سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
28. بَابُ : خِيَارِ الْمَمْلُوكَيْنِ يُعْتَقَانِ
28. باب: آزاد کیے گئے غلام میاں بیوی کو اختیار حاصل ہو گا یا نہیں؟
Chapter: Choosing Which Of The Two Married Slaves To Free First
حدیث نمبر: 3476
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا حماد بن مسعدة، قال: حدثنا ابن موهب، عن القاسم بن محمد، قال: كان لعائشة غلام وجارية، قالت: فاردت ان اعتقهما، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ابدئي بالغلام قبل الجارية".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَوْهَبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كَانَ لِعَائِشَةَ غُلَامٌ وَجَارِيَةٌ، قَالَتْ: فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْتِقَهُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ابْدَئِي بِالْغُلَامِ قَبْلَ الْجَارِيَةِ".
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھی (یہ دونوں میاں بیوی تھے) میرا ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو میں آزاد کر دوں۔ میں نے اس ارادہ کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا تو آپ نے فرمایا: لونڈی سے پہلے غلام کو آزاد کرو (پھر لونڈی کو) ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: غالباً ایسا عورت کے مقابلے میں مرد کی بزرگی و بڑائی کے باعث کہا گیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 22 (2237)، سنن ابن ماجہ/العتق 10 (2532) (تحفة الأشراف: 17534) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن موہب ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن النسائى الصغرى3476عائشة بنت عبد اللهابدئي بالغلام قبل الجارية
   سنن أبي داود2237عائشة بنت عبد اللهتبدأ بالرجل قبل المرأة
   سنن ابن ماجه2532عائشة بنت عبد اللهابدئي بالرجل قبل المرأة

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3476 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3476  
اردو حاشہ:
(1) آزاد ہونے سے حیثیت بڑھ جاتی ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شادی شدہ لونڈی آزاد ہو اور اس کا خاوند غلام ہو تو آزادی کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ غلام کے نکاح میں رہے یا نہ رہے۔ البتہ اگر خاوند آزاد ہے تو پھر عورت کو آزادی کے بعد یہ حق نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے بلند نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے آپ نے خاوند کو پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ عورت نکاح ختم نہ کرسکے کیونکہ نکاح کا ٹوٹنا بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جب دونوں کا درجہ ایک جیسا ہے تو نکاح قائم رہنے ہی میں عافیت ہے۔ احناف ہر حالت میں آزاد ہونے والی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار دیتے ہیں لیکن ان کا مسلک واضح طور پر رسول اللہ ﷺ کے اس مذکورہ فرمان کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مرد کی فضیلت کی وجہ سے اسے پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا لیکن یہ تاویل کمزور ہے۔ دلائل کی رو سے پہلا موقف قوی ہے۔
(2) چونکہ خاوند کو تو ہر حال میں مال میں طلاق کا اختیار ہے‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ لہٰذا آزاد ہونے سے اسے کوئی الگ اختیار نہیں ملتا۔
(3) عورت اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آزاد کروں یا نہ کروں بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ پہلے کسے آزاد کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ البتہ خاوند سے صلاح مشورہ افضل ہے۔ اس سے باہمی اعتماد اور مودت بڑھتی ہے اور شیطان کو دخل اندازی کا موقع نہیں ملتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3476   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.