سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
103. بَابُ : الأَمْرِ بِالاِسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِينَ
باب: مسلمانوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2039
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ , قَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا، وَخَرَجَ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي، وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَأَطَالَ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ، فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ , فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً؟" قَالَتْ: لَا، قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي" , قَالَتْ: نَعَمْ، فَلَهَزَنِي فِي صَدْرِي لَهْزَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ"، قُلْتُ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ وَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ الْبَقِيعَ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ".
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں: کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ (عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا: ”عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟“ میں نے کہا: کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا: ”تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا: ”وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی“، میں نے عرض کیا: جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے“، میں نے کہا: جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» ”سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے (دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 35 (974)، (تحفة الأشراف: 17593)، مسند احمد 6/221، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 3415، 3416 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2039 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2039
اردو حاشہ:
(1) واقعے کی تفصیلات تو حدیث سے واضح ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ آپ میری باری کی رات کسی اور بیوی کے گھر گئے ہیں، حالانکہ آپ جیسی عادل شخصیت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ یہ تو ظلم ہے اور نبی کی شخصیت اس سے پاک ہوتی ہے۔ غیرت کے جذبات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دھیان اس حقیقت کی طرف نہ جاسکا۔ تبھی آپ نے ان کے سینے پر مکا مار کر انھیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے، اس لیے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر فرمایا: ﴿أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ﴾ کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟
(2) اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ آپ پر بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا واجب تھا، ورنہ باری کی خلاف ورزی ظلم نہ ہوتا مگر اس تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عاادل شخصیت وجوب کے بغیر بھی کسی کا دل نہیں دکھا سکتی تھی۔ آپ کے اخلاق کریمانہ سے بعید تھا کہ آپ کسی کی دل آزاری کرتے۔
(3) معلوم ہوا کہ دعا کے قصد سے قبرستان جانا چاہیے اور لمبی دعا کرنی چاہیے۔ [السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ………] کے علاوہ بھی مزید دعا کرنی جائز ہے۔ علاوہ ازیں ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا ویسے ہی کر لی جائے، دونوں طرح جائز ہے۔
(4) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ عورت بھی زیارتِ قبر کے لیے جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2039
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2041
´مسلمانوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» ”اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2041]
اردو حاشہ:
”سہارا“ کیونکہ قیامت کے دن انبیاء، شہداء، علماء اور صلحاء سفارش کریں گے، نیز ایک دوسرے کے حق میں سچی گواہی بھی دیں گے، ورنہ سہارا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش ہے، نہ شہادت۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2041
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1546
´قبرستان میں پہنچ کر کیا دعا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بكم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم» ”اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1546]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔
غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناً صحیح ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 487، 486/47 وصحیح ابن ماجة، رقم: 1266)
(2)
قبروں کی زیارت مسنون ہے۔
تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔
(3)
قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جا سکتی ہے۔
رات کو بھی جائز ہے۔
(4)
قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔
فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔
کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔
نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔
(5)
السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔
کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔
آج قبروں میں پڑے ہیں۔
ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔
جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعاؤں کے محتاج ہوں گے۔
(6)
دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعاؤں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1498)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1546
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2255
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت نقل کرتےہیں، انہوں نے کہا (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع (اہل مدینہ کا قبرستان) تشریف لے جاتے اور فرماتے: ”اے مومنو کے گھر کے باسیو! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو۔ جس کا تم سے وعدہ تھا آچکا، کل تک تمہیں مہلت ہے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2255]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(غَدًا مُّؤَجَّلُون)
کا مقصد یہ ہے کہ یہاں ابھی مکمل حساب کتاب شروع نہیں ہوا،
اس کے لیے قیامت تک ڈھیل اور مہلت ہے۔
یا دنیا میں جس کل کی مہلت دی گئی تھی وہ آ چکا ہے اورغرقد ایک درخت کا نام ہے جو اہل مدینہ کے قبرستان میں تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2255
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2256
محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب نے ایک دن ساتھیوں سے کہا، کیا میں تمھیں اپنے اور اپنی ماں کے بارے میں بات نہ بتاؤں؟ ساتھیوں نے خیال کیا کہ وہ اپنی ماں مراد لے رہا ہے جس نے اسے جنا ہے، اس نے کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا میں تمھیں اپنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں، توعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب میری وہ رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں ہوتے تھے، آپ گھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2256]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رَيْثَمَا:
اتنی دیر تک۔
(2)
أَجَافَهُ:
اس کو یعنی دروازہ کو بند کر دیا۔
(3)
رُوَيْدًا:
آہستگی سے بند کر دیا۔
(4)
جَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي:
میں نے اپنی کوئی (قمیص) (پہن لی،
سر سے جسم و بدن پر ڈال لی۔
اخْتَمَرْتُ:
میں نے خمار (دوپٹہ)
اوڑھ لیا،
دوپٹہ سے سر ڈھانپ لیا۔
(5)
تَقَنَّعْتُ إِزَارِي:
میں نے اپنی دھوتی باندھ لی،
قیناع اوڑھنی اور دوپٹہ کو کہتے ہیں،
اور تقنع کا معنی ہوا دوپٹہ اوڑھ لیا،
اور یہاں یہ معنی ہوا کہ ازار (دھوتی،
تہبند)
کو جسم کے گرد باندھ لیا۔
(6)
هَرْوَلَ:
دوڑا۔
اور (7)
أَحْضَرَ:
تیز دوڑا۔
حضار میں هرولة سے زیادہ تیزی ہوتی ہے۔
(8)
حَشْيَا:
سانس کا پھولنا،
دوڑ کی بنا پر اس کا اکھڑ جانا اور اس میں تیزی آنا۔
(9)
رَابِيَةً:
پیٹ کا اونچا اور بلند ہونا۔
پیٹ کا سانس کے پھولنے سے پھول جانا۔
(10)
سَوَادُ:
شکل و صورت،
ڈھانچہ،
ہیوئی،
وجود۔
(11)
لَهَدَنِي لَهْدَةً:
زور سے دھکا دیا۔
فوائد ومسائل:
1۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ عالم الغیب نہ تھے،
اس لیے آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نیند اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے اور پھر آگے آگے آنے کا پتہ نہ چل سکا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی یہی سمجھتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر آپﷺ کو مخفی چیز کا پتہ نہیں چل سکتا۔
اور اسی لیے آپ نے فرمایا،
تم خود بتا دو،
یا مجھے اللہ تعالیٰ بتا دے گا۔
2۔
قبرستان جانے کا اصل مقصد یہی ہے کہ مسلمان اموات کے لیے سلامتی اور بخشش کی دعا کی جائے اور ساتھ ہی اپنی موت کو یاد کیا جائے۔
کسی اور مقصد یا غرض کے لیے جانا درست نہیں ہے۔
3۔
قبرستان میں جا کر ہاتھ اٹھا کو طویل وقت تک دعائیں کی جا سکتی ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2256