(مرفوع) اخبرنا محمد بن حاتم، قال: انبانا حبان، قال: انبانا عبد الله، عن عاصم، عن ابي عثمان، عن رجل، قال ابو ذر , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من صام ثلاثة ايام من كل شهر، فقد تم صوم الشهر، او فله صوم الشهر" , شك عاصم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَقَدْ تَمَّ صَوْمُ الشَّهْرِ، أَوْ فَلَهُ صَوْمُ الشَّهْرِ" , شَكَّ عَاصِمٌ".
ابوعثمان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے ہر مہینے میں تین روزہ رکھے تو اس نے (گویا) پورے مہینے کے روزہ رکھے“، یا یہ (فرمایا): ”اس کے لیے پورے مہینے کے روزہ کا ثواب ہے“، عاصم راوی کو یہاں شک ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، مگر ابو عثمان نہدی کا براہ راست سماع ابو ذر رضی الله عنہ سے ثابت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، ضعيف، رجل: مجهول انوار الصحيفه، صفحه نمبر 339
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6685)، مسند احمد 2/90 (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة اور شریک قاضی ضعیف ہیں، لیکن آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے، مہینے کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور اس کے بعد کے قریبی جمعرات کو، پھر اس کے بعد کے جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے)»
ہنیدہ خزاعی کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین کے پاس آیا، اور میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن روزہ رکھتے تھے۔ مہینے کے پہلے کہ دوشنبہ (پیر) کو، پھر جمعرات کو، پھر اس کے بعد کے آنے والے جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15814) (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے)»
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ چار باتیں ایسی ہیں جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے: ۱- عاشوراء کے روزے کو ۲- ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے روزے کو ۱؎۳- ہر مہینہ کے تین روزے ۴- اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں کو۔
(مرفوع) اخبرني احمد بن يحيى، عن ابي نعيم، قال: حدثنا ابو عوانة، عن الحر بن الصياح، عن هنيدة بن خالد، عن امراته، عن بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصوم تسعا من ذي الحجة، ويوم عاشوراء، وثلاثة ايام من كل شهر اول اثنين من الشهر وخميسين". (مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَخَمِيسَيْنِ".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے، عاشوراء کے دن (یعنی دسویں محرم کو) اور ہر مہینے میں تین روزے رکھتے ۱؎ ہر مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور دوسرا اس کے بعد والی جمعرات کو، پھر اس کے بعد والی جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے)»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ذی الحجہ کے پہلے) عشرہ میں روزے رکھتے تھے، اور ہر مہینہ میں تین دن: دوشنبہ (پیر) اور (دو) جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (صحیح) (’’الخمیسین‘‘ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا)»
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے میں تین دن۔ ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو، اور دو اس کے بعد والے دو شنبہ (پیر) کو پھر اس کے بعد والے دوشنبہ (پیر) کو روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (شاذ) (’’حکم دیتے تھے“ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ یہ ہے کہ آپ خود روزے رکھتے تھے)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے دوشنبہ (پیر) کو مکرر رکھنے کا حکم دیا اور اس سے پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ آپ جمعرات کو مکرر رکھتے تھے، ان دونوں روایتوں کے ملانے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مطلوب ان دونوں دنوں میں تین دن روزے ہیں، خواہ وہ دوشنبہ (پیر) کو مکرر کر کے ہوں یا جمعرات کو، واللہ اعلم۔