(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: اخبرني عبد الله بن ابي مليكة، انه سمع محمد بن قيس بن مخرمة , يقول: سمعت عائشة تحدث , قالت: الا احدثكم عني وعن النبي صلى الله عليه وسلم، قلنا: بلى، قالت: لما كانت ليلتي التي هو عندي تعني النبي صلى الله عليه وسلم انقلب فوضع نعليه عند رجليه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فلم يلبث إلا ريثما ظن اني قد رقدت، ثم انتعل رويدا، واخذ رداءه رويدا، ثم فتح الباب رويدا، وخرج رويدا، وجعلت درعي في راسي، واختمرت، وتقنعت إزاري، وانطلقت في إثره حتى جاء البقيع، فرفع يديه ثلاث مرات فاطال، ثم انحرف فانحرفت، فاسرع فاسرعت، فهرول فهرولت، فاحضر فاحضرت، وسبقته فدخلت، فليس إلا ان اضطجعت فدخل , فقال:" ما لك يا عائشة حشيا رابية؟" قالت: لا، قال:" لتخبرني او ليخبرني اللطيف الخبير"، قلت يا رسول الله , بابي انت وامي فاخبرته الخبر، قال:" فانت السواد الذي رايت امامي" , قالت: نعم، فلهزني في صدري لهزة اوجعتني، ثم قال:" اظننت ان يحيف الله عليك ورسوله"، قلت: مهما يكتم الناس فقد علمه الله، قال:" فإن جبريل اتاني حين رايت ولم يدخل علي وقد وضعت ثيابك، فناداني فاخفى منك، فاجبته فاخفيته منك، فظننت ان قد رقدت، وكرهت ان اوقظك، وخشيت ان تستوحشي، فامرني ان آتي البقيع فاستغفر لهم، قلت: كيف اقول يا رسول الله؟ قال:" قولي السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، يرحم الله المستقدمين منا، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ , قَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا، وَخَرَجَ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي، وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَأَطَالَ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ، فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ , فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً؟" قَالَتْ: لَا، قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي" , قَالَتْ: نَعَمْ، فَلَهَزَنِي فِي صَدْرِي لَهْزَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ"، قُلْتُ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ وَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ الْبَقِيعَ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ".
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں: کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ (عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا: ”عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟“ میں نے کہا: کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا: ”تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا: ”وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی“، میں نے عرض کیا: جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے“، میں نے کہا: جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون»”سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے (دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 35 (974)، (تحفة الأشراف: 17593)، مسند احمد 6/221، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 3415، 3416 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرني محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين، قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له , عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن علقمة بن ابي علقمة، عن امه، انها سمعت عائشة تقول: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فلبس ثيابه، ثم خرج , قالت: فامرت جاريتي بريرة تتبعه فتبعته، حتى جاء البقيع فوقف في ادناه ما شاء الله ان يقف، ثم انصرف فسبقته بريرة فاخبرتني، فلم اذكر له شيئا حتى اصبحت، ثم ذكرت ذلك له، فقال:" إني بعثت إلى اهل البقيع لاصلي عليهم". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ خَرَجَ , قَالَتْ: فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17962)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (55)، مسند احمد 6/92 (ضعیف الإسناد) (اس کی راویہ ’’ام علقمہ مرجانہ‘‘ لین الحدیث ہیں)»
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا شريك وهو ابن ابي نمر، عن عطاء، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما كانت ليلتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يخرج في آخر الليل إلى البقيع، فيقول:" السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا وإياكم متواعدون غدا او مواكلون، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، اللهم اغفر لاهل بقيع الغرقد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد»”اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما“۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا حرمي بن عمارة، قال: حدثنا شعبة، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اتى على المقابر , فقال:" السلام عليكم اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، انتم لنا فرط ونحن لكم تبع، اسال الله العافية لنا ولكم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَتَى عَلَى الْمَقَابِرِ , فَقَالَ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ، أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ لَنَا وَلَكُمْ".
بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان آتے تو فرماتے: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون أنتم لنا فرط ونحن لكم تبع أسأل اللہ العافية لنا ولكم»”اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم (عنقریب) تم سے ملنے والے ہیں، تم ہمارے پیش رو ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ میں اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی درخواست کرتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 35 (975)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 36 (1547)، (تحفة الأشراف: 1930)، مسند احمد 5/353، 359) 360، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة 318 (1091) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: لما مات النجاشي , قال النبي صلى الله عليه وسلم:" استغفروا له". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ النَّجَاشِيُّ , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَغْفِرُوا لَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نجاشی (شاہ حبشہ) کا انتقال ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ان کی بخشش کی دعا کرو“۔
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعقوب، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: حدثني ابو سلمة، وابن المسيب، ان ابا هريرة اخبرهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نعى لهم النجاشي صاحب الحبشة في اليوم الذي مات فيه، فقال:" استغفروا لاخيكم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى لَهُمُ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ:" اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شاہ حبشہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ مرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر، اور انہیں سجدہ گاہ بنانے اور ان پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 82 (3236)، سنن الترمذی/الصلاة 122 (320)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 49 (1575) مختصراً، (تحفة الأشراف: 5370)، مسند احمد 1/229، 287، 324، 737 (ضعیف) (اس کے راوی ”ابو صالح باذام مولی ام ھانی‘‘ ضعیف اور مدلس ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (3236) ترمذي (320) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 336
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا انگارے پر بیٹھنا یہاں تک کہ اس کے کپڑے جل جائیں اس کے لیے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 33 (971)، (تحفةا الأشراف: 12662)، قد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 77 (3228)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 45 (1566)، مسند احمد 2/311، 389، 444، 528 (صحیح)»
عمرو بن حزم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ قبروں پر نہ بیٹھو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10727) (صحیح) (اس کے راوی ’’نصر سلمی‘‘ مجہول ہیں، لیکن پچھلی روایت نیز ابو مرثد رضی الله عنہ کی روایت صحیح ہے)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا“۔