(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن ايوب، عن محمد , عن يونس بن جبير، قال: سالت ابن عمر، عن رجل طلق امراته وهي حائض، فقال: هل تعرف عبد الله بن عمر؟ فإنه طلق امراته وهي حائض، فسال عمر النبي صلى الله عليه وسلم،" فامره ان يراجعها، ثم يستقبل عدتها"، فقلت له: فيعتد بتلك التطليقة؟ فقال: مه، ارايت إن عجز واستحمق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ , عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا"، فَقُلْتُ لَهُ: فَيَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؟ فَقَالَ: مَهْ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس مرد کے متعلق (مسئلہ) پوچھا جس کی بیوی حیض سے ہو اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو؟ انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ (اس وقت) حیض سے تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر کو حکم دیا کہ اسے لوٹا لے اور اس کی عدت کا انتظار کرے۔ (یونس بن جبیر کہتے ہیں) میں نے ان سے کہا: یہ طلاق جو وہ دے چکا ہے کیا وہ اس کا شمار کرے گا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہو جاتا (اور رجوع نہ کرتا یا رجوع کرنے سے پہلے مر جاتا) اور وہ حماقت کر گزرتا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب رجعت سے عاجز ہو جانے یا دیوانہ ہو جانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ کا «مرہ فلیراجعھا» کہنا بے معنی ہو گا۔ جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہو گی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن علية، عن يونس، عن محمد بن سيرين، عن يونس بن جبير، قال: قلت لابن عمر، رجل طلق امراته وهي حائض، فقال: اتعرف عبد الله بن عمر؟ فإنه طلق امراته وهي حائض، فاتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم، يساله،" فامره ان يراجعها، ثم يستقبل عدتها"، قلت له: إذا طلق الرجل امراته وهي حائض، ايعتد بتلك التطليقة؟ فقال: مه، وإن عجز واستحمق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ، رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُهُ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا"، قُلْتُ لَهُ: إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، أَيَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؟ فَقَالَ: مَهْ، وَإِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حیض سے تھی طلاق دے دی (تو اس کا مسئلہ کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو، انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور وہ اس وقت حالت حیض میں تھی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹا لے، پھر اس کی عدت کا انتظار کرے۔ میں نے ان سے پوچھا: جب آدمی اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدے تو کیا وہ اس طلاق کو شمار کرے گا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اگر وہ رجوع نہ کرتا اور حماقت کرتا۔ (تو کیا وہ شمار نہ ہوتی؟ ہوتی، اس لیے ہو گی)۔
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: اخبرني مخرمة، عن ابيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال:" اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امراته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا، ثم قال:" ايلعب بكتاب الله، وانا بين اظهركم"، حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، الا اقتله؟. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ، قَالَ:" أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ:" أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ"، حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟.
محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: ”میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ۱؎“، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11237) (ضعیف) (سند میں مخرمہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کا حکم کیا ہے اسے نہیں دیکھتے؟ میں تمہارے درمیان موجود ہوں مجھ سے نہیں پوچھتے اور سمجھتے؟ اللہ کے فرمان کے خلاف عمل کرنے لگے ہو کیا اب یہی ہو گا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني ابن شهاب، ان سهل بن سعد الساعدي اخبره , ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي، فقال:" ارايت يا عاصم، لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فيقتلونه، ام كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى اهله، جاءه عويمر فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال عاصم لعويمر: لم تاتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسالة التي سالت عنها، فقال عويمر: والله لا انتهي حتى اسال عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل عويمر حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد نزل فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها"، قال سهل: فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغ عويمر، قال: كذبت عليها يا رسول الله، إن امسكتها فطلقها ثلاثا، قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ:" أَرَأَيْتَ يَا عَاصِمُ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتَ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا"، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَ عُوَيْمِرٌ، قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: عاصم! بتاؤ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ (وہ قتل کر دے) تو لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے! بتاؤ وہ کیا اور کیسے کرے؟ عاصم! اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر مجھے بتاؤ، عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ مسئلہ) پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کے سوالات برے لگے اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا ۱؎، عاصم رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو بڑی گراں گزری ۲؎، جب عاصم رضی اللہ عنہ لوٹ کر اپنے گھر والوں کے پاس آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے مجھے کوئی اچھی بات نہیں سنائی، جو مسئلہ تم نے پوچھا تھا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! یہ مسئلہ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر رہوں گا، (یہ کہہ کر) عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہو گئے اور آپ جہاں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے وہاں پہنچ کر کہا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے ایک شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ (اگر وہ اسے قتل کر دے) تو آپ لوگ اسے (اس کے بدلے میں) قتل کر ڈالیں گے! (ایسی صورت حال پیش آ جائے) تو وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں قرآن نازل ہوا ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو لے کر آؤ“، سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (وہ لے کر آئے) پھر دونوں (یعنی عویمر اور اس کی بیوی نے) لعان کیا، میں بھی اس وقت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ پھر جب عویمر رضی اللہ عنہ لعان سے فارغ ہوئے تو کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اس لعان کے بعد) اس کو اپنے گھر رکھا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں جھوٹا ہوں (اور میں نے اس پر تہمت لگائی ہے) یہ کہہ کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے اسے (دھڑا دھڑ) تین طلاقیں دے دیں۔
وضاحت: ۱؎: گویا کہ آپ اس سے باخبر نہیں تھے کہ یہ واقعہ پیش آ چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے کسی چیز کے وقوع سے پہلے اس کے متعلق استفسار کو فضول سمجھا۔ ۲؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم رضی الله عنہ کے سوال کو جو ناپسند کیا اور اسے اچھا نہیں سمجھا اس سے عاصم رضی الله عنہ رنجیدہ ہوئے اور انہیں پشیمانی بھی ہوئی۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن يحيى، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سعيد بن يزيد الاحمسي، قال: حدثنا الشعبي، قال: حدثتني فاطمة بنت قيس، قالت: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: انا بنت آل خالد، وإن زوجي فلانا، ارسل إلي بطلاقي، وإني سالت اهله النفقة والسكنى فابوا علي، قالوا: يا رسول الله، إنه قد ارسل إليها بثلاث تطليقات، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما النفقة، والسكنى للمراة، إذا كان لزوجها عليها الرجعة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَحْمَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ، وَإِنَّ زَوْجِي فُلَانًا، أَرْسَلَ إِلَيَّ بِطَلَاقِي، وَإِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا النَّفَقَةُ، وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ، إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ".
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: میں آل خالد کی بیٹی ہوں اور میرے شوہر فلاں نے مجھے طلاق کہلا بھیجی ہے، میں نے ان کے گھر والوں سے نفقہ و سکنی (اخراجات اور رہائش) کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھے دینے سے انکار کیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے جس کے شوہر کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان، قال: حدثنا بقية، عن ابي عمرو وهو الاوزاعي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثني ابو سلمة، قال: حدثتني فاطمة بنت قيس: ان ابا عمرو بن حفص المخزومي طلقها ثلاثا، فانطلق خالد بن الوليد في نفر من بني مخزوم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا رسول الله، إن ابا عمرو بن حفص طلق فاطمة ثلاثا، فهل لها نفقة؟ فقال:" ليس لها نفقة، ولا سكنى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو وَهُوَ الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَانْطَلَقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي نَفَرٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَ فَاطِمَةَ ثَلَاثًا، فَهَلْ لَهَا نَفَقَةٌ؟ فَقَالَ:" لَيْسَ لَهَا نَفَقَةٌ، وَلَا سُكْنَى".
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تین طلاقیں دیں، تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول! ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے (عدت کے دوران) نفقہ ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکنی“۔
(مرفوع) اخبرنا ابو داود سليمان بن سيف، قال: حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن طاوس، عن ابيه: ان ابا الصهباء جاء إلى ابن عباس، فقال:" يا ابن عباس، الم تعلم، ان الثلاث كانت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وصدرا من خلافة عمر رضي الله عنهما، ترد إلى الواحدة، قال: نعم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ جَاءَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَمْ تَعْلَمْ، أَنَّ الثَّلَاثَ كَانَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تُرَدُّ إِلَى الْوَاحِدَةِ، قَالَ: نَعَمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر کہا: اے ابن عباس! کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے شروع عہد خلافت میں تین طلاقیں (ایک ساتھ) ایک مانی جاتی تھیں، انہوں نے کہا: جی ہاں (معلوم ہے، ایسا ہوتا تھا)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا عنوان باب سے تعلق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ «إن الثلاث كانت ... ترو إلى الواحدة» تو یہ اس مطلقہ کے بارے میں خاص ہے جسے جماع سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو، جب «غیر مدخول بہا» کو تین متفرق طلاقیں دی جائیں گی تو پہلی طلاق واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری طلاقیں بے محل ہونے کی وجہ سے لغو قرار پائیں۔ اس چیز کو بتانے کے لیے امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم , عن الاسود، عن عائشة، قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امراته، فتزوجت زوجا غيره فدخل بها، ثم طلقها قبل ان يواقعها، اتحل للاول؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا حتى يذوق الآخر عسيلتها، وتذوق عسيلته". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ فَدَخَلَ بِهَا، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُوَاقِعَهَا، أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَتَّى يَذُوقَ الْآخَرُ عُسَيْلَتَهَا، وَتَذُوقَ عُسَيْلَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اس عورت نے دوسری شادی کر لی، وہ دوسرا شخص (تنہائی میں) اس کے پاس گیا اور اسے جماع کیے بغیر طلاق دے دی۔ تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ اس وقت تک پہلے کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے شہد کا اور وہ عورت اس دوسرے شوہر کے شہد کا ذائقہ و مزہ نہ چکھ لے“۔
(مرفوع) اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم، قال: حدثنا شعيب بن الليث، عن ابيه، قال: حدثني ايوب بن موسى، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، قالت: جاءت امراة رفاعة القرظي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني نكحت عبد الرحمن بن الزبير، والله ما معه إلا مثل هذه الهدبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى يذوق عسيلتك، وتذوقي عسيلته". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَكَحْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَاللَّهِ مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الْهُدْبَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی اور ان کے پاس تو اس کپڑے کی جھالر جیسے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگتا ہے تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو“۔