(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني عبد الله بن يزيد , وابو النضر , عن ابي سلمة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" يصلي وهو جالس فيقرا وهو جالس، فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين او اربعين آية قام فقرا وهو قائم، ثم ركع ثم سجد، ثم يفعل في الركعة الثانية مثل ذلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ , وَأَبُو النَّضْرِ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرَ مَا يَكُونُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ يَفْعَلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور بیٹھے ہوتے، اور قرآت کرتے اور بیٹھے ہوتے، پھر جب آپ کی قرآت میں تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر باقی رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے، اور کھڑے ہو کر قرآت کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں (بھی) ایسے ہی کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 20 (1119)، التھجد 16 (1148)، صحیح مسلم/المسافرین 16 (731)، سنن ابی داود/الصلاة 179 (954)، سنن الترمذی/الصلاة 159 (374)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة 140 (1227)، (تحفة الأشراف: 17709)، موطا امام مالک/الجماعة 7 (23)، مسند احمد 6/178 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عيسى بن يونس، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى جالسا حتى دخل في السن، فكان يصلي وهو جالس يقرا، فإذا غبر من السورة ثلاثون او اربعون آية قام فقرا بها ثم ركع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى جَالِسًا حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ يَقْرَأُ، فَإِذَا غَبَرَ مِنَ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ بِهَا ثُمَّ رَكَعَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہو یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہو گئے، تو (جب آپ بوڑھے ہو گئے) تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھ کر قرآت کرتے، پھر جب سورۃ میں سے تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو ان کی قرآت کھڑے ہو کر کرتے، پھر رکوع کرتے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآت کرتے اور بیٹھے ہوتے، تو جب آپ رکوع کرنا چاہتے تو آدمی کے چالیس آیتیں پڑھنے کے بقدر (باقی رہنے پر) کھڑے ہو جاتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 16 (731)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 140 (1226)، (تحفة الأشراف: 17950)، مسند احمد 6/217 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن عبد الاعلى، قال: حدثنا هشام، عن الحسن، عن سعد بن هشام بن عامر، قال: قدمت المدينة فدخلت على عائشة رضي الله عنها، قالت: من انت؟ قلت: انا سعد بن هشام بن عامر , قالت: رحم الله اباك , قلت: اخبريني عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان وكان , قلت: اجل , قالت:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل صلاة العشاء ثم ياوي إلى فراشه فينام، فإذا كان جوف الليل قام إلى حاجته وإلى طهوره فتوضا ثم دخل المسجد، فيصلي ثماني ركعات يخيل إلي انه يسوي بينهن في القراءة والركوع والسجود ويوتر بركعة، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، ثم يضع جنبه فربما جاء بلال فآذنه بالصلاة قبل ان يغفي وربما يغفي وربما شككت اغفى او لم يغف حتى يؤذنه بالصلاة، فكانت تلك صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اسن ولحم، فذكرت من لحمه ما شاء الله , قالت: وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس العشاء ثم ياوي إلى فراشه , فإذا كان جوف الليل قام إلى طهوره وإلى حاجته فتوضا ثم يدخل المسجد، فيصلي ست ركعات يخيل إلي انه يسوي بينهن في القراءة والركوع والسجود ثم يوتر بركعة، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، ثم يضع جنبه وربما جاء بلال فآذنه بالصلاة قبل ان يغفي وربما اغفى وربما شككت اغفى ام لا حتى يؤذنه بالصلاة , قالت: فما زالت تلك صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قال: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا سَعْدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ , قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَاكَ , قُلْتُ: أَخْبِرِينِي عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ وَكَانَ , قُلْتُ: أَجَلْ , قَالَتْ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ فَيَنَامُ، فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى حَاجَتِهِ وَإِلَى طَهُورِهِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَاءَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ فَرُبَّمَا جَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ وَرُبَّمَا يُغْفِي وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَوْ لَمْ يُغْفِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ، فَكَانَتْ تِلْكَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسَنَّ وَلُحِمَ، فَذَكَرَتْ مِنْ لَحْمِهِ مَا شَاءَ اللَّهُ , قَالَتْ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ , فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى طَهُورِهِ وَإِلَى حَاجَتِهِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي سِتَّ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَاءَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ وَرُبَّمَا جَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ وَرُبَّمَا أَغْفَى وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَمْ لَا حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ , قَالَتْ: فَمَا زَالَتْ تِلْكَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں میں مدینہ آیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعد بن ہشام بن عامر ہوں، انہوں نے کہا: اللہ تمہارے باپ پر رحم کرے، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق کچھ بتائیے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ایسا کرتے تھے، میں نے کہا: اچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں عشاء کی نماز پڑھتے تھے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف آتے اور سو جاتے، پھر جب آدھی رات ہوتی، تو قضائے حاجت کے لیے اٹھتے اور وضو کے پانی کے پاس آتے، اور وضو کرتے، پھر مسجد آتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، تو پھر ایسا محسوس ہوتا کہ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے سب برابر برابر ہیں، اور ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر آپ اپنے پہلو کے بل لیٹ جاتے، تو کبھی اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ لگے بلال رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آپ کی آنکھ لگ جاتی، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ سوئے یا نہیں سوئے یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی، یہاں تک کہ آپ عمردراز ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا، پھر انہوں نے آپ کے جسم پر گوشت چڑھنے کا حال بیان کیا جو اللہ نے چاہا، وہ کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے، پھر اپنے بچھونے کی طرف آتے، تو جب آدھی رات ہو جاتی تو آپ اپنی پاکی اور حاجت کے لیے اٹھ کر جاتے، پھر وضو کرتے، پھر مسجد آتے تو چھ رکعتیں پڑھتے، ایسا محسوس ہوتا کہ آپ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے میں برابری رکھتے ہیں، پھر آپ ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، پھر اپنے پہلو کے بل لیٹتے تو کبھی بلال رضی اللہ عنہ آپ کی آنکھ لگنے سے پہلے ہی آ کر نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آنکھ لگ جانے پر آتے، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ کی آنکھ لگی یا نہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، وہ کہتی ہیں: تو برابر یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رہی۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن حديث ابي عاصم، قال: حدثنا عمر بن ابي زائدة، قال: حدثني ابو إسحاق، عن الاسود، عن عائشة، قالت:" ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمتنع من وجهي وهو صائم، وما مات حتى كان اكثر صلاته قاعدا، ثم ذكرت كلمة معناها إلا المكتوبة، وكان احب العمل إليه ما دام عليه الإنسان وإن كان يسيرا" , خالفه يونس , رواه عن ابي إسحاق، عن الاسود، عن ام سلمة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ، قال: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَنِعُ مِنْ وَجْهِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَمَا مَاتَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا، ثُمَّ ذَكَرَتْ كَلِمَةً مَعْنَاهَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ الْإِنْسَانُ وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا" , خَالَفَهُ يُونُسُ , رَوَاهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ۱؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16032)، مسند احمد 6/113، 250 (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی روزے کی حالت میں بوسہ وغیرہ لینے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن سلم البلخي، قال: حدثنا النضر، قال: انبانا يونس، عن ابي إسحاق، عن الاسود، عن ام سلمة، قالت:" ما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان اكثر صلاته جالسا إلا المكتوبة" , خالفه شعبة وسفيان، وقالا: عن ابي إسحاق، عن ابي سلمة، عن ام سلمة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْبَلْخِيُّ، قال: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قال: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" مَا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ جَالِسًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ" , خَالَفَهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ، وَقَالَا: عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے۔ شعبہ اور سفیان نے یونس بن شریک کی مخالفت کی ہے، ان دونوں نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ام سلمہ سے روایت کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 18145)، مسند احمد 6/297، وانظر مایأتی (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)»
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، حدثنا خالد، عن شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت ابا سلمة، عن ام سلمة، قالت:" ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان اكثر صلاته قاعدا إلا الفريضة، وكان احب العمل إليه ادومه وإن قل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قال: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الْفَرِيضَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ وَإِنْ قَلَّ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی اکثر و بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن عبد الصمد، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي سلمة، عن ام سلمة، قالت:" والذي نفسي بيده , ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان اكثر صلاته قاعدا إلا المكتوبة، وكان احب العمل إليه ما داوم عليه وإن قل" , خالفه عثمان بن ابي سليمان فرواه، عن ابي سلمة، عن عائشة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ" , خَالَفَهُ عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ فَرَوَاهُ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے، اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ عثمان بن ابی سلیمان نے ابواسحاق کی مخالفت کی ہے انہوں نے اسے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مخالفت اس طرح ہے کہ عثمان نے ام سلمہ کی جگہ عائشہ کا ذکر کیا ہے۔
ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے عثمان بن ابی سلیمان نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابوسلمہ نے انہیں خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ اپنی بیشتر نمازیں بیٹھ کر پڑھنے لگے تھے۔
عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، اس کے بعد کہ لوگوں نے آپ پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو کمزور کر دیا۔