عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالیٰ نے «قزع»(سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس72(5921)، صحیح مسلم/اللباس31(2120)، سنن ابی داود/الترجل14(4193)، سنن ابن ماجہ/اللباس38(3637)، مسند احمد (2/4، 39، 55، 67، 83، 101، 106، 118، 137، 143، 154)، ویأتي عند المؤلف بأرقام5230- 5233 (منکر) (اس کے راوی ’’عبدالرحمن‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں، لیکن اس کے بعد کی حدیث صحیح ہے)»
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا ابو داود، عن سفيان، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القزع"، قال ابو عبد الرحمن: حديث يحيى بن سعيد، ومحمد بن بشر اولى بالصواب. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقَزَعِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: حَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ أَوْلَى بِالصَّوَابِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع»(سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید اور محمد بن بشر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یحییٰ بن سعید اور محمد بن بشر کی حدیث باب «ذکر النہی عن أن یحلق بعض شعر الصبي و یترک بعضہ» کے ضمن میں نمبر ۵۲۳۲، ۵۲۳۳ کے تحت ذکر ہے۔ ان دونوں حدیثوں میں عبیداللہ اور نافع کے درمیان عمر بن نافع کا ذکر ہے، جب کہ سفیان کی اس روایت میں ایسا نہیں ہے۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میرے سر پر (لمبے) بال تھے، آپ نے فرمایا: ”نحوست ہے“، میں نے سمجھا کہ آپ مجھے کہہ رہے ہیں، چنانچہ میں نے اپنے سر کے بال کٹوا دیے پھر میں آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تم سے نہیں کہا تھا، لیکن یہ بہتر ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا وهب بن جرير، قال: حدثنا ابي، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس، قال:" كان شعر النبي صلى الله عليه وسلم شعرا رجلا , ليس بالجعد، ولا بالسبط بين اذنيه وعاتقه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ شَعْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرًا رَجْلًا , لَيْسَ بِالْجَعْدِ، وَلَا بِالسَّبْطِ بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَعَاتِقِهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال درمیانے قسم کے تھے، نہ بہت گھنگرالے تھے، نہ بہت سیدھے، کانوں اور مونڈھوں کے بیچ تک ہوتے تھے۔
حمید بن عبدالرحمٰن حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح چار سال رہا تھا، اس نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 239 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اگلے باب سے متعلق ہے، ناسخین کتاب کی غلطی سے یہاں درج ہو گئی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد بن الحارث، عن كهمس، عن عبد الله بن شقيق، قال: كان رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عاملا بمصر، فاتاه رجل من اصحابه , فإذا هو شعث الراس مشعان، قال: ما لي اراك مشعانا وانت امير؟ قال:" كان نبي الله صلى الله عليه وسلم ينهانا عن الإرفاه"، قلنا: وما الإرفاه، قال:" الترجل كل يوم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ كَهْمَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِلًا بِمِصْرَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ , فَإِذَا هُوَ شَعِثُ الرَّأْسِ مُشْعَانٌّ، قَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُشْعَانًّا وَأَنْتَ أَمِيرٌ؟ قَالَ:" كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا عَنِ الْإِرْفَاهِ"، قُلْنَا: وَمَا الْإِرْفَاهُ، قَالَ:" التَّرَجُّلُ كُلَّ يَوْمٍ".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ ایک صحابی رسول جو مصر میں افسر تھے، ان کے پاس ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص آیا جو پراگندہ سر اور بکھرے ہوئے بال والا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو پراگندہ سرپا رہا ہوں حالانکہ آپ امیر ہیں؟ وہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں «ارفاہ» سے منع فرماتے تھے، ہم نے کہا: «ارفاہ» کیا ہے؟ روزانہ بالوں میں کنگھی کرنا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کاموں کو) دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے (کوئی چیز) لیتے تھے تو دائیں ہاتھ سے، دیتے تھے تو دائیں ہاتھ سے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام میں داہنی طرف سے ابتداء کرنا پسند فرماتے تھے۔