(مرفوع) اخبرنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا شعيب بن الليث، عن ابيه، قال: حدثنا ايوب وهو ابن موسى، قال حميد: وحدثتني زينب بنت ابي سلمة، عن امها ام سلمة، قالت: جاءت امراة من قريش، فقالت: يا رسول الله، إن ابنتي رمدت، افاكحلها؟ وكانت متوفى عنها، فقال:" الا اربعة اشهر وعشرا"، ثم قالت: إني اخاف على بصرها، فقال:" لا، إلا اربعة اشهر وعشرا، قد كانت إحداكن في الجاهلية تحد على زوجها سنة، ثم ترمي على راس السنة بالبعرة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَهُوَ ابْنُ مُوسَى، قَالَ حُمَيْدٌ: وَحَدَّثَتْنِي زَيْنَبُ بِنْتُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي رَمِدَتْ، أَفَأَكْحُلُهَا؟ وَكَانَتْ مُتَوَفًّى عَنْهَا، فَقَالَ:" أَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"، ثُمَّ قَالَتْ: إِنِّي أَخَافُ عَلَى بَصَرِهَا، فَقَالَ:" لَا، إِلَّا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحِدُّ عَلَى زَوْجِهَا سَنَةً، ثُمَّ تَرْمِي عَلَى رَأْسِ السَّنَةِ بِالْبَعْرَةِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ قریش کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری بیٹی آشوب چشم میں مبتلا ہے اور وہ اپنے شوہر کے مرنے کا سوگ منا رہی ہے تو کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا دوں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا چار مہینے دس دن نہیں ٹھہر سکتی؟“ اس عورت نے پھر کہا: مجھے اس کی بینائی کے جانے کا خوف ہے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے نہیں لگا سکتی، زمانہ جاہلیت میں تمہاری ہر عورت اپنے شوہر کے مرنے پر سال بھر کا سوگ مناتی تھی پھر سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی“۔
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنی بیٹی کا ذکر کر کے جس کا شوہر مر گیا تھا اور اس کی آنکھیں دکھتی تھیں (اس کے علاج و معالجے کے لیے) مسئلہ پوچھا، آپ نے فرمایا: ”تمہاری ہر عورت (جس کا شوہر مر جاتا تھا) پورے سال سوگ مناتی تھی (اور ہر طرح کی تکلیف اٹھاتی تھی) اور پھر سال پورا ہونے پر مینگنیاں پھینکتی تھی اور اب یہ (اسلام میں گھٹ کر) چار مہینے دس دن ہیں (تو تمہیں آنکھ کی تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی؟)“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن معدان بن عيسى بن معدان، قال: حدثنا ابن اعين، قال: حدثنا زهير بن معاوية، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن حميد بن نافع مولى الانصار، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام سلمة، ان امراة من قريش جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد خفت على عينها، وهي تريد الكحل، فقال:" قد كانت إحداكن ترمي بالبعرة على راس الحول، وإنما هي اربعة اشهر وعشرا"، فقلت لزينب: ما راس الحول؟ قالت: كانت المراة في الجاهلية إذا هلك زوجها عمدت إلى شر بيت لها، فجلست فيه حتى إذا مرت بها سنة، خرجت، فرمت وراءها ببعرة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدْ خِفْتُ عَلَى عَيْنِهَا، وَهِيَ تُرِيدُ الْكُحْلَ، فَقَالَ:" قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"، فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: مَا رَأْسُ الْحَوْلِ؟ قَالَتْ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا هَلَكَ زَوْجُهَا عَمَدَتْ إِلَى شَرِّ بَيْتٍ لَهَا، فَجَلَسَتْ فِيهِ حَتَّى إِذَا مَرَّتْ بِهَا سَنَةٌ، خَرَجَتْ، فَرَمَتْ وَرَاءَهَا بِبَعْرَةٍ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قریش کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے اور میں ڈرتی ہوں کہ اس کی آنکھیں کہیں خراب نہ ہو جائیں۔ اس کا مقصد تھا کہ آپ اسے سرمہ لگانے کی اجازت دے دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کوئی بھی عورت (جو سوگ منا رہی ہوتی تھی) سوگ کے سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی اور یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں“(یہ بھی تم لوگوں سے گزارے نہیں جاتے)“۔ حمید بن نافع کہتے ہیں: میں نے زینب سے پوچھا «رأس الحول»(سال بھر کے بعد) کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا جاہلیت میں ہوتا یہ تھا کہ جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو وہ عورت اپنے گھروں میں سے سب سے خراب (بوسیدہ) گھر میں جا بیٹھتی تھی، جب اس کا سال پورا ہو جاتا تو وہ اس گھر سے نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی تھی۔
(مرفوع) اخبرنا يحيى بن حبيب بن عربي، قال: حدثنا حماد، عن يحيى بن سعيد، عن حميد بن نافع، عن زينب، ان امراة سالت ام سلمة، وام حبيبة: اتكتحل في عدتها من وفاة زوجها؟ فقالت: اتت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فسالته عن ذلك، فقال:" قد كانت إحداكن في الجاهلية إذا توفي عنها زوجها اقامت سنة، ثم قذفت خلفها ببعرة، ثم خرجت، وإنما هي اربعة اشهر وعشرا حتى ينقضي الاجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ، وَأُمَّ حَبِيبَةَ: أَتَكْتَحِلُ فِي عِدَّتِهَا مِنْ وَفَاةِ زَوْجِهَا؟ فَقَالَتْ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا أَقَامَتْ سَنَةً، ثُمَّ قَذَفَتْ خَلْفَهَا بِبَعْرَةٍ، ثُمَّ خَرَجَتْ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا حَتَّى يَنْقَضِيَ الْأَجَلُ".
زینب (زینب بنت ام سلمہ رضی الله عنہا) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا کوئی عورت اپنے شوہر کے انتقال پر عدت گزارنے کے دوران سرمہ لگا سکتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا: ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے یہی سوال کیا (جو تم نے کیا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانہ جاہلیت میں تم میں سے جس عورت کا شوہر اسے چھوڑ کر مر جاتا تھا تو وہ عورت سال بھر سوگ مناتی رہتی یہاں تک کہ وہ وقت آتا کہ وہ اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی پھر وہ گھر سے نکلتی“۔ (تب اس کی عدت پوری ہوتی) اور مدت پوری ہونے تک یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (سال بھر کے مقابل میں یہ کچھ بھی نہیں)۔
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو جس کا شوہر مر گیا ہو عدت کے دوران حیض سے پاک ہونے پر (خون کی بدبو دور کرنے کے لیے) قسط اور اظفار کے استعمال کی رخصت دی ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اللہ تعالیٰ کے اس قول «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج»”اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیبیاں چھوڑ جائیں (یعنی جس وقت مرنے لگیں) تو وہ اپنی بیبیوں کے لیے ایک سال تک ان کو نہ نکالنے اور خرچ دینے کی وصیت کر جائیں“۔ (البقرہ: ۲۴۰) کے متعلق فرماتے ہیں: یہ آیت میراث کی آیت سے منسوخ ہو گئی ہے جس میں عورت کا چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اور ایک سال تک عدت میں رہنے کا حکم چار ماہ دس دن کے حکم سے منسوخ ہو گیا ہے۔
(مقطوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو الاحوص، عن سماك، عن عكرمة" في قوله عز وجل: والذين يتوفون منكم ويذرون ازواجا وصية لازواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج سورة البقرة آية 240، قال: نسختها: والذين يتوفون منكم ويذرون ازواجا يتربصن بانفسهن اربعة اشهر وعشرا سورة البقرة آية 234". (مقطوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ" فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ: نَسَخَتْهَا: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا سورة البقرة آية 234".
عکرمہ آیت کریمہ: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج» کے متعلق فرماتے ہیں: یہ آیت اس آیت: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا»”اور جو لوگ تم میں سے (اے مسلمانو!) مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ (یعنی بیبیاں) چار مہینے دس دن تک اپنے تئیں روک رکھیں“۔ (البقرہ: ۲۳۴) سے منسوخ ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الحميد بن محمد، قال: حدثنا مخلد، قال: حدثنا ابن جريج، عن عطاء، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عاصم، ان فاطمة بنت قيس اخبرته وكانت عند رجل من بني مخزوم، انه طلقها ثلاثا وخرج إلى بعض المغازي، وامر وكيله ان يعطيها بعض النفقة فتقالتها، فانطلقت إلى بعض نساء النبي صلى الله عليه وسلم، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي عندها، فقالت: يا رسول الله، هذه فاطمة بنت قيس، طلقها فلان، فارسل إليها ببعض النفقة فردتها، وزعم انه شيء تطول به، قال:" صدق"، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" فانتقلي إلى ام كلثوم فاعتدي عندها"، ثم قال:" إن ام كلثوم امراة يكثر عوادها، فانتقلي إلى عبد الله ابن ام مكتوم، فإنه اعمى"، فانتقلت إلى عبد الله، فاعتدت عنده حتى انقضت عدتها، ثم خطبها ابو الجهم، ومعاوية بن ابي سفيان، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تستامره فيهما، فقال: اما ابو الجهم فرجل اخاف عليك قسقاسته للعصا، واما معاوية فرجل املق من المال"، فتزوجت اسامة بن زيد بعد ذلك. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَاصِمٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أَخْبَرَتْهُ وَكَانَتْ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، أَنَّهُ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا وَخَرَجَ إِلَى بَعْضِ الْمَغَازِي، وَأَمَرَ وَكِيلَهُ أَنْ يُعْطِيَهَا بَعْضَ النَّفَقَةِ فَتَقَالَّتْهَا، فَانْطَلَقَتْ إِلَى بَعْضِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عِنْدَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، طَلَّقَهَا فُلَانٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِبَعْضِ النَّفَقَةِ فَرَدَّتْهَا، وَزَعَمَ أَنَّهُ شَيْءٌ تَطَوَّلَ بِهِ، قَالَ:" صَدَقَ"، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَانْتَقِلِي إِلَى أُمِّ كُلْثُومٍ فَاعْتَدِّي عِنْدَهَا"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ أُمَّ كُلْثُومٍ امْرَأَةٌ يَكْثُرُ عُوَّادُهَا، فَانْتَقِلِي إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ أَعْمَى"، فَانْتَقَلَتْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَاعْتَدَّتْ عِنْدَهُ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، ثُمَّ خَطَبَهَا أَبُو الْجَهْمِ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَأْمِرُهُ فِيهِمَا، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو الْجَهْمِ فَرَجُلٌ أَخَافُ عَلَيْكِ قَسْقَاسَتَهُ لِلْعَصَا، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ أَمْلَقُ مِنَ الْمَالِ"، فَتَزَوَّجَتْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ بَعْدَ ذَلِكَ.
عبدالرحمٰن بن عاصم سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بنی مخزوم کے ایک شخص کی بیوی تھیں، وہ شخص انہیں تین طلاقیں دے کر کسی جہاد میں چلا گیا اور اپنے وکیل سے کہہ گیا کہ اسے تھوڑا بہت نفقہ دیدے۔ (تو اس نے دیا) مگر اس نے اسے تھوڑا اور کم جانا (اور واپس کر دیا) پھر ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس پہنچی اور وہ ان کے پاس ہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فاطمہ بنت قیس ہیں اور (ان کے شوہر) فلاں نے انہیں طلاق دے دی ہے اور ان کے پاس کچھ نفقہ بھیج دیا ہے جسے انہوں نے واپس کر دیا، اس کے وکیل کا خیال ہے کہ یہ تو اس کی طرف سے ایک طرح کا احسان ہے (ورنہ اس کا بھی حق نہیں بنتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صحیح کہتا ہے، تم ام کلثوم کے یہاں منتقل ہو جاؤ اور وہیں عدت گزارو“، پھر آپ نے فرمایا: ”نہیں، تم عبداللہ بن ام مکتوم کے یہاں منتقل ہو جاؤ، ام کلثوم کے گھر ملنے جلنے والے بہت آتے ہیں (ان کے باربار آنے جانے سے تمہیں تکلیف ہو گی) اور عبداللہ بن ام مکتوم نابینا آدمی ہیں“، (وہاں تمہیں پریشان نہ ہونا پڑے گا) تو وہ عبداللہ ابن ام مکتوم کے یہاں چلی گئیں اور انہیں کے یہاں اپنی عدت کے دن پورے کئے۔ اس کے بعد ابوالجہم اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے انہیں شادی کا پیغام دیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے ان دونوں کے بارے میں کسی ایک سے شادی کرنے کا مشورہ چاہا، تو آپ نے فرمایا: ”رہے ابوالجہم تو مجھے ان کے تم پر لٹھ چلا دینے کا ڈر ہے اور رہے معاویہ تو وہ مفلس انسان ہیں۔ یہ سننے کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے شادی کر لی“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا حجين بن المثنى، قال: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن فاطمة بنت قيس انها اخبرته ," انها كانت تحت ابي عمرو بن حفص بن المغيرة فطلقها آخر ثلاث تطليقات، فزعمت فاطمة انها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتته في خروجها من بيتها، فامرها ان تنتقل إلى ابن ام مكتوم الاعمى"، فابى مروان ان يصدق فاطمة في خروج المطلقة من بيتها، قال عروة: انكرت عائشة ذلك على فاطمة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ ," أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَتْهُ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى"، فَأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَ فَاطِمَةَ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا، قَالَ عُرْوَةُ: أَنْكَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کی بیوی تھیں، انہوں نے انہیں تین طلاقوں میں سے آخری تیسری طلاق دے دی۔ فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنے گھر سے اپنے نکل جانے کا مسئلہ پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ مروان بن حکم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مطلقہ کے گھر سے نکلنے کی بات کو صحیح تسلیم نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ کی اس بات کا انکار کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا حفص، قال: حدثنا هشام، عن ابيه، عن فاطمة، قالت: قلت:" يا رسول الله، زوجي طلقني ثلاثا، واخاف ان يقتحم علي، فامرها، فتحولت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَوْجِي طَلَّقَنِي ثَلَاثًا، وَأَخَافُ أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيَّ، فَأَمَرَهَا، فَتَحَوَّلَتْ".
فاطمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی (مجھے تنہا پا کر) اچانک میرے پاس گھس نہ آئے (اس لیے آپ مجھے کہیں اور منتقل ہو جانے کی اجازت دے دیجئیے) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے اپنی رہائش کی جگہ تبدیل کر لی۔