُهَا، أَوْ تُجْعَلَ بِسَاطًا يُوطَأُ، فَإِنَّا مَعْشَرَ الْمَلَائِكَةِ لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَصَاوِيرُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا: اندر آئیے، وہ بولے: میں کیسے اندر آؤں؟ آپ کے گھر میں تو ایسا پردہ لٹکا ہے جس میں تصویریں ہیں، لہٰذا یا تو آپ ان کے سر کاٹ دیجئیے، یا پھر ان کا بچھونا بنا دیجئیے تاکہ وہ روندا جائے۔ کیونکہ ہم فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہو۔
وضاحت: ۱؎: ایسا آپ احتیاط کے طور پر کرتے تھے، کیونکہ اس بات کا امکان تھا کہ کوئی ایسی چیز ہو جو آپ کے لیے باعث تکلیف ہو، بہرحال اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ آپ کے اہل خانہ لحاف استعمال کرتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن معمر، قال: حدثنا حبان، قال: حدثنا همام، قال: حدثنا قتادة، قال: حدثنا انس:" ان نعل رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لها قبالان". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ:" أَنَّ نَعْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَهَا قِبَالَانِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں کے دو تسمے تھے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک جوتا پہن کر نہ چلے یہاں تک کہ اسے ٹھیک کرا لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایسا کرنے سے آپ نے اس لیے منع کیا تاکہ ایک پاؤں اونچا اور دوسرا نیچا نہ رہے کیونکہ ایسی صورت میں پھسلنے کا خطرہ ہے، ساتھ ہی دوسروں کی نگاہ میں برا بھی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: اخبرنا ابو معاوية، قال: حدثنا الاعمش، عن ابي رزين، قال: رايت ابا هريرة يضرب بيده على جبهته , يقول: يا اهل العراق , تزعمون اني اكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا انقطع شسع نعل احدكم فلا يمش في الاخرى حتى يصلحها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى جَبْهَتِهِ , يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ , تَزْعُمُونَ أَنِّي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ نَعْلِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَمْشِ فِي الْأُخْرَى حَتَّى يُصْلِحَهَا".
ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: عراق والو! تم کہتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک جوتا پہن کر نہ چلے یہاں تک کہ اسے ٹھیک کرا لے“۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھال پر لیٹے تو آپ کو پسینہ آ گیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا اٹھیں اور پسینہ اکٹھا کر کے ایک شیشی میں بھرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا: ”ام سلیم! یہ تم کیا کر رہی ہو؟“ وہ بولیں: میں آپ کے پسینے کو عطر میں ملاؤں گی، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن قدامة، عن جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن سمرة بن سهم رجل من قومه، قال: نزلت على ابي هاشم بن عتبة وهو طعين، فاتاه معاوية يعوده , فبكى ابو هاشم، فقال معاوية: ما يبكيك اوجع يشئزك , ام على الدنيا فقد ذهب صفوها؟ , قال: كل لا , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا، وددت اني كنت تبعته، قال:" إنه لعلك تدرك اموالا تقسم بين اقوام وإنما يكفيك من ذلك خادم ومركب في سبيل الله"، فادركت فجمعت. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: نَزَلْتُ عَلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ طَعِينٌ، فَأَتَاهُ مُعَاوِيَةُ يَعُودُهُ , فَبَكَى أَبُو هَاشِمٍ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ , أَمْ عَلَى الدُّنْيَا فَقَدْ ذَهَبَ صَفْوُهَا؟ , قَالَ: كُلٌّ لَا , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَبِعْتُهُ، قَالَ:" إِنَّهُ لَعَلَّكَ تُدْرِكُ أَمْوَالًا تُقْسَمُ بَيْنَ أَقْوَامٍ وَإِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ ذَلِكَ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، فَأَدْرَكْتُ فَجَمَعْتُ.
ابووائل سے روایت ہے کہ سمرہ بن سہم جو ابووائل کے قبیلے کے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے یہاں ٹھہرا، وہ طاعون میں مبتلا تھے، چنانچہ ان کی عیادت کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ آئے، تو ابوہاشم رونے لگے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا کسی تکلیف کی وجہ سے رو رہے ہو یا دنیا کے لیے؟ دنیا کی راحت تو اب گئی، انہوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، دراصل مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عہد یاد آ گیا جو آپ نے مجھ سے لیا تھا، میں چاہتا تھا کہ میں اس کی پیروی کروں، آپ نے فرمایا: ”تیرے سامنے ایسے اموال آئیں گے جو لوگوں کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے، لیکن تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک خادم اور اللہ کی راہ کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا پھر اسے جمع کیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 19 (2327)، سنن ابن ماجہ/الزہد 1 (4103)، (تحفة الأشراف: 12178)، مسند احمد (3/443، 444، 5/290) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (2327) ابن ماجه (4103) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 363
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا عمرو بن عاصم، قال: حدثنا همام , وجرير، قالا: حدثنا قتادة، عن انس، قال:" كان نعل سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم من فضة، وقبيعة سيفه فضة , وما بين ذلك حلق فضة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , وَجَرِيرٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ نَعْلُ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فِضَّةٍ، وَقَبِيعَةُ سَيْفِهِ فِضَّةٌ , وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ حِلَقُ فِضَّةٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے نیام کا نچلا حصہ چاندی کا تھا، آپ کی تلوار کا دستہ بھی چاندی کا تھا، اور ان کے درمیان میں چاندی کے حلقے تھے۔