(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن يعقوب، قال: حدثنا ابو زيد سعيد بن الربيع، قال: حدثنا علي بن المبارك، قال: سمعت كريمة، قالت: سمعت عائشة , سالتها امراة عن الخضاب بالحناء؟ قالت: لا باس به، ولكن اكره هذا لان حبي صلى الله عليه وسلم كان يكره ريحه" تعني النبي صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: سَمِعْتُ كَرِيمَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ , سَأَلَتْهَا امْرَأَةٌ عَنْ الْخِضَابِ بِالْحِنَّاءِ؟ قَالَتْ: لَا بَأْسَ بِهِ، وَلَكِنْ أَكْرَهُ هَذَا لِأَنَّ حِبِّي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ رِيحَهُ" تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
کریمہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا: ان سے کسی عورت نے مہندی لگانے کے بارے میں پوچھا تو وہ بولیں: اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن میں اسے اس لیے ناپسند کرتی ہوں کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بو کو ناپسند کرتے تھے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم، قال: حدثنا ابي، وابو الاسود النضر بن عبد الجبار، قالا: حدثنا المفضل بن فضالة، عن عياش بن عباس القتباني، عن ابي الحصين الهيثم بن شفي، وقال ابو الاسود شفي: إنه سمعه يقول: خرجت انا وصاحب لي يسمى ابا عامر، رجل من المعافر، نصلي بإيلياء، وكان قاصهم رجلا من الازد، يقال له: ابو ريحانة من الصحابة، قال ابو الحصين: فسبقني صاحبي إلى المسجد، ثم ادركته، فجلست إلى جنبه، فقال: هل ادركت قصص ابي ريحانة؟ فقلت: لا، فقال: سمعته يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عشر: عن الوشر، والوشم، والنتف، وعن مكامعة الرجل الرجل بغير شعار، وعن مكامعة المراة المراة بغير شعار، وان يجعل الرجل اسفل ثيابه حريرا مثل الاعاجم، او يجعل على منكبيه حريرا امثال الاعاجم، وعن النهبى، وعن ركوب النمور، ولبوس الخواتيم إلا لذي سلطان". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، وَأَبُو الْأَسْوَدِ النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي الْحُصَيْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ شُفَيٍّ، وَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ شُفَيٌّ: إِنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: خَرَجْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي يُسَمَّى أَبَا عَامِرٍ، رَجُلٌ مِنْ الْمَعَافِرِ، نُصَلِّي بِإِيلِيَاءَ، وَكَانَ قَاصُّهُمْ رَجُلًا مِنْ الْأَزْدِ، يُقَالُ لَهُ: أَبُو رَيْحَانَةَ مِنَ الصَّحَابَةِ، قَالَ أَبُو الْحُصَيْنِ: فَسَبَقَنِي صَاحِبِي إِلَى الْمَسْجِدِ، ثُمَّ أَدْرَكْتُهُ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَقَالَ: هَلْ أَدْرَكْتَ قَصَصَ أَبِي رَيْحَانَةَ؟ فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَشْرٍ: عَنْ الْوَشْرِ، وَالْوَشْمِ، وَالنَّتْفِ، وَعَنْ مُكَامَعَةِ الرَّجُلِ الرَّجُلَ بِغَيْرِ شِعَارٍ، وَعَنْ مُكَامَعَةِ الْمَرْأَةِ الْمَرْأَةَ بِغَيْرِ شِعَارٍ، وَأَنْ يَجْعَلَ الرَّجُلُ أَسْفَلَ ثِيَابِهِ حَرِيرًا مِثْلَ الْأَعَاجِمِ، أَوْ يَجْعَلَ عَلَى مَنْكِبَيْهِ حَرِيرًا أَمْثَالَ الْأَعَاجِمِ، وَعَنِ النُّهْبَى، وَعَنْ رُكُوبِ النُّمُورِ، وَلُبُوسِ الْخَوَاتِيمِ إِلَّا لِذِي سُلْطَانٍ".
ابوالحصین ہیثم بن شفی کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی جس کی کنیت ابوعامر تھی اور وہ قبیلہ معافر ۱؎ کا تھا دونوں ایلیاء (بیت المقدس) میں نماز پڑھنے کے لیے نکلے، بیت المقدس میں لوگوں کے واعظ صحابہ میں سے قبیلہ ازد کے ابوریحانہ نامی ایک شخص تھے، میرے ساتھی مسجد میں مجھ سے پہلے پہنچے، پھر ان کے پیچھے میں آیا اور آ کر ان کے بغل میں بیٹھ گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا: آپ نے ابوریحانہ کا کچھ وعظ سنا؟ میں نے کہا: نہیں، وہ بولے: میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس باتوں سے منع فرمایا ہے: ”دانت باریک کرنے سے، گودنا گودنے سے، (سفید) بال اکھیڑنے سے، دو مردوں کے ایک ساتھ ایک کپڑے میں سونے سے، دو عورتوں کے ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں سونے سے، مرد کے اپنے کپڑوں کے نیچے عجمیوں کی طرح ریشمی کپڑا لگانے سے، یا عجمیوں کی طرح اپنے مونڈھوں پر ریشم لگانے سے، دوسروں کے مال لوٹنے سے، درندوں کی کھال پر سوار ہونے سے، اور انگوٹھی پہننے سے سوائے بادشاہ (حاکم) کے“۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 11 (4049)، سنن ابن ماجہ/اللباس 46 (3655)، (تحفة الأشراف: 12039)، مسند احمد (4/134، 135)، سنن الدارمی/الإستئذان 20 (2690)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 5113-5115 (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ’’ابو عامر معافری لین الحدیث ہیں، لیکن نمبر 5114 کی سند میں ان کا واسطہ نہیں ہے اس لیے اس سند سے یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”معافر“ یمن میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ۲؎: اکثر سلف نے صرف زیب و زینت کی خاطر انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے، (کچھ علماء اس ممانعت کو مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں) بادشاہ، یا بادشاہ کے نائبین جیسے عامل، گورنر، اسی طرح کسی بھی ادارے یا اس کے سربراہ کے لیے اپنی تحریر پر مہر لگانے کی خاطر انگوٹھی کے جواز کے سب قائل ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4049) ابن ماجه (3655) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 360
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني مخرمة بن بكير، عن ابيه، عن سعيد المقبري، قال: رايت معاوية بن ابي سفيان على المنبر ومعه في يده كبة من كبب النساء من شعر، فقال: ما بال المسلمات يصنعن مثل هذا؟! إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ايما امراة زادت في راسها شعرا ليس منه فإنه زور تزيد فيه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَمَعَهُ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ كُبَبِ النِّسَاءِ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: مَا بَالُ الْمُسْلِمَاتِ يَصْنَعْنَ مِثْلَ هَذَا؟! إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَادَتْ فِي رَأْسِهَا شَعْرًا لَيْسَ مِنْهُ فَإِنَّهُ زُورٌ تَزِيدُ فِيهِ".
سعید مقبری کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو منبر پر دیکھا ان کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں عورتوں کے بالوں کی ایک چوٹی تھی، انہوں نے کہا: کیا حال ہے مسلمان عورتوں کا جو ایسا کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس عورت نے اپنے سر میں کوئی ایسا بال شامل کیا جو اس میں کا نہیں ہے تو وہ فریب کرتی ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا محمد بن بشر، قال: حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الواصلة، والمستوصلة، والواشمة، والموتشمة". ارسله الوليد بن ابي هشام. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاصِلَةَ، وَالْمُسْتَوْصِلَةَ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمُوتَشِمَةَ". أَرْسَلَهُ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بال جوڑنے والی اور جوڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) ولید بن ہشام نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
نافع سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والی اور جوڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 83 (5937)، 85 (5940)، 87 (5947)، صحیح مسلم/اللباس 33 (2124)، سنن ابی داود/الترجل 5 (4168)، سنن الترمذی/اللباس 25 (1759)، الأدب 33 (2784)، سنن ابن ماجہ/النکاح 52 (1759)، مسند احمد (2/21)، ویأتي عند المؤلف برقم: 5251 و 5253 (صحیح) (یہ مرسل ہے لیکن اوپر کی حدیث میں نافع نے اسے ابن عمر سے روایت کیا ہے اس سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بال جوڑنے والی اور جوڑوانے والی عورت پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور , قال: حدثنا خلف بن موسى، قال: حدثنا ابي، عن قتادة، عن عزرة، عن الحسن العرني، عن يحيى بن الجزار، عن مسروق , ان امراة اتت عبد الله بن مسعود، فقالت: إني امراة زعراء ايصلح ان اصل في شعري؟ فقال: لا، قالت: اشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم او تجده في كتاب الله؟ قال: لا، بل سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم واجده في كتاب الله , وساق الحديث. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ مَسْرُوقٍ , أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ زَعْرَاءُ أَيَصْلُحُ أَنْ أَصِلَ فِي شَعْرِي؟ فَقَالَ: لَا، قَالَتْ: أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ تَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے سر پر بال بہت کم ہیں، کیا میرے لیے صحیح ہو گا کہ میں اپنے بال میں کچھ بال جوڑ لوں؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا کتاب اللہ (قرآن) میں ہے؟ کہا: نہیں، بلکہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ اور اسے کتاب اللہ (قرآن) میں بھی پاتا ہوں …، اور پھر آگے حدیث بیان کی۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی، گودوانے والی، پیشانی کے بال اکھاڑنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کروانے والی، اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: چونکہ یہ سارے اعمال ممنوع ہیں اس لیے ان کو کرنے والے اور ان کے کرنے میں مدد دینے والے سب پر لعنت کی گئی ہے، دانتوں میں کشادگی کے لیے، دانتوں کی تراش خراش کرنی پڑتی ہے اور یہ عمل قدرتی دانتوں میں تبدیلی ہے جو اللہ کی تخلیق میں دخل دینا ہے اس لیے یہ عمل بھی ممنوع ہے۔