جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ”یا اس پر لکھا جائے“ کا اضافہ ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ نہی مطلق ہے، اس میں میت کا نام اور اس کی تاریخ وفات تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں، اور اسماء حسنٰی وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں اور یہ سب کچھ منع ہے۔
(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابرا , يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تقصيص القبور، او يبنى عليها، او يجلس عليها احد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا , يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَقْصِيصِ الْقُبُورِ، أَوْ يُبْنَى عَلَيْهَا، أَوْ يَجْلِسَ عَلَيْهَا أَحَدٌ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے ۱؎ یا اس پر عمارت بنانے ۲؎ یا اس پر کسی کے بیٹھنے ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ فضول خرچی ہے اس سے کوئی فائدہ مردے کو نہیں ہوتا، دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ ۲؎: قبہ اور گنبد وغیرہ بنانے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ۳؎: یعنی قضائے حاجت کے ارادے سے بیٹھنے یا بطور سوگ بیٹھنے سے منع فرمایا، یا یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی خاطر ہے کیونکہ اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، ان ثمامة بن شفي حدثه , قال:" كنا مع فضالة بن عبيد بارض الروم، فتوفي صاحب لنا، فامر فضالة بقبره فسوي، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر بتسويتها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ ثُمَامَةَ بْنَ شُفَيٍّ حَدَّثَهُ , قَالَ:" كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَتُوُفِّيَ صَاحِبٌ لَنَا، فَأَمَرَ فَضَالَةُ بِقَبْرِهِ فَسُوِّيَ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِتَسْوِيَتِهَا".
ثمامہ بن شفی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں تھے کہ ہمارا ایک ساتھی وفات پا گیا، تو فضالہ رضی اللہ عنہ نے اس کی قبر (زمین کے برابر کرنے کا) حکم دیا، تو وہ برابر کر دی گئی ۱؎ پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے برابر کرنے کا حکم دیتے سنا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، عن حبيب، عن ابي وائل، عن ابي الهياج، قال: قال علي رضي الله عنه: الا ابعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم،" لا تدعن قبرا مشرفا إلا سويته، ولا صورة في بيت إلا طمستها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" لَا تَدَعَنَّ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ، وَلَا صُورَةً فِي بَيْتٍ إِلَّا طَمَسْتَهَا".
ابوہیاج (حیان بن حصین اسدی) کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا: تم کوئی بھی اونچی قبر نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کر دینا، اور نہ کسی گھر میں کوئی مجسمہ (تصویر) چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن آدم، عن ابن فضيل، عن ابي سنان، عن محارب بن دثار، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي فوق ثلاثة ايام، فامسكوا ما بدا لكم، ونهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء، فاشربوا في الاسقية كلها، ولا تشربوا مسكرا". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَامْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ، فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا، وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا".
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب تم اس کی زیارت کیا کرو ۱؎، اور میں نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا تو اب جب تک جی چاہے رکھو، اور میں نے تمہیں مشک کے علاوہ کسی اور برتن میں نبیذ (پینے) سے منع کیا تھا، تو سارے برتنوں میں پیو (مگر) کسی نشہ آور چیز کو مت پینا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 36 (977)، والأضاحي 5 (1977)، والأشربة 6 (977) (مقتصرا علی الشق الثالث)، سنن ابی داود/الأشربة 7 (3698)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 6 (1870)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 14 (3405)، (تحفة الأشراف: 2001)، مسند احمد 5/350، 355، 356، 357، 361، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4434، 5654، 5657 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قبروں کی زیارت کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ یہ چیز قبر پرستی اور مردوں سے مدد مانگنے اور فریاد کرنے کا ذریعہ نہ بن جائے پھر جب توحید کی تعلیم دلوں میں بیٹھ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن قدامة، قال: حدثنا جرير، عن ابي فروة، عن المغيرة بن سبيع، حدثني عبد الله بن بريدة، عن ابيه، انه كان في مجلس فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" إني كنت نهيتكم ان تاكلوا لحوم الاضاحي إلا ثلاثا فكلوا واطعموا وادخروا ما بدا لكم، وذكرت لكم ان لا تنتبذوا في الظروف الدباء والمزفت والنقير والحنتم انتبذوا فيما رايتم، واجتنبوا كل مسكر ونهيتكم عن زيارة القبور، فمن اراد ان يزور فليزر ولا تقولوا هجرا". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا لُحُومَ الْأَضَاحِيِّ إِلَّا ثَلَاثًا فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَذَكَرْتُ لَكُمْ أَنْ لَا تَنْتَبِذُوا فِي الظُّرُوفِ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِيرِ وَالْحَنْتَمِ انْتَبِذُوا فِيمَا رَأَيْتُمْ، وَاجْتَنِبُوا كُلَّ مُسْكِرٍ وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَزُورَ فَلْيَزُرْ وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا".
بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا (تو اب تم) کھاؤ، کھلاؤ اور جب تک جی چاہے رکھ چھوڑو، اور میں نے تم سے ذکر کیا تھا کہ کدو کی تمبی، تار کول ملے ہوئے، اور لکڑی کے اور سبز اونچے گھڑے کے برتنوں میں نبیذ نہ بناؤ، (مگر اب) جس میں مناسب سمجھو بناؤ، اور ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو، اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا (تو اب) جو بھی زیارت کرنا چاہے کرے، البتہ تم زبان سے بری بات نہ کہو“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا محمد بن عبيد، عن يزيد بن كيسان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال: زار رسول الله صلى الله عليه وسلم قبر امه، فبكى وابكى من حوله وقال:" استاذنت ربي عز وجل في ان استغفر لها فلم يؤذن لي، واستاذنت في ان ازور قبرها فاذن لي، فزوروا القبور، فإنها تذكركم الموت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: زَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ، فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ وَقَالَ:" اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُ فِي أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لِي، فَزُورُوا الْقُبُورَ، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمُ الْمَوْتَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، تو آپ خود رو پڑے اور جو آپ کے اردگرد تھے انہیں بھی رلا دیا، اور فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ میں ان کے لیے مغفرت طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں ملی، (تو پھر) میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی گئی، تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا محمد وهو ابن ثور، عن معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابيه، قال: لما حضرت ابا طالب الوفاة، دخل عليه النبي صلى الله عليه وسلم وعنده ابو جهل وعبد الله بن ابي امية , فقال:" اي عم , قل لا إله إلا الله، كلمة احاج لك بها عند الله عز وجل" , فقال له ابو جهل، وعبد الله بن ابي امية: يا ابا طالب , اترغب عن ملة عبد المطلب، فلم يزالا يكلمانه حتى كان آخر شيء كلمهم به على ملة عبد المطلب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" لاستغفرن لك ما لم انه عنك فنزلت ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين سورة التوبة آية 113 ونزلت إنك لا تهدي من احببت سورة القصص آية 56. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ , فَقَالَ:" أَيْ عَمِّ , قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" , فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ , أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالَا يُكَلِّمَانِهِ حَتَّى كَانَ آخِرُ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سورة التوبة آية 113 وَنَزَلَتْ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ سورة القصص آية 56.
مسیب بن حزن رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں ان کے پاس (پہلے سے موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: ”چچا جان! آپ «لا إله إلا اللہ» کا کلمہ کہہ دیجئیے، میں اس کے ذریعہ آپ کے لیے اللہ عزوجل کے پاس جھگڑوں گا“، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں نے ان سے کہا: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لو گے؟ پھر وہ دونوں ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو عبدالمطلب نے ان سے کی وہ یہ تھی کہ (میں) عبدالمطلب کے دین پر ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”میں آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے روک نہ دیا جائے“، تو یہ آیت اتری ۱؎: «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين»”نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں“(التوبہ: ۱۱۳) نیز یہ آیت اتری: «إنك لا تهدي من أحببت»”آپ جسے چاہیں ہدایت کے راستہ پر نہیں لا سکتے“(القص: ۵۶)۔
وضاحت: ۱؎: یہاں ایک مشکل یہ ہے کہ ابوطالب کی موت ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، اور سورۃ برأت جس کی یہ آیت ہے ان سورتوں میں سے جو مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ آیت کا نزول آپ کے «لأستغفرن لك ما لم أنه عنك» کہنے کے بعد فوراً ہوا، بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ نزول کا سبب ہے «فنزلت» میں «فاء» سبب بیان کرنے کے لیے ہے نہیں کہ بلکہ «تعقیب» یعنی بعد میں واقع ہونے کی خبر کے لیے ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي الخليل، عن علي، قال: سمعت رجلا يستغفر لابويه وهما مشركان، فقلت: اتستغفر لهما وهما مشركان، فقال: او لم يستغفر إبراهيم لابيه، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم , فذكرت ذلك له فنزلت وما كان استغفار إبراهيم لابيه إلا عن موعدة وعدها إياه سورة التوبة آية 114. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقُلْتُ: أَتَسْتَغْفِرُ لَهُمَا وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقَالَ: أَوَ لَمْ يَسْتَغْفِرْ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لأَبِيهِ إِلا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ سورة التوبة آية 114.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں میں نے ایک شخص کو اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو میں نے کہا: کیا تو ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے؟ حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو اس نے کہا: کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا، تو (یہ آیت) اتری: «وما كان استغفار إبراهيم لأبيه إلا عن موعدة وعدها إياه»”ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب کرنا ایک وعدہ کی وجہ سے تھا“(التوبہ: ۱۱۴)۔