(مرفوع) اخبرنا ابو داود سليمان بن سيف، قال: حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن طاوس، عن ابيه: ان ابا الصهباء جاء إلى ابن عباس، فقال:" يا ابن عباس، الم تعلم، ان الثلاث كانت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وصدرا من خلافة عمر رضي الله عنهما، ترد إلى الواحدة، قال: نعم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ جَاءَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَمْ تَعْلَمْ، أَنَّ الثَّلَاثَ كَانَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تُرَدُّ إِلَى الْوَاحِدَةِ، قَالَ: نَعَمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر کہا: اے ابن عباس! کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے شروع عہد خلافت میں تین طلاقیں (ایک ساتھ) ایک مانی جاتی تھیں، انہوں نے کہا: جی ہاں (معلوم ہے، ایسا ہوتا تھا)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا عنوان باب سے تعلق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ «إن الثلاث كانت ... ترو إلى الواحدة» تو یہ اس مطلقہ کے بارے میں خاص ہے جسے جماع سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو، جب «غیر مدخول بہا» کو تین متفرق طلاقیں دی جائیں گی تو پہلی طلاق واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری طلاقیں بے محل ہونے کی وجہ سے لغو قرار پائیں۔ اس چیز کو بتانے کے لیے امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کی ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3435
اردو حاشہ: اس حدیث میں دخول سے پہلے یا بعد کی کوئی قید نہیں۔ دراصل امام صاحب نے اس روایت کو جمہور اہل علم کے موقف کے موافق کرنے کے لیے یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کی تین طلاقیں مراد ہیں جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ اس عورت کے لیے تین اور ایک برابر ہیں کیونکہ ایسی عورت جس سے جماع نہ کیا گیا ہو‘ اس کے لیے ایک طلاق بھی بائن ہوتی ہے‘ یعنی اس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر حدیث کو اچھی طرح پڑھا جائے تو یہ تاویل غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ مسئلہ تو شروع سے ہمیشہ کے لیے یہی رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے۔ اس کے لیے حضرت عمر کے ابتدائی دور کی قید لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔ عورت مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بطور سزا تین کو تین ہی نافذ کردیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ وتابعین نے یہی فتویٰ دینا شروع کردیا حتیٰ کہ اس حدیث کو روای صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی اور تعزیری فیصلہ تھا۔ جس طرح انتظامی فیصلے بدلتے رہتے ہیں‘ یہ بھی بدل سکتا ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ اس کی صراحت کرتے رہے ہیں کہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت ابن مسعود‘ حضرت زبیر‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفf‘ تابعین میں سے حضرت طاوس اور عکرمہ اسی کے قائل ہیں۔ امام ا لمغازی محمد بن اسحاق‘ شیخ الاسلام ابن قیم اور علامہ ابن حزم کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ امام مالک سے بھی ایک قول یہی نقل کیا گیا ہے۔ مالکیہ میں سے بہت سے فقہاء اور حنفیہ میں سے محمد بن مقاتل رازی بھی یہی کہتے ہیں۔ اب اسے شاذ مسلک کہنا ائمہ اربعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ ہر دور میں لوگ اس کے قائل رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:3430 مزید دیکھیے: ”ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل“ از حافظ صلاح الدین یوسف)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3435