قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھی (یہ دونوں میاں بیوی تھے) میرا ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو میں آزاد کر دوں۔ میں نے اس ارادہ کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا تو آپ نے فرمایا: ”لونڈی سے پہلے غلام کو آزاد کرو (پھر لونڈی کو)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: غالباً ایسا عورت کے مقابلے میں مرد کی بزرگی و بڑائی کے باعث کہا گیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 22 (2237)، سنن ابن ماجہ/العتق 10 (2532) (تحفة الأشراف: 17534) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن موہب ضعیف ہیں)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3476
اردو حاشہ: (1) آزاد ہونے سے حیثیت بڑھ جاتی ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شادی شدہ لونڈی آزاد ہو اور اس کا خاوند غلام ہو تو آزادی کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ غلام کے نکاح میں رہے یا نہ رہے۔ البتہ اگر خاوند آزاد ہے تو پھر عورت کو آزادی کے بعد یہ حق نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے نہیں ملتا کیونکہ اس کا مرتبہ خاوند سے بلند نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے آپ نے خاوند کو پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ عورت نکاح ختم نہ کرسکے کیونکہ نکاح کا ٹوٹنا بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جب دونوں کا درجہ ایک جیسا ہے تو نکاح قائم رہنے ہی میں عافیت ہے۔ احناف ہر حالت میں آزاد ہونے والی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار دیتے ہیں لیکن ان کا مسلک واضح طور پر رسول اللہ ﷺ کے اس مذکورہ فرمان کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مرد کی فضیلت کی وجہ سے اسے پہلے آزاد کرنے کا حکم دیا لیکن یہ تاویل کمزور ہے۔ دلائل کی رو سے پہلا موقف قوی ہے۔ (2) چونکہ خاوند کو تو ہر حال میں مال میں طلاق کا اختیار ہے‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ لہٰذا آزاد ہونے سے اسے کوئی الگ اختیار نہیں ملتا۔ (3) عورت اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آزاد کروں یا نہ کروں بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ پہلے کسے آزاد کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ البتہ خاوند سے صلاح مشورہ افضل ہے۔ اس سے باہمی اعتماد اور مودت بڑھتی ہے اور شیطان کو دخل اندازی کا موقع نہیں ملتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3476