زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (شروع میں) آدمی نماز میں اپنے ساتھ والے سے ضرورت کی باتیں کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين»”محافظت کرو نمازوں کی، اور بیچ والی نماز کی، اور اللہ کے لیے خاموش کھڑے رہو“ نازل ہوئی تو (اس کے بعد سے) ہمیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا (البقرہ: ۲۳۸)۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا، اور آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو میں آپ کو سلام کرتا، تو آپ مجھے جواب دیتے، (ایک بار) میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، جب آپ نے سلام پھیرا، تو لوگوں کی طرف اشارہ کیا، اور فرمایا: ”اللہ نے نماز میں ایک نیا حکم دیا ہے کہ تم لوگ (نماز میں) سوائے ذکر الٰہی اور مناسب دعاؤں کے کوئی اور گفتگو نہ کرو، اور اللہ کے لیے یکسو ہو کر کھڑے رہا کرو“۔
(مرفوع) اخبرنا الحسين بن حريث، قال: حدثنا سفيان، عن عاصم، عن ابي وائل، عن ابن مسعود، قال: كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فيرد علينا السلام , حتى قدمنا من ارض الحبشة فسلمت عليه فلم يرد علي , فاخذني ما قرب وما بعد فجلست حتى إذا قضى الصلاة , قال:" إن الله عز وجل يحدث من امره ما يشاء , وإنه قد احدث من امره ان لا يتكلم في الصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا السَّلَامَ , حَتَّى قَدِمْنَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ , فَأَخَذَنِي مَا قَرُبَ وَمَا بَعُدَ فَجَلَسْتُ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ , قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ , وَإِنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا يُتَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے، تو آپ ہمیں سلام کا جواب دیتے تھے، یہاں تک کہ ہم سر زمین حبشہ سے واپس آئے تو میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، تو مجھے نزدیک و دور کی فکر لاحق ہوئی ۱؎ لہٰذا میں بیٹھ گیا یہاں تک کہ جب آپ نے نماز ختم کر لی تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے نیا حکم دیتا ہے، اب اس نے یہ نیا حکم دیا ہے کہ (اب) نماز میں گفتگو نہ کی جائے“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن الاعرج، عن عبد الله ابن بحينة، قال:" صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين، ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه , فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه , كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم، ثم سلم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ:" صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَجْلِسْ فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ , فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَنَظَرْنَا تَسْلِيمَهُ , كَبَّرَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ، ثُمَّ سَلَّمَ".
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر آپ کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں، تو لوگ (بھی) آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جب آپ نے نماز مکمل کر لی، اور ہم آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے، تو آپ نے اللہ اکبر کہا، اور سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے، پھر آپ نے سلام پھیرا۔
عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے حالانکہ آپ کو تشہد کے لیے بیٹھنا چاہیئے تھا، تو آپ نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے۔
(مرفوع) اخبرنا حميد بن مسعدة، قال: حدثنا يزيد وهو ابن زريع , قال: حدثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، قال: قال ابو هريرة: صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتي العشي , قال: قال ابو هريرة: ولكني نسيت , قال: فصلى بنا ركعتين، ثم سلم فانطلق إلى خشبة معروضة في المسجد , فقال: بيده عليها كانه غضبان وخرجت السرعان من ابواب المسجد , فقالوا: قصرت الصلاة وفي القوم ابو بكر وعمر رضي الله عنهما , فهاباه ان يكلماه وفي القوم رجل في يديه طول , قال: كان يسمى ذا اليدين , فقال: يا رسول الله , انسيت ام قصرت الصلاة , قال:" لم انس ولم تقصر الصلاة" , قال: وقال:" اكما قال ذو اليدين" , قالوا: نعم ," فجاء فصلى الذي كان تركه، ثم سلم، ثم كبر فسجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع راسه وكبر، ثم كبر، ثم سجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع راسه ثم كبر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ , قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَلَكِنِّي نَسِيتُ , قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ فَانْطَلَقَ إِلَى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ فِي الْمَسْجِدِ , فَقَالَ: بِيَدِهِ عَلَيْهَا كَأَنَّهُ غَضْبَانُ وَخَرَجَتِ السَّرَعَانُ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ , فَقَالُوا: قُصِرَتِ الصَّلَاةُ وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , فَهَابَاهُ أَنْ يُكَلِّمَاهُ وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ فِي يَدَيْهِ طُولٌ , قَالَ: كَانَ يُسَمَّى ذَا الْيَدَيْنِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَسِيتَ أَمْ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ , قَالَ:" لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرِ الصَّلَاةُ" , قَالَ: وَقَالَ:" أَكَمَا قَالَ ذُو الْيَدَيْنِ" , قَالُوا: نَعَمْ ," فَجَاءَ فَصَلَّى الَّذِي كَانَ تَرَكَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ، ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ كَبَّرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو شام کی دونوں نمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی، لیکن میں بھول گیا (کہ آپ نے کون سی نماز پڑھائی تھی) تو آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، پھر آپ مسجد میں لگی ایک لکڑی کی جانب گئے، اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گویا آپ غصہ میں ہیں، اور جلد باز لوگ مسجد کے دروازے سے نکل گئے، اور کہنے لگے: نماز کم کر دی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم (بھی) تھے، لیکن وہ دونوں ڈرے کہ آپ سے اس سلسلہ میں پوچھیں، لوگوں میں ایک شخص تھے جن کے دونوں ہاتھ لمبے تھے، انہیں ”ذوالیدین“(دو ہاتھوں والا) کہا جاتا تھا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز ہی کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ تو میں بھولا ہوں، اور نہ نماز ہی کم کی گئی ہے“، آپ نے (لوگوں سے) پوچھا: ”کیا ایسا ہی ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہے ہیں؟“ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، (ایسا ہی ہے) چنانچہ آپ (مصلے پر واپس آئے) اور وہ (دو رکعتیں) پڑھیں جنہیں آپ نے چھوڑ دیا تھا، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا اور اپنے سجدوں کے جیسا یا ان سے لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور اللہ اکبر کہا، اور اپنے سجدوں کی طرح یا ان سے لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا پھر اللہ اکبر کہا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني ايوب، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , انصرف من اثنتين , فقال له ذو اليدين: اقصرت الصلاة ام نسيت يا رسول الله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اصدق ذو اليدين" , فقال الناس: نعم , فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ," فصلى اثنتين، ثم سلم، ثم كبر فسجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع راسه، ثم سجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ , فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ" , فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ , فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی رکعت پر نماز ختم کر دی، تو آپ سے ذوالیدین نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پھر آپ نے دو (رکعت مزید) پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہہ کر اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، پھر اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے لمبا دوسرا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن داود بن الحصين، عن ابي سفيان مولى ابن ابي احمد , انه قال: سمعت ابا هريرة , يقول: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العصر فسلم في ركعتين , فقام ذو اليدين , فقال: اقصرت الصلاة يا رسول الله ام نسيت , فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كل ذلك لم يكن" , فقال: قد كان بعض ذلك يا رسول الله , فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس , فقال:" اصدق ذو اليدين" , فقالوا: نعم , فاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بقي من الصلاة، ثم سجد سجدتين وهو جالس بعد التسليم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ , أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ , فَقَامَ ذُو الْيَدَيْنِ , فَقَالَ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ نَسِيتَ , فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ" , فَقَالَ: قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ , فَقَالَ:" أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ" , فَقَالُوا: نَعَمْ , فَأَتَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ التَّسْلِيمِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، تو دو ہی رکعت میں سلام پھیر دیا، ذوالیدین کھڑے ہوئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ان دونوں میں سے) کوئی بات بھی نہیں ہوئی ہے“، ذوالیدین نے کہا: اللہ کے رسول! ان دونوں میں سے کوئی ایک بات ضرور ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور آپ نے ان سے پوچھا: ”کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، (سچ کہہ رہے ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سے جو رہ گیا تھا، اسے پورا، کیا پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 19 (573)، موطا امام مالک/الصلاة 15 (59)، مسند احمد 2/447، 459، 532، (تحفة الأشراف: 14944) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر دو رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، تو لوگ کہنے لگے کہ نماز کم کر دی گئی ہے، تو آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکعت مزید پڑھائی، پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے۔
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن حماد، قال: حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن عمران بن ابي انس، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلى يوما فسلم في ركعتين، ثم انصرف فادركه ذو الشمالين , فقال: يا رسول الله , انقصت الصلاة ام نسيت , فقال:" لم تنقص الصلاة ولم انس" , قال: بلى , والذي بعثك بالحق , قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اصدق ذو اليدين" , قالوا: نعم , فصلى بالناس ركعتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى يَوْمًا فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَدْرَكَهُ ذُو الشِّمَالَيْنِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنُقِصَتِ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ , فَقَالَ:" لَمْ تُنْقَصِ الصَّلَاةُ وَلَمْ أَنْسَ" , قَالَ: بَلَى , وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ , قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ" , قَالُوا: نَعَمْ , فَصَلَّى بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی تو آپ نے دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، پھر جانے لگے تو آپ کے پاس ذوالشمالین ۱؎ آئے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”نہ تو نماز کم کی گئی ہے اور نہ ہی میں بھولا ہوں“، اس پر انہوں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ان دونوں میں سے ضرور کوئی ایک بات ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں سے) پوچھا: ”کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دو رکعتیں اور پڑھائیں۔
وضاحت: ۱؎: ذوالشمالین کا نام عمیر بن عبد عمرو اور کنیت ابو محمد ہے، یہ غزوہ بدر میں شہید کر دئیے گئے تھے، اور ذوالیدین کا نام خرباق اور کنیت ابو العریان ہے، ان کی وفات عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی، سہو والے واقعہ میں ذوالشمالین کا ذکر راوی کا وہم ہے، صحیح ذوالیدین ہے، بعض لوگوں نے دونوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو صحیح نہیں۔