(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا جعفر بن عون، عن ابي عميس، عن عبد الله بن عبد الله بن جبر، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد جبرا، فلما دخل سمع النساء يبكين، ويقلن كنا نحسب وفاتك قتلا في سبيل الله، فقال:" وما تعدون الشهادة إلا من قتل في سبيل الله، إن شهداءكم إذا لقليل القتل في سبيل الله شهادة والبطن شهادة، والحرق شهادة، والغرق شهادة، والمغموم يعني الهدم شهادة، والمجنوب شهادة، والمراة تموت بجمع شهيدة، قال رجل: اتبكين ورسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد؟ قال:" دعهن فإذا وجب فلا تبكين عليه باكية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ جَبْرًا، فَلَمَّا دَخَلَ سَمِعَ النِّسَاءَ يَبْكِينَ، وَيَقُلْنَ كُنَّا نَحْسَبُ وَفَاتَكَ قَتْلًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ:" وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ إِلَّا مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِنَّ شُهَدَاءَكُمْ إِذًا لَقَلِيلٌ الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهَادَةٌ وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالْحَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْمَغْمُومُ يَعْنِي الْهَدِمَ شَهَادَةٌ، وَالْمَجْنُوب شَهَادَةٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدَةٌ، قَالَ رَجُلٌ: أَتَبْكِينَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ؟ قَالَ:" دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ عَلَيْهِ بَاكِيَةٌ".
عبداللہ بن جبر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبر رضی اللہ عنہ کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، جب گھر میں (اندر) پہنچے تو آپ نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی۔ وہ کہہ رہی تھیں: ہم جہاد میں آپ کی شہادت کی تمنا کر رہے تھے (لیکن وہ آپ کو نصیب نہ ہوئی)۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم شہید صرف اسی کو سمجھتے ہو جو جہاد میں قتل کر دیا جائے؟ اگر ایسی بات ہو تو پھر تو تمہارے شہداء کی تعداد بہت تھوڑی ہو گی۔ (سنو) اللہ کے راستے میں مارا جانا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنا شہادت ہے، جل کر مرنا شہادت ہے، ڈوب کر مرنا شہادت ہے، (دیوار وغیرہ کے نیچے) دب کر مرنا شہادت ہے، ذات الجنب یعنی نمونیہ میں مبتلا ہو کر مرنا شہادت ہے، حالت حمل میں مر جانے والی عورت شہید ہے“، ایک شخص نے کہا: تم سب رو رہی ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوڑ دو انہیں کچھ نہ کہو۔ (انہیں رونے دو کیونکہ مرنے سے پہلے رونا منع نہیں ہے) البتہ جب انتقال ہو جائے تو کوئی رونے والی اس پر (زور زور سے) نہ روئے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کوئی نوحہ کرنے والی اس پر نوحہ نہ کرے، رہ گیا دھیرے دھیرے رونا اور آنسو بہانا تو یہ ایک فطری عمل ہے اسلام اس سے نہیں روکتا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3196
اردو حاشہ: اس حدیث کا مفہوم پیچھے گزر چکا ہے۔ اعادے کی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ”رونے دے“ دلیل ہے کہ آواز سے رونا میت پر منع ہے، زندہ پرکوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ رونا بطور ہمدردی ہے نہ کہ بطور نوحہ۔ اور نوحہ منع ہے، مطلق رونا نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3196