أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَهُوَ ابْنُ مُوسَى، قَالَ حُمَيْدٌ: وَحَدَّثَتْنِي زَيْنَبُ بِنْتُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي رَمِدَتْ، أَفَأَكْحُلُهَا؟ وَكَانَتْ مُتَوَفًّى عَنْهَا، فَقَالَ:" أَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"، ثُمَّ قَالَتْ: إِنِّي أَخَافُ عَلَى بَصَرِهَا، فَقَالَ:" لَا، إِلَّا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحِدُّ عَلَى زَوْجِهَا سَنَةً، ثُمَّ تَرْمِي عَلَى رَأْسِ السَّنَةِ بِالْبَعْرَةِ".
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 233
´سوگ صرف تین دن ہے`
«. . . أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا . . .»
”. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5334 5337، ومسلم 1486 1489، من حديث مالك به]
[● من رواية يحيى بن يحيى وجاء فى الأصل: ”عَشْرًا“! ** وفي رواية يحيى بن يحيى: وَالْحِفْشُ الْبَيْتُ الرَّدِئُ]
تفقه:
➊ عدت گزر جانے کے بعد عدت کی ممنوعات کو ختم کر دینا چاہئے۔
➋ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اگرچہ بظاہر کسی مشکل کا سامنا ہو۔
➌ حالت عدت میں آنکھوں میں سرمہ ڈالنے سمیت کسی قسم کی زینت کی اجازت نہیں ہے۔ ➍ صحابیات اور صحابۂ کرام ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➎ اسلام عورت کے تحفظ اور عزت کا ضامن ہے۔
➏ عورت پر شوہر کی وفات پر ترکزینت دوران عدت فرض ہے جبکہ کسی اور کی وفات پر تین دن تک ترکِ زینت کرنا جائز ہے واجب نہیں۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک دن بھی سوگ (ترک زینت) نہیں کیا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5470، وصحيح مسلم 2144]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 318
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 233
´سوگ صرف تین دن ہے`
«. . . أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5334 5337، ومسلم 1486 1489، من حديث مالك به]
[● من رواية يحيى بن يحيى وجاء فى الأصل: ”عَشْرًا“! ** وفي رواية يحيى بن يحيى: وَالْحِفْشُ الْبَيْتُ الرَّدِئُ]
تفقه:
➊ عدت گزر جانے کے بعد عدت کی ممنوعات کو ختم کر دینا چاہئے۔
➋ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اگرچہ بظاہر کسی مشکل کا سامنا ہو۔
➌ حالتِ عدت میں آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے سمیت کسی قسم کی زینت کی اجازت نہیں ہے۔ ➍ صحابیات اور صحابۂ کرام ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➎ اسلام عورت کے تحفظ اور عزت کا ضامن ہے۔
➏ عورت پر شوہر کی وفات پر ترکِ زینت دورانِ عدت فرض ہے جبکہ کسی اور کی وفات پر تین دن تک ترکِ زینت کرنا جائز ہے واجب نہیں۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک دن بھی سوگ (ترک زینت) نہیں کیا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5470، وصحيح مسلم 2144]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 318
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 233
´سوگ صرف تین دن ہے`
«. . . أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]
. . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5334 5337، ومسلم 1486 1489، من حديث مالك به]
[● من رواية يحيى بن يحيى وجاء فى الأصل: ”عَشْرًا“! ** وفي رواية يحيى بن يحيى: وَالْحِفْشُ الْبَيْتُ الرَّدِئُ]
تفقه:
➊ عدت گزر جانے کے بعد عدت کی ممنوعات کو ختم کر دینا چاہئے۔
➋ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اگرچہ بظاہر کسی مشکل کا سامنا ہو۔
➌ حالتِ عدت میں آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے سمیت کسی قسم کی زینت کی اجازت نہیں ہے۔ ➍ صحابیات اور صحابۂ کرام ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➎ اسلام عورت کے تحفظ اور عزت کا ضامن ہے۔
➏ عورت پر شوہر کی وفات پر ترکِ زینت دورانِ عدت فرض ہے جبکہ کسی اور کی وفات پر تین دن تک ترکِ زینت کرنا جائز ہے واجب نہیں۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک دن بھی سوگ (ترک زینت) نہیں کیا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5470، وصحيح مسلم 2144]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 318
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 233
´سوگ صرف تین دن ہے`
«. . . أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5334 5337، ومسلم 1486 1489، من حديث مالك به]
[● من رواية يحيى بن يحيى وجاء فى الأصل: ”عَشْرًا“! ** وفي رواية يحيى بن يحيى: وَالْحِفْشُ الْبَيْتُ الرَّدِئُ]
تفقه:
➊ عدت گزر جانے کے بعد عدت کی ممنوعات کو ختم کر دینا چاہئے۔
➋ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اگرچہ بظاہر کسی مشکل کا سامنا ہو۔
➌ حالتِ عدت میں آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے سمیت کسی قسم کی زینت کی اجازت نہیں ہے۔ ➍ صحابیات اور صحابۂ کرام ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➎ اسلام عورت کے تحفظ اور عزت کا ضامن ہے۔
➏ عورت پر شوہر کی وفات پر ترکِ زینت دورانِ عدت فرض ہے جبکہ کسی اور کی وفات پر تین دن تک ترکِ زینت کرنا جائز ہے واجب نہیں۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک دن بھی سوگ (ترک زینت) نہیں کیا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5470، وصحيح مسلم 2144]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 318
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 950
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر وفات پا گیا ہے اور بیٹی آشوب چشم میں مبتلا ہو گئی ہے کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ فرمایا ”نہیں“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 950»
تخریج: «أخرجه البخاري، الطلاق، باب تحد المتوفي عنها أربعة أشهر وعشرًا، حديث:5336، ومسلم، الطلاق، باب وجوب الإحداد....، حديث:1488.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ سوگ منانے والی عورت کے لیے سرمے کا استعمال حرام ہے جبکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک عورت نے فتویٰ پوچھا تو انھوں نے کہا: رات کے وقت لگا لو اور دن کے وقت اسے دھو ڈالو جیسا کہ موطا امام مالک وغیرہ میں ہے۔
(الموطأ للإمام مالک‘ الطلاق‘ باب ماجاء في الإحداد) اور ابوداود کے الفاظ ہیں:
”پس تو رات کو سرمہ لگا لے اور دن میں اسے دھو ڈال۔
“ (سنن أبي داود‘ الطلاق‘ حدیث: ۲۳۰۵) اس سے معلوم ہوا کہ رات کے وقت سرمہ لگانا جائز ہے بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو‘ تاہم اس کا ترک کرنا اولیٰ ہے۔
سرمے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ یہ خوبصورتی کا موجب ہے‘ لہٰذا اگر سرمہ سفید ہو جس میں زینت بھی نہ ہو تو دن کے اوقات میں بھی اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 950
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3531
´بیوہ کی عدت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس کا شوہر مر گیا ہو اور سرمہ (و کاجل) نہ لگانے سے اس کی آنکھوں کے خراب ہو جانے کا خوف و خطرہ ہو تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(زمانہ جاہلیت میں) تمہاری ہر عورت (اپنے شوہر کے سوگ میں) اپنے گھر میں انتہائی خراب، گھٹیا و گندا کپڑا (اونٹ کی کاٹھ کے نیچے کے کپڑے کی طرح) پہن کر سال بھر گھر میں بیٹھی رہتی تھی، پھر کہیں (سال پورا ہونے پر) نکلتی تھ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3531]
اردو حاشہ:
(1) جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ اس عدت کے دوران میں عورت کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہوگا‘ یعنی ہر قسم کی زیب وزینت سے پرہیز کرنا ہوگا۔ سرمہ بھی زینت ہے‘ لہٰذا سوگ کے دوران میں وہ سرمہ نہیں لگا سکتی۔ اگر آنکھوں میں تکلیف ہوتو کوئی اور دوا استعمال کی جائے جو زینت کا کام نہ دے۔
(2) جاہلیت میں دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجاتا اسے ایک سال الگ تھلگ کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ نہانے دھونے تک کی اجازت نہ ہوتی تھی حتیٰ کہ غسل حیض بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کپڑے بھی وہی رہتے تھے۔ تبھی حدیث میں ان کو ”بدترین ٹاٹ“ کہا گیا ہے۔ اس دوران وہ اس قدر بدبودار اور زہریلی بن جاتی کہ اگر کوئی جانور اس کے جسم کو چھوتا تو وہ بھی مرجاتا تھا۔ ایک سال کے بعد اسے کمرے سے نکالا جاتا اور اسے اونٹ کی ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینکتی تھی۔ گویا اب اس کی بری حالت ختم ہوچکی ہے‘ نیز یہ عدت ختم ہونے کی علامت تھی جب کہ اسلام نے صرف زینت سے روکا ہے۔ وہ گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ہی رہے گی‘ نہائے دھوئے گی‘ البتہ نئے یا شوخ کپڑوں‘ زیورات‘ میک اپ اور دوسری زیب وزینت سے پرہیز کرے گی اور حتی الامکان گھر میں رہے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3531
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3569
´سوگ منانے والی عورت کو سرمہ لگانا منع ہے۔`
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنی بیٹی کا ذکر کر کے جس کا شوہر مر گیا تھا اور اس کی آنکھیں دکھتی تھیں (اس کے علاج و معالجے کے لیے) مسئلہ پوچھا، آپ نے فرمایا: ”تمہاری ہر عورت (جس کا شوہر مر جاتا تھا) پورے سال سوگ مناتی تھی (اور ہر طرح کی تکلیف اٹھاتی تھی) اور پھر سال پورا ہونے پر مینگنیاں پھینکتی تھی اور اب یہ (اسلام میں گھٹ کر) چار مہینے دس دن ہیں ([سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3569]
اردو حاشہ:
(1) چونکہ آنکھوں کی تکلیف کا علاج سرمہ سوگ کے سراسر خلاف ہے‘ اس لیے اس دوران میں سرمہ لگانا ممنوع ہے۔
(2) ”صرف چار ماہ دس دن“ طلاق کی عدت تین حیض ہے مگر وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے کیونکہ اس میں سوگ کا اضافہ بھی ہے‘ نیز مدت کی زیادتی سے استبرائے رحم کا یقین حاصل ہوجائے گا کیونکہ چار ماہ کے بعد لازماً بچہ حرکت شروع کردیتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3569
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2299
´شوہر کی وفات پر بیوی کے سوگ منانے کا بیان۔`
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2299]
فوائد ومسائل:
1: (إحداد) کے لغوی معنی ہیں زیب وزینت چھوڑدینا اسی کو سوگ منانا کہا جا تاہے۔
2: جاہل لوگ اپنے کفر وشرک کی ریتوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی شریعت کی رضا ورغبت سے پابندی کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2299
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2299
´شوہر کی وفات پر بیوی کے سوگ منانے کا بیان۔`
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2299]
فوائد ومسائل:
1: (إحداد) کے لغوی معنی ہیں زیب وزینت چھوڑدینا اسی کو سوگ منانا کہا جا تاہے۔
2: جاہل لوگ اپنے کفر وشرک کی ریتوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی شریعت کی رضا ورغبت سے پابندی کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2299
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2299
´شوہر کی وفات پر بیوی کے سوگ منانے کا بیان۔`
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2299]
فوائد ومسائل:
1: (إحداد) کے لغوی معنی ہیں زیب وزینت چھوڑدینا اسی کو سوگ منانا کہا جا تاہے۔
2: جاہل لوگ اپنے کفر وشرک کی ریتوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی شریعت کی رضا ورغبت سے پابندی کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2299
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1197
´شوہر کی موت پر عورت کی عدت کا بیان۔`
(تیسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگا دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہر بار فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”(اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالانکہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہر والی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1197]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سال بھرکے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا شوہرجب انتقال کرجاتا تو وہ ایک معمولی جھونپڑی میں جا رہتی اورخراب سے خراب کپڑاپہن لیتی تھی اورسال پورا ہو نے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی اور چیزکو ہاتھ لگاتی پھرکوئی جانور،
گدھا،
بکری،
یا پرندہ اس کے پاس لا یا جاتا اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرم گاہ کو رگڑتی اور جس جانورسے وہ رگڑتی عام طورسے وہ مرہی جاتا،
پھروہ اس تنگ وتاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی اس طرح گویا وہ اپنی نحوست دورکرتی اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ استعمال کرنے اجازت ملتی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1197
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:306
فائدہ:
اس حدیث میں زمانہ جاہلیت میں سوگ والی عورت (یعنی جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو) کی حالت بیان کی گئی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جس کا خاوند فوت ہو جاتا تھا،وہ ایک سال تک عدت میں رہتی تھی لیکن اسلام نے چار ماہ دس دن کی عدت مقرر کر دی، یعنی اسلام نے عورت سے بہت زیادہ مشقتوں کو دور کر دیا ہے۔ والحمد للہ!
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 306
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5706
5706. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں درد ہو گیا تو لوگوں نے اس عورت کا ذکر نبی ﷺ سے کیا اور اسکی آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بات بھی ہوئی اور یہ کہ اس کی آنکھ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دور جاہلیت میں عدت گزارنے والی عورت کو اپنے گھر میں بد ترین کپڑوں میں رہنا پڑتا تھا۔“ یا فرمایا: ”اپنے کپڑوں میں گھر کے سب سے گندے حصے میں پڑا رہنا پڑتا تھا پھر جب کوئی کتا گزرتا تو اس کو مینگنی مارتی (اور عدت سے باہر آتی) تو کیا اب چار ماہ دس دن تک سرمہ لگانے سے نہیں رک سکتی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5706]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب یوں نکلا کہ آپ نے عدت کی وجہ سے آشوب چشم میں سرمہ لگانے کی اجازت نہیں دی۔
اگر عدت نہ ہو تو آپ درد چشم میں سرمہ لگانے کی اجازت دیتے۔
باب کا یہی مطلب ہے زمانہ جاہلیت میں عورت خاوند کے مرجانے پر پھٹے پرانے خراب کپڑے پہن کر سال بھر ایک سڑے بدبودار گھر میں پڑی رہتی۔
سال کے بعد جب کتا سامنے سے نکلتا تو اونٹ کی مینگنی اس پر پھینکتی اس وقت کہیں عدت سے باہر آتی۔
اتفاق سے اگر کتا نہ نکلتا تو اس کے انتظار میں اور پڑی سڑتی رہتی۔
اسلام نے اس غلط رسم کو مٹا کر صرف چارمہینے اور دس دن کی عدت قرار دی اور ان دنوں میں سرمہ لگانے کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5706
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5706
5706. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں درد ہو گیا تو لوگوں نے اس عورت کا ذکر نبی ﷺ سے کیا اور اسکی آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بات بھی ہوئی اور یہ کہ اس کی آنکھ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دور جاہلیت میں عدت گزارنے والی عورت کو اپنے گھر میں بد ترین کپڑوں میں رہنا پڑتا تھا۔“ یا فرمایا: ”اپنے کپڑوں میں گھر کے سب سے گندے حصے میں پڑا رہنا پڑتا تھا پھر جب کوئی کتا گزرتا تو اس کو مینگنی مارتی (اور عدت سے باہر آتی) تو کیا اب چار ماہ دس دن تک سرمہ لگانے سے نہیں رک سکتی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5706]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت کی وجہ سے آنکھوں کی تکلیف کے لیے سرمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔
اگر عدت کا دورانیہ نہ ہو تو سرمہ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
بہرحال اثمد سرمے کی فضیلت احادیث میں مروی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سوتے وقت اثمد سرمہ استعمال کیا کرو کیونکہ وہ نظر کو تیز کرتا اور پلکوں کے بال اُگاتا ہے۔
“ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3496)
نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تمہارا بہترین سرمہ اثمد ہے۔
وہ نظر کو تیز کرتا اور بالوں کو اُگاتا ہے۔
“ (سنن ابی داود، اللباس، حدیث: 4061) (2)
اثمد استعمال کرنے سے مذکورہ فوائد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ارشاد نبوی پر عمل کرنے کا ثواب الگ ملتا ہے۔
رات کو سوتے وقت سرمہ لگانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ رات بھر آنکھوں میں لگا رہنے کی وجہ سے اچھی طرح اثر کرتا ہے۔
واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5706