(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا بشر بن المفضل، عن يونس، عن الحسن، عن صعصعة بن معاوية، قال: لقيت ابا ذر، قال: قلت حدثني، قال: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من عبد مسلم ينفق من كل مال له زوجين في سبيل الله، إلا استقبلته حجبة الجنة كلهم يدعوه إلى ما عنده" , قلت: وكيف ذلك؟ قال:" إن كانت إبلا فبعيرين وإن كانت بقرا فبقرتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ حَدِّثْنِي، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُنْفِقُ مِنْ كُلِّ مَالٍ لَهُ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا اسْتَقْبَلَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ كُلُّهُمْ يَدْعُوهُ إِلَى مَا عِنْدَهُ" , قُلْتُ: وَكَيْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" إِنْ كَانَتْ إِبِلًا فَبَعِيرَيْنِ وَإِنْ كَانَتْ بَقَرًا فَبَقَرَتَيْنِ".
صعصہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ میری ملاقات ابوذر رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو میں نے ان سے کہا: مجھ سے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے، تو انہوں نے کہا: اچھا (پھر کہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی مسلمان اللہ کے راستے میں اپنا ہر مال جوڑا جوڑا کر کے خرچ کرتا ہے تو جنت کے سبھی دربان اس کا استقبال کریں گے اور ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو گا انہیں دینے کے لیے اسے بلائیں گے“، (صعصعہ کہتے ہیں) میں نے کہا: یہ کیسے ہو گا؟ تو انہوں نے کہا: اگر اونٹ رکھتا ہو تو دو اونٹ دیئے ہوں، اور گائیں رکھتا ہو تو دو گائیں دی ہوں۔
خریم بن فاتک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں سات سو گنا بڑھا کر لکھا گیا“۔
ابومسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مہار والی ایک اونٹنی اللہ کے راستے میں صدقہ میں دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن (اس ایک اونٹنی کے بدلہ میں) سات سو مہار والی اونٹنیوں کے (ثواب) کے ساتھ آئے گا“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان، قال: حدثنا بقية، عن بحير، عن خالد، عن ابي بحرية، عن معاذ بن جبل، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" الغزو غزوان: فاما من ابتغى وجه الله، واطاع الإمام، وانفق الكريمة، وياسر الشريك، واجتنب الفساد، كان نومه ونبهه اجرا كله، واما من غزا رياء وسمعة وعصى الإمام، وافسد في الارض، فإنه لا يرجع بالكفاف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، كَانَ نَوْمُهُ وَنُبْهُهُ أَجْرًا كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد دو طرح کے ہیں: ایک جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا اللہ کی رضا و خوشنودی کا طالب ہو، امام (سردار) کی اطاعت کرے، اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اپنے شریک کو سہولت پہنچائے، اور فساد سے بچے تو اس کا سونا، و جاگنا سب کچھ باعث اجر ہو گا۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا ریاکاری اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امیر (سردار و سپہ سالار) کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد پھیلائے تو وہ برابر سرابر نہیں لوٹے گا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد25 (2515)، (تحفة الأشراف: 11329)، موطا امام مالک/الحج 18 (43) (موقوفا) مسند احمد (5/234)، سنن الدارمی/الجہاد 25 (2461)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4200 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا، بلکہ ہو سکتا ہے الٹا اسے عذاب ہو۔
(مرفوع) اخبرنا حسين بن حريث، ومحمود بن غيلان واللفظ لحسين، قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة امهاتهم، وما من رجل يخلف في امراة رجل من المجاهدين فيخونه فيها، إلا وقف له يوم القيامة، فاخذ من عمله ما شاء فما ظنكم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَاللَّفْظُ لِحُسَيْنٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَخْلُفُ فِي امْرَأَةِ رَجُلٍ مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فَيَخُونُهُ فِيهَا، إِلَّا وُقِفَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَخَذَ مِنْ عَمَلِهِ مَا شَاءَ فَمَا ظَنُّكُمْ".
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد میں جانے والوں کی بیویوں کی عزت و حرمت جہاد میں نہ جانے والوں کے لیے ان کی ماؤں کی عزت و حرمت جیسی ہے ۱؎ جو شخص مجاہدین کی بیویوں کی حفاظت و نگہداشت کے لیے گھر پر رہا اور اس نے کسی مجاہد کی بیوی کے ساتھ خیانت کی تو اسے قیامت کے دن روک رکھا جائے گا، (یعنی اس کا حساب و کتاب اس وقت تک چکتا نہیں کیا جائے گا جب تک کہ) وہ مجاہد اس خائن کے اعمال کا ثواب جس قدر چاہے گا لے (نہ) لے گا۔ تو تمہارا کیا خیال ہے؟“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی مجاہدین کی بیویوں کی عزت و توقیر جہاد پر نہ جانے والوں پر واجب ہے۔ ۲؎: کیا وہ اس کے لیے کچھ چھوڑے گا؟ وہ تو اس کی ساری نیکیاں لے لے گا۔
(مرفوع) اخبرني هارون بن عبد الله، قال: حدثنا حرمي بن عمارة، قال: حدثنا شعبة، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة امهاتهم، وإذا خلفه في اهله فخانه قيل له يوم القيامة هذا خانك في اهلك، فخذ من حسناته ما شئت فما ظنكم". (مرفوع) أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَإِذَا خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ فَخَانَهُ قِيلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَذَا خَانَكَ فِي أَهْلِكَ، فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ فَمَا ظَنُّكُمْ".
بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجاہدین کی بیویاں گھروں پر بیٹھ رہنے والوں کے لیے ویسی ہی حرام ہیں جیسی ان کی مائیں ان کے حق میں حرام ہیں۔ اگر وہ (مجاہد) کسی کو گھر پر (دیکھ بھال کے لیے) چھوڑ گیا اور اس نے اس کی (امانت میں) خیانت کی۔ تو قیامت کے دن اس (مجاہد) سے کہا جائے گا (یہ ہے تیرا مجرم) یہ ہے جس نے تیری بیوی کے تعلق سے تیرے ساتھ خیانت کی ہے۔ تو تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) تمہارا کیا گمان ہے“(کیا وہ کچھ باقی چھوڑے گا؟)۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا قعنب كوفي، عن علقمة بن مرثد، عن ابن بريدة، عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" حرمة نساء المجاهدين على القاعدين في الحرمة كامهاتهم، وما من رجل من القاعدين يخلف رجلا من المجاهدين في اهله إلا نصب له يوم القيامة، فيقال: يا فلان هذا فلان فخذ من حسناته ما شئت" , ثم التفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى اصحابه فقال:" ما ظنكم ترون يدع له من حسناته شيئا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَعْنَبٌ كُوفِيٌّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ فِي الْحُرْمَةِ كَأُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ إِلَّا نُصِبَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: يَا فُلَانُ هَذَا فُلَانٌ فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ" , ثُمَّ الْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ:" مَا ظَنُّكُمْ تُرَوْنَ يَدَعُ لَهُ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْئًا".
بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجاہدین کی بیویوں کی حرمت گھر پر بیٹھ رہنے والوں پر ویسی ہی ہے جیسی ان کی ماؤں کی حرمت ان پر ہے، اگر گھر پر بیٹھ رہنے والے کسی شخص کو کسی مجاہد نے اپنی غیر موجودگی میں اپنی بیوی بچوں کی دیکھ بھال سونپ دی، (اور اس نے اس کے ساتھ خیانت کی) تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور پکار کر کہا جائے گا: اے فلاں! یہ فلاں ہے (تمہارا مجرم آؤ اور) اس کی نیکیوں میں سے جتنا چاہو لے لو“، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ اس کی نیکیوں میں سے کچھ باقی چھوڑے گا؟“۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد کرو اپنے ہاتھوں سے، اپنی زبانوں سے، اور اپنے مالوں کے ذریعہ“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3098 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام کی ترویج و اشاعت، حفاظت و دفاع کے لیے طاقت و تلوار اور زبان و قلم کے استعمال میں اور مال و دولت کے خرچ میں دریغ نہ کرو، مال اور ہاتھ سے جہاد کا مطلب بالکل واضح ہے، زبان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے جہاد کے فضائل بیان کئے جائیں اور لوگوں کو اس پر ابھارنے کے ساتھ انہیں اس کی رغبت دلائی جائے۔ قلم اور خطابت کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کا جواب دیا جائے۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپوں کے مارنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”جو ان کے بدلے (اور انتقام و قصاص) سے ڈرے (اور ان کو نہ مارے) وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا جعفر بن عون، عن ابي عميس، عن عبد الله بن عبد الله بن جبر، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد جبرا، فلما دخل سمع النساء يبكين، ويقلن كنا نحسب وفاتك قتلا في سبيل الله، فقال:" وما تعدون الشهادة إلا من قتل في سبيل الله، إن شهداءكم إذا لقليل القتل في سبيل الله شهادة والبطن شهادة، والحرق شهادة، والغرق شهادة، والمغموم يعني الهدم شهادة، والمجنوب شهادة، والمراة تموت بجمع شهيدة، قال رجل: اتبكين ورسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد؟ قال:" دعهن فإذا وجب فلا تبكين عليه باكية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ جَبْرًا، فَلَمَّا دَخَلَ سَمِعَ النِّسَاءَ يَبْكِينَ، وَيَقُلْنَ كُنَّا نَحْسَبُ وَفَاتَكَ قَتْلًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ:" وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ إِلَّا مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِنَّ شُهَدَاءَكُمْ إِذًا لَقَلِيلٌ الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهَادَةٌ وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالْحَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْمَغْمُومُ يَعْنِي الْهَدِمَ شَهَادَةٌ، وَالْمَجْنُوب شَهَادَةٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدَةٌ، قَالَ رَجُلٌ: أَتَبْكِينَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ؟ قَالَ:" دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ عَلَيْهِ بَاكِيَةٌ".
عبداللہ بن جبر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبر رضی اللہ عنہ کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، جب گھر میں (اندر) پہنچے تو آپ نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی۔ وہ کہہ رہی تھیں: ہم جہاد میں آپ کی شہادت کی تمنا کر رہے تھے (لیکن وہ آپ کو نصیب نہ ہوئی)۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم شہید صرف اسی کو سمجھتے ہو جو جہاد میں قتل کر دیا جائے؟ اگر ایسی بات ہو تو پھر تو تمہارے شہداء کی تعداد بہت تھوڑی ہو گی۔ (سنو) اللہ کے راستے میں مارا جانا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنا شہادت ہے، جل کر مرنا شہادت ہے، ڈوب کر مرنا شہادت ہے، (دیوار وغیرہ کے نیچے) دب کر مرنا شہادت ہے، ذات الجنب یعنی نمونیہ میں مبتلا ہو کر مرنا شہادت ہے، حالت حمل میں مر جانے والی عورت شہید ہے“، ایک شخص نے کہا: تم سب رو رہی ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوڑ دو انہیں کچھ نہ کہو۔ (انہیں رونے دو کیونکہ مرنے سے پہلے رونا منع نہیں ہے) البتہ جب انتقال ہو جائے تو کوئی رونے والی اس پر (زور زور سے) نہ روئے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1847 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کوئی نوحہ کرنے والی اس پر نوحہ نہ کرے، رہ گیا دھیرے دھیرے رونا اور آنسو بہانا تو یہ ایک فطری عمل ہے اسلام اس سے نہیں روکتا۔