(مرفوع) اخبرنا عمران بن بكار، قال: حدثنا علي بن عياش، قال: حدثني شعيب، قال: حدثني ابو الزناد، مما حدثه عبد الرحمن الاعرج، مما ذكر انه سمع ابا هريرة يحدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال:" انظروا كيف يصرف الله عني شتم قريش، ولعنهم، إنهم يشتمون مذمما، ويلعنون مذمما، وانا محمد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ:" انْظُرُوا كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ، وَلَعْنَهُمْ، إِنَّهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا، وَأَنَا مُحَمَّدٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی نام اور وصف دونوں اعتبار سے میں محمد ہوں، لہٰذا مجھ پر مذمم کا اطلاق کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ محمد کا مطلب ہے جس کی تعریف کی گئی ہو تو مجھ پر ان کی گالیوں اور لعنتوں کا اثر کیونکر پڑ سکتا ہے۔ گویا ایسا لفظ جو طلاق کے معنی و مفہوم کے منافی ہے اس کا اطلاق طلاق پر اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح مذمم کا اطلاق محمد پر نہیں ہو سکتا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: حدثنا ابن وهب، قال: انبانا يونس بن يزيد، وموسى بن علي , عن ابن شهاب، قال: اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت:" لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بتخيير ازواجه بدا بي، فقال: إني ذاكر لك امرا، فلا عليك ان لا تعجلي، حتى تستامري ابويك، قالت: قد علم ان ابواي لم يكونا ليامراني بفراقه، قالت: ثم تلا هذه الآية: يايها النبي قل لازواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا إلى قوله: جميلا سورة الاحزاب آية 28، فقلت: افي هذا استامر ابوي؟ فإني اريد الله عز وجل، ورسوله، والدار الآخرة، قالت عائشة: ثم فعل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم مثل ما فعلت، ولم يكن ذلك حين قال لهن رسول الله صلى الله عليه وسلم: واخترنه طلاقا من اجل انهن اخترنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمُوسَى بْنُ عُلَيٍّ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:" لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا إِلَى قَوْلِهِ: جَمِيلا سورة الأحزاب آية 28، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَرَسُولَهُ، وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ، وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ حِينَ قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاخْتَرْنَهُ طَلَاقًا مِنْ أَجْلِ أَنَّهُنَّ اخْتَرْنَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (اختیار دہی) کی ابتداء مجھ سے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں تو ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر فیصلہ لینے میں جلدی نہ کرنا“۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا»”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں“۔ (الاحزاب: ۲۸) تک پڑھی (یہ آیت سن کر) میں نے کہا: میں اس بات کے لیے اپنے ماں باپ سے صلاح و مشورہ لوں؟ (مجھے کسی سے مشورہ نہیں لینا ہے) میں اللہ عزوجل، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے بھی ویسا ہی کیا (اور کہا) جیسا میں نے کیا (اور کہا) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے کہنے اور ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کر لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی ۴؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3203 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دنیا اور اس کی زینت اور نبی کی مصاحبت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لیں۔ ۲؎: معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی الله عنہا کے خیار کی مدت ماں باپ سے مشورہ لینے تک متعین کی۔ ۴؎: اس لیے کہ وہ بیویاں تو پہلے ہی سے تھیں، اگر وہ آپ کو منتخب نہ کرتیں تب طلاق ہو جاتی۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت:" لما نزلت وإن كنتن تردن الله ورسوله سورة الاحزاب آية 29، دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم بدا بي، فقال: يا عائشة، إني ذاكر لك امرا، فلا عليك ان لا تعجلي، حتى تستامري ابويك، قالت: قد علم والله، ان ابوي لم يكونا ليامراني بفراقه، فقرا علي: يايها النبي قل لازواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها سورة الاحزاب آية 28 , فقلت: افي هذا استامر ابوي؟ فإني اريد الله، ورسوله"، قال ابو عبد الرحمن: هذا خطا، والاول اولى بالصواب، والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَمَّا نَزَلَتْ وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة الأحزاب آية 29، دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ، أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ، فَقَرَأَ عَلَيَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا سورة الأحزاب آية 28 , فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ، وَرَسُولَهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالْأَوَّلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «إن كنتن تردن اللہ ورسوله» اتری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: ”عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔“ آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہیں ہیں، پھر آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» میں نے (یہ آیت سن کر) آپ سے عرض کیا: کیا آپ مجھے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لینے کے لیے کہہ رہے ہیں، میں تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں (اس بارے میں مشورہ کیا کرنا؟)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ (یعنی حدیث «معمر عن الزہری عن عائشہ» غلط ہے اور اول (یعنی حدیث «یونس و موسیٰ عن ابن شہاب، عن أبی سلمہ عن عائشہ» زیادہ قریب صواب ہے۔ واللہ أعلم۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (ازواج مطہرات) کو اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو چن لیا، تو کیا یہ طلاق ہوئی؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں ہوئی)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو (انتخاب کا) اختیار دیا تو کیا یہ (اختیار) طلاق تھا؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں تھا)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم سب نے آپ کو منتخب اور قبول کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم سے متعلق کچھ بھی شمار نہ کیا۔
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھی (یہ دونوں میاں بیوی تھے) میرا ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو میں آزاد کر دوں۔ میں نے اس ارادہ کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا تو آپ نے فرمایا: ”لونڈی سے پہلے غلام کو آزاد کرو (پھر لونڈی کو)“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 22 (2237)، سنن ابن ماجہ/العتق 10 (2532) (تحفة الأشراف: 17534) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن موہب ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: غالباً ایسا عورت کے مقابلے میں مرد کی بزرگی و بڑائی کے باعث کہا گیا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: انبانا ابن القاسم، عن مالك، عن ربيعة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان في بريرة ثلاث سنن إحدى السنن: انها اعتقت فخيرت في زوجها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولاء لمن اعتق"، ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحم، فقرب إليه خبز وادم من ادم البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الم ار برمة فيها لحم؟" فقالوا: بلى، يا رسول الله، ذلك لحم تصدق به على بريرة، وانت لا تاكل الصدقة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو عليها صدقة، وهو لنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ إِحْدَى السُّنَنِ: أَنَّهَا أُعْتِقَتْ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ؟" فَقَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے“، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے؟“(تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے؟) لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہو گا (اس لیے اسے پیش کر سکتے ہو)“۳؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔ ۲؎: ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔ ۳؎: معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہو جائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہو جاتا ہے۔