ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں سات سال کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اور جب میں نو برس کی ہوئی تو مجھ سے خلوت فرمائی ۱؎۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اور نو ہی برس میں آپ کی صحبت میں رہی (پھر آپ رحلت فرما گئے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17796) (صحیح) (کثرت طرق کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، اور جب آپ نے انہیں چھوڑ کر انتقال فرمایا تو اس وقت وہ اٹھارہ برس کی ہو چکی تھیں۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سالم بن عبد الله , انه سمع عبد الله بن عمر يحدث , ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه حدثنا , قال: يعني:" تايمت حفصة بنت عمر من خنيس بن حذافة السهمي وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتوفي بالمدينة، قال عمر: فاتيت عثمان بن عفان رضي الله عنه، فعرضت عليه حفصة بنت عمر، قال: قلت: إن شئت انكحتك حفصة، قال: سانظر في امري فلبثت ليالي، ثم لقيني، فقال: قد بدا لي ان لا اتزوج يومي هذا، قال عمر: فلقيت ابا بكر الصديق رضي الله عنه، فقلت: إن شئت زوجتك حفصة بنت عمر، فصمت ابو بكر، فلم يرجع إلي شيئا فكنت عليه اوجد مني على عثمان، فلبثت ليالي، ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانكحتها إياه، فلقيني ابو بكر، فقال: لعلك وجدت علي حين عرضت علي حفصة، فلم ارجع إليك شيئا، قال عمر: قلت: نعم، قال: فإنه لم يمنعني ان ارجع إليك شيئا فيما عرضت علي، إلا اني قد كنت علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها، ولم اكن لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلتها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنَا , قَالَ: يَعْنِي:" تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ عُمَرُ: فَأَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ: قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ، فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ شَيْئًا فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ، إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا، وَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبِلْتُهَا".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا مدینہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا، اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دیتا ہوں، انہوں نے کہا: میں اپنے بارے میں غور کر کے بتاؤں گا، میں کئی دن ٹھہرا (انتظار کرتا) رہا، پھر وہ مجھ سے ملے اور کہا: میرے غور و فکر میں یہی آیا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: اگر آپ پسند کریں تو حفصہ سے آپ کی شادی کر دوں، (یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے، اور مجھے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابل میں زیادہ ہی غصہ آیا، پھر چند ہی راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ پھر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: غالباً آپ کو اس وقت بڑا غصہ آیا ہو گا جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی تھی اور (میری جانب سے) آپ کو کوئی جواب نہ ملا، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: ہاں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ کی پیش کش کا جواب نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ کا ذکر فرما چکے تھے اور میں آپ کا راز فاش کرنے والا نہیں تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو میں انہیں قبول کر لیتا۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ عورت اپنے ولی (سر پرست) کے بالمقابل اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے ۱؎ اور کنواری (لڑکی) سے اس کی شادی کی اجازت لی جائے گی۔ اور اس کی اجازت (اس سے پوچھے جانے پر) اس کا خاموش رہنا ہے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: «أَحَقُّ» کا صیغہ مشارکت کا متقاضی ہے، گویا «ایم»(بیوہ) اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے، یہ اور بات ہے کہ ولی کی بنسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا جب کہ اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جا سکتا ہے چنانچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی اس کا نکاح ہو گا، اس توضیح سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ حدیث «لا نكاح إلا بولي» کے منافی نہیں ہے۔ ۲؎: لیکن اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتا دینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ ماں باپ اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ اپنے ولی (سر پرست) کے بالمقابل اپنے (رشتہ کے) بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ اور «یتیمہ» یعنی کنواری لڑکی سے (اس کی شادی کے لیے) اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کی منظوری (پوچھے جانے پر) اس کی خاموشی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3262 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح م وهو أصح من اللفظ الأول تستأذن
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ عورت اپنے نفس کی خود مالک ہے۔ (شادی کرے گی) اور «یتیمہ» یعنی کنواری لڑکی سے (اس کی شادی کے لیے) اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کی منظوری (پوچھے جانے پر) اس کی خاموشی ہے“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ (غیر کنواری) عورت پر ولی کا کچھ اختیار نہیں ہے، اور «یتیمہ» کنواری لڑکی سے اس کی ذات کے بارے میں مشورہ (و اجازت) لی جائے گی، اور (جواباً) اس کی خاموشی اس کی اجازت مانی جائے گی“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ (غیر کنواری) عورت اپنے آپ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے (کہ شادی کرے تو کس سے کرے یا نہ کرے) اور کنواری لڑکی کی شادی باپ اس کی اجازت لے کر کرے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا يحيى بن درست، قال: حدثنا ابو إسماعيل، قال: حدثنا يحيى، ان ابا سلمة حدثه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تنكح الثيب حتى تستاذن، ولا تنكح البكر حتى تستامر"، قالوا: يا رسول الله كيف إذنها؟ قال:" إذنها ان تسكت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ:" إِذْنُهَا أَنْ تَسْكُتَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ عورت کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کنواری کی شادی اس کی مرضی جانے بغیر کی جائے“، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے جانی جائے؟ ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی اجازت یہ ہے کہ وہ چپ رہے“۲؎۔