(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، وسليمان بن داود , عن ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، انه سال عائشة عن قول الله عز وجل: وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء سورة النساء آية 3 , قالت:" يا ابن اختي هي اليتيمة تكون في حجر وليها فتشاركه في ماله، فيعجبه مالها وجمالها فيريد وليها ان يتزوجها بغير ان يقسط في صداقها، فيعطيها مثل ما يعطيها غيره، فنهوا ان ينكحوهن إلا ان يقسطوا لهن ويبلغوا بهن اعلى سنتهن من الصداق، فامروا ان ينكحوا ما طاب لهم من النساء سواهن، قال عروة: قالت عائشة: ثم إن الناس استفتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد فيهن فانزل الله عز وجل: ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن سورة النساء آية 127 , إلى قوله: وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127 , قالت عائشة: والذي ذكر الله تعالى انه يتلى في الكتاب الآية الاولى التي فيها: وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء سورة النساء آية 3 , قالت عائشة: وقول الله في الآية الاخرى: وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127 , رغبة احدكم عن يتيمته التي تكون في حجره حين تكون قليلة المال والجمال، فنهوا ان ينكحوا ما رغبوا في مالها من يتامى النساء إلا بالقسط، من اجل رغبتهم عنهن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ , عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3 , قَالَتْ:" يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا فَتُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ فِيهِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ سورة النساء آية 127 , إِلَى قَوْلِهِ: وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 , قَالَتْ عَائِشَةُ: وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُتْلَى فِي الْكِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَى الَّتِي فِيهَا: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3 , قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الْآيَةِ الْأُخْرَى: وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 , رَغْبَةَ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے (ام المؤمنین) عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء»”اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے، تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو (النساء: ۳) کے بارے میں سوال کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ ساجھی ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو، اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کیے نکاح کرنا چاہتا ہو یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو، چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا۔ اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کر سکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لیں۔ عروہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان یتیم بچیوں کے متعلق مسئلہ پوچھا تو اللہ نے آیت «ويستفتونك في النساء قل اللہ يفتيكم فيهن» سے لے کر «وترغبون أن تنكحوهن»”آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے، اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو (النساء: ۱۲۷) تک نازل فرمائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے «وما يتلى عليك في الكتاب» جو فرمایا ہے اس سے پہلی آیت: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء» مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں فرمایا: «وترغبون أن تنكحوهن» تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری نگہداشت و پرورش میں ہوتی ہے اور کم مال والی اور کم خوبصورتی والی ہوتی ہے اسے تو تم نہیں چاہتے تو اس کی بنا پر تمہیں ان یتیم لڑکیوں سے بھی شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے جن کا مال پانے کی خاطر تم ان سے شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہو۔
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ۱؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر بن إياس بن مقاتل بن مشمرخ بن خالد، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، وابن عون، وسلمة بن علقمة، وهشام بن حسان، دخل حديث بعضهم في بعض، عن محمد بن سيرين، قال سلمة: عن ابن سيرين نبئت , عن ابي العجفاء، وقال الآخرون: عن محمد بن سيرين، عن ابي العجفاء، قال: قال عمر بن الخطاب:" الا لا تغلوا صدق النساء، فإنه لو كان مكرمة وفي الدنيا او تقوى عند الله عز وجل، كان اولاكم به النبي صلى الله عليه وسلم، ما اصدق رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته اكثر من ثنتي عشرة اوقية، وإن الرجل ليغلي بصدقة امراته حتى يكون لها عداوة في نفسه، وحتى يقول: كلفت لكم علق القربة وكنت غلاما عربيا مولدا، فلم ادر ما علق القربة، قال: واخرى يقولونها لمن قتل في مغازيكم او مات قتل فلان شهيدا او مات فلان شهيدا ولعله ان يكون قد اوقر عجز دابته او دف راحلته ذهبا او ورقا يطلب التجارة فلا تقولوا ذاكم ولكن قولوا كما قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من قتل في سبيل الله، او مات فهو في الجنة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِخِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَابْنِ عَوْنٍ، وسلمة بن علقمة، وهشام بن حسان، دخل حديث بعضهم في بعض، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ سَلَمَةُ: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ نُبِّئْتُ , عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، وَقَالَ الْآخَرُونَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:" أَلَا لَا تَغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مَكْرُمَةً وَفِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، وَحَتَّى يَقُولَ: كُلِّفْتُ لَكُمْ عِلْقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا، فَلَمْ أَدْرِ مَا عِلْقُ الْقِرْبَةِ، قَالَ: وَأُخْرَى يَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ أَوْ مَاتَ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا أَوْ مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا يَطْلُبُ التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ مَاتَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو سن لو عورتوں کے مہروں میں غلو نہ کرو کیونکہ اگر یہ زیادتی دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی کسی بیوی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رکھا اور نہ ہی آپ کی کسی بیٹی کا اس سے زیادہ رکھا گیا، آدمی اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے جس سے اس کے دل میں نفرت و عداوت پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ میں تو تمہاری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں میں خالص عربی النسل لڑکا نہ تھا اس لیے میں «عرق القربہ» کا محاورہ سمجھ نہ سکا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دوسری بات یہ بتائی کہ جب کوئی شخص تمہاری لڑائیوں میں مارا جاتا ہے یا مر جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں: وہ شہید کی حیثیت سے قتل ہوا یا شہادت کی موت مرا، جب کہ اس کا امکان موجود ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پیچھے یا پہلو میں سونا چاندی لاد رکھا ہے اور مجاہدین کے ساتھ نکلنے سے اس کا مقصود تجارت ہو۔ تو تم ایسا نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے: جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا مر جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ سر زمین حبشہ میں تھیں، ان کی شادی نجاشی بادشاہ نے کرائی اور ان کا مہر چار ہزار (درہم) مقرر کیا۔ اور اپنے پاس سے تیار کر کے انہیں شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس (حبشہ میں) کوئی چیز نہ بھیجی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسری) بیویوں کا مہر چار سو درہم تھا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ لمحمد , عن ابن القاسم , عن مالك , عن حميد الطويل , عن انس بن مالك , ان عبد الرحمن بن عوف جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وبه اثر الصفرة، فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره انه تزوج امراة من الانصار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كم سقت إليها؟" قال: زنة نواة من ذهب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اولم ولو بشاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ أَثَرُ الصُّفْرَةِ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا؟" قَالَ: زِنَةَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنا مہر دیا ہے اسے؟ انہوں نے کہا: ایک «نواۃ»(کھجور کی گٹھلی) برابر سونا ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ ۲؎ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو“۔
وضاحت: ۱؎: اہل حساب کی اصطلاح میں «نواۃ» پانچ درہم کے وزن کو کہتے ہیں۔ ۲؎: یہ بات آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی مالی حیثیت دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی الله عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اس وقت میرے چہرے سے شادی کی بشاشت و خوشی ظاہر تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا: اسے تم نے کتنا مہر دیا ہے؟ میں نے کہا «نواۃ»(کھجور کی گٹھلی) کے وزن برابر سونا۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت سے نکاح مہر پر کیا گیا ہو یا (مہر کے علاوہ) اسے عطیہ دیا گیا ہو یا نکاح سے پہلے عورت کو کسی چیز کے دینے کا وعدہ کیا گیا ہو تو یہ سب چیزیں عورت کا حق ہوں گی (اور وہ پائے گی)۔ اور جو چیزیں نکاح منعقد ہو جانے کے بعد ہوں گی تو وہ جسے دے گا چیز اس کی ہو گی۔ اور آدمی اپنی بیٹی اور بہن کے سبب عزت و اکرام کا مستحق ہے“، (حدیث کے) الفاظ (راوی حدیث) عبداللہ بن محمد بن تمیم کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 36 (2129)، سنن ابن ماجہ/النکاح 41 (1955)، (تحفة الأشراف: 8745)، مسند احمد (2/182) حسن) (البانی نے ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، حالاں کہ نسائی کی ایک سند میں ابن جریج کی ’’تحدیث‘‘ موجود ہے)»
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن، قال: حدثنا ابو سعيد عبد الرحمن بن عبد الله، عن زائدة بن قدامة، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، والاسود , قالا: اتي عبد الله في رجل تزوج امراة ولم يفرض لها، فتوفي قبل ان يدخل بها، فقال عبد الله: سلوا هل تجدون فيها اثرا , قالوا: يا ابا عبد الرحمن: ما نجد فيها، يعني اثرا، قال: اقول برايي , فإن كان صوابا، فمن الله: لها كمهر نسائها لا وكس ولا شطط ولها الميراث وعليها العدة، فقام رجل من اشجع، فقال: في مثل هذا قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا في امراة يقال لها بروع بنت واشق تزوجت رجلا، فمات قبل ان يدخل بها،" فقضى لها رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل صداق نسائها ولها الميراث وعليها العدة"، فرفع عبد الله يديه، وكبر، قال ابو عبد الرحمن: لا اعلم احدا قال في هذا الحديث الاسود غير زائدة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَائِدَةَ بْنِ قُدَامَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ , قَالَا: أُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا، فَتُوُفِّيَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَلُوا هَلْ تَجِدُونَ فِيهَا أَثَرًا , قَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: مَا نَجِدُ فِيهَا، يَعْنِي أَثَرًا، قَالَ: أَقُولُ بِرَأْيِي , فَإِنْ كَانَ صَوَابًا، فَمِنَ اللَّهِ: لَهَا كَمَهْرِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، فَقَامَ رَجُلٌ مَنْ أَشْجَعَ، فَقَالَ: فِي مِثْلِ هَذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فِي امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلًا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا،" فَقَضَى لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ صَدَاقِ نِسَائِهَا وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ"، فَرَفَعَ عَبْدُ اللَّهِ يَدَيْهِ، وَكَبَّرَ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْأَسْوَدُ غَيْرَ زَائِدَةَ.
علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا گیا جس نے ایک عورت سے شادی تو کی لیکن اس کا مہر متعین نہ کیا اور اس سے خلوت سے پہلے مر گیا؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں سے پوچھو کہ کیا تم لوگوں کے سامنے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں) ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے؟ لوگوں نے کہا: عبداللہ! ہم کوئی ایسی نظیر نہیں پاتے۔ تو انہوں نے کہا: میں اپنی عقل و رائے سے کہتا ہوں اگر درست ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اسے مہر مثل دیا جائے گا ۱؎، نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث میں اس کا حق و حصہ دیا جائے گا اور اسے عدت بھی گزارنی ہو گی۔ (یہ سن کر) اشجع (قبیلے کا) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ہمارے یہاں کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا، اس عورت نے ایک شخص سے نکاح کیا، وہ شخص اس کے پاس (خلوت میں) جانے سے پہلے مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خاندان کی عورتوں کی مہر کے مطابق اس کی مہر کا فیصلہ کیا اور (بتایا کہ) اسے میراث بھی ملے گی اور عدت بھی گزارے گی۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے (اور خوش ہو کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کا فیصلہ صحیح ہوا) اور اللہ اکبر کہا (یعنی اللہ کی بڑائی بیان کی)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اسود کا ذکر زائدہ کے سوا کسی نے نہیں کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، انه اتي في امراة تزوجها رجل، فمات عنها ولم يفرض لها صداقا، ولم يدخل بها، فاختلفوا إليه قريبا من شهر لا يفتيهم، ثم قال: ارى لها صداق نسائها لا وكس، ولا شطط، ولها الميراث وعليها العدة، فشهد معقل بن سنان الاشجعي ," ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في بروع بنت واشق بمثل ما قضيت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ أُتِيَ فِي امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَجُلٌ، فَمَاتَ عَنْهَا وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ قَرِيبًا مِنْ شَهْرٍ لَا يُفْتِيهِمْ، ثُمَّ قَالَ: أَرَى لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ، وَلَا شَطَطَ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، فَشَهِدَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الْأَشْجَعِيُّ ," أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ بِمِثْلِ مَا قَضَيْتَ".
علقمہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک ایسی عورت کا معاملہ پیش کیا گیا جس سے ایک شخص نے شادی کی اور اس سے خلوت سے پہلے مر گیا، اور اس کی مہر بھی متعین نہ کی تھی (تو اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہو گا؟) لوگ ان کے پاس اس مسئلہ کو پوچھنے کے لیے تقریباً مہینہ بھر سے آتے جاتے رہے، مگر وہ انہیں فتویٰ نہ دیتے۔ پھر ایک دن فرمایا: میری سمجھ میں آتا ہے کہ اس عورت کا مہر اسی کے گھر و خاندان کی عورتوں جیسا ہو گا، نہ کم ہو گا، اور نہ ہی زیادہ، اسے میراث بھی ملے گی اور اسے عدت میں بھی بیٹھنا ہو گا، (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں ایسا ہی فیصلہ دیا تھا جیسا آپ نے دیا ہے۔