عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جو جانوروں کا مثلہ کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کسی جاندار کے ہاتھ پاؤں ناک اور کان وغیرہ اعضاء کو کاٹ کر اس کی شکل و صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں، مثلہ حرام ہے خواہ انسان کا ہو یا جانور کا، اور کسی حلال جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت کی بوٹیاں بنانے کی کے مقصد سے اس کے ٹکڑے کرنا مثلہ نہیں ہے، مثلہ میں فقط شبیہ بگاڑ کر پھینک دینا مقصود ہوتا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، عن صهيب، عن عبد الله بن عمرو يرفعه، قال:" من قتل عصفورا فما فوقها بغير حقها، سال الله عز وجل عنها يوم القيامة، قيل: يا رسول الله، فما حقها؟، قال:" حقها ان تذبحها فتاكلها، ولا تقطع راسها، فيرمى بها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ صُهَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو يَرْفَعُهُ، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا، سَأَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ:" حَقُّهَا أَنْ تَذْبَحَهَا فَتَأْكُلَهَا، وَلَا تَقْطَعْ رَأْسَهَا، فَيُرْمَى بِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی گوریا، یا اس سے چھوٹی کسی چڑیا کو بلا وجہ مارا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کرے گا“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اسے ذبح کر کے کھائے اور اس کا سر کاٹ کر یوں ہی نہ پھینک دے“۔
شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے بلا وجہ کوئی گوریا ماری تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور کہے گی: اے میرے رب! فلاں نے مجھے بلا وجہ مارا مجھے کسی فائدے کے لیے نہیں مارا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 4843)، مسند احمد (4/389) (ضعیف) (اس کے راوی صالح بن دینار لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، صالح بن دينار مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 354
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت سے اور «جلالہ» پر سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
وضاحت: ۱؎: ”عبداللہ بن عمرو“ یعنی اگر راوی نے «محمد» کے بعد «عن أبیہ» کہا تھا تو «عبد الله بن عمرو» کی روایت ہو گی، اور اگر «عن جدہ» کہا تھا تو «عمرو بن العاص» کی روایت ہو گی، ابوداؤد میں بغیر شک کے «عمرو بن شعیب عن أبیہ، عن جدہ» ہے، یعنی ”عبداللہ بن عمرو“ رضی اللہ عنہما، مزی نے اس کو ”عبداللہ بن عمرو“ رضی اللہ عنہما ہی کی مسند ذکر کیا ہے۔ «جلالہ»: وہ جانور جو صرف نجاست یا اکثر نجاست کھاتا ہو۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا هشام، قال: حدثنا قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المجثمة، ولبن الجلالة، والشرب من في السقاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُجَثَّمَةِ، وَلَبَنِ الْجَلَّالَةِ، وَالشُّرْبِ مِنْ فِي السِّقَاءِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مجثمہ»(جو جانور باندھ کر نشانہ لگا کر مار ڈلا گیا ہو) سے، «جلالہ»(گندگی کھانے والے جانور) کے دودھ سے، اور مشک کے منہ سے منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا ہے۔