سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
The Book of the Commencement of the Prayer
حدیث نمبر: 917
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا علي بن حجر قال: حدثنا شريك، عن ابي إسحاق، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس في قوله عز وجل سبعا من المثاني سورة الحجر آية 87 قال:" السبع الطول".
(موقوف) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قال: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلّ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي سورة الحجر آية 87 قَالَ:" السَّبْعُ الطُّوَلُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ عزوجل کے قول: «سبعا من المثاني» کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد سات لمبی سورتیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5590) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف اور ابو اسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن لغیرہ ہے، اور اصل حدیث صحیح ہے کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 5/200، رقم: 1312) اور مشہور حسن کے نسخے میں ضعیف لکھا ہے اور حوالہ صحیح ابی داود کا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس کی سند میں ضعف ہے اور اصل حدیث صحیح ہے۔»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو إسحاق عنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 327
27. بَابُ: تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا لَمْ يَجْهَرْ فِيهِ
27. باب: سری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔
Chapter: Not reciting behind the imam in prayers where he does not recite loudly
حدیث نمبر: 918
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن زرارة، عن عمران بن حصين، قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر فقرا رجل خلفه سبح اسم ربك الاعلى فلما صلى قال:" من قرا سبح اسم ربك الاعلى"، قال رجل: انا قال:" قد علمت ان بعضكم قد خالجنيها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قال: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَلَمَّا صَلَّى قَالَ:" مَنْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى"، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا قَالَ:" قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی تو ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو پوچھا: سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» کس نے پڑھی؟ تو اس آدمی نے عرض کیا: میں نے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 12 (398)، سنن ابی داود/الصلاة 138 (828)، (تحفة الأشراف: 10825)، مسند احمد 4/426، 431، 433، 441، ویأتی عند المؤلف برقم: 1745 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 919
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الظهر او العصر ورجل يقرا خلفه فلما انصرف قال:" ايكم قرا بسبح اسم ربك الاعلى" فقال رجل من القوم: انا ولم ارد بها إلا الخير فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد عرفت ان بعضكم قد خالجنيها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ وَرَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:" أَيُّكُمْ قَرَأَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر پڑھائی، اور ایک آدمی آپ کے پیچھے قرآت کر رہا تھا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو پوچھا: تم میں سے سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» کس نے پڑھی ہے؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں نے، اور میری نیت صرف خیر کی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے بعض نے مجھ سے سورۃ پڑھنے میں خلجان میں دال دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: خلجان مطلق سورۃ فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ زور سے پڑھنے کی وجہ سے ہوا، یہی بات قرین قیاس ہے بلکہ حتمی ہے، اس لیے اس حدیث سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر استدلال واضح نہیں ہے، نیز عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث (رقم: ۹۲۱) سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ نے باضابطہٰ سورۃ فاتحہ پڑھنے کی صراحت فرما دی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
28. بَابُ: تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ بِهِ
28. باب: جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔
Chapter: Not reciting behind the imam in a rak'ah where he recites out loud
حدیث نمبر: 920
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابن اكيمة الليثي، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال:" هل قرا معي احد منكم آنفا" قال رجل: نعم يا رسول الله قال:" إني اقول ما لي انازع القرآن" قال: فانتهى الناس عن القراءة فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلاة حين سمعوا ذلك.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ:" هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا" قَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:" إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ" قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ مِنَ الصَّلَاةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے؟ تو ایک شخص نے کہا: جی ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے۔ زہری کہتے ہیں: جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 137 (826)، سنن الترمذی/الصلاة 117 (312)، سنن ابن ماجہ/إقامة 13 (848، 849)، (تحفة الأشراف: 14264)، موطا امام مالک/الصلاة 10 (44)، مسند احمد 2/240، 284، 285، 301، 302، 487 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ قول کہ جب لوگوں نے … زہری کا ہے، ائمہ حدیث نے اس کی تصریح کر دی ہے، اور زہری تابعی صغیر ہیں، وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، ان کی یہ روایت مرسل ہے، اور مرسل ضعیف کی قسموں میں سے ہے، یا اس کا یہ معنی ہے کہ لوگ زور سے قرات کرتے تھے، اسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلجان ہوتا تھا، اور خلجان کا واقعہ جہری سری دونوں میں پیش آیا ہے (جیسا کہ حدیث رقم: ۹۱۸ میں گزرا) اس واقعہ کے بعد لوگ زور سے قرات کرنے سے رک گئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
29. بَابُ: قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ بِهِ الإِمَامُ
29. باب: جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Reciting Umm Al-Quran (Al Fatihah) behind the imam in rak'ahs where the imam recites out
حدیث نمبر: 921
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا هشام بن عمار، عن صدقة، عن زيد بن واقد، عن حرام بن حكيم، عن نافع بن محمود بن ربيعة، عن عبادة بن الصامت، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعض الصلوات التي يجهر فيها بالقراءة فقال:" لا يقران احد منكم إذا جهرت بالقراءة إلا بام القرآن".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قال: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ:" لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 136 (824) مطولاً، (تحفة الأشراف: 5116)، مسند احمد 5/313، 316، 322 (حسن صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت حسن صحیح ہے، بعض ائمہ نے محمود میں کچھ کلام کیا ہے، جب کہ بہت سوں نے ان کی توثیق کی ہے، نیز وہ اس روایت میں منفرد بھی نہیں ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
30. بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ}
30. باب: آیت کریمہ: ”اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو“ (الاعراف: ۲۰۴) کی تفسیر۔
Chapter: The interpretation of the saying of Allah, the Mighty and Sublime: So, when the Quran is
حدیث نمبر: 922
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا الجارود بن معاذ الترمذي قال: حدثنا ابو خالد الاحمر، عن محمد بن عجلان، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرا فانصتوا وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا اللهم ربنا لك الحمد".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قال: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ۱؎، اور جب «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «اللہم ربنا لك الحمد» کہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 69 (604)، سنن ابن ماجہ/إقامة 13 (846) مطولاً، (تحفة الأشراف: 12317)، مسند احمد 2/376، 420، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 74 (722)، 82 (734)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (414)، سنن الدارمی/فیہ 71 (1350) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورۃ فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت «و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» والی حدیث سے استثناء بھی آ گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 923
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك قال: حدثنا محمد بن سعد الانصاري قال: حدثني محمد بن عجلان، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرا فانصتوا" قال ابو عبد الرحمن: كان المخرمي يقول هو ثقة يعني محمد بن سعد الانصاري.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قال: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا" قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كَانَ الْمُخَرِّمِيُّ يَقُولُ هُوَ ثِقَةٌ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مخرمی کہتے تھے: وہ یعنی محمد بن سعد الانصاری ثقہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
31. بَابُ: اكْتِفَاءِ الْمَأْمُومِ بِقِرَاءَةِ الإِمَامِ
31. باب: امام کی قرأت مقتدی کے لیے کافی ہے۔
Chapter: The Imam's recitation is sufficient for the one who is following him
حدیث نمبر: 924
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرني هارون بن عبد الله قال: حدثنا زيد بن الحباب قال: حدثنا معاوية بن صالح قال: حدثني ابو الزاهرية قال: حدثني كثير بن مرة الحضرمي، عن ابي الدرداء سمعه يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: افي كل صلاة قراءة، قال:" نعم" قال رجل من الانصار: وجبت هذه فالتفت إلي وكنت اقرب القوم منه فقال:" ما ارى الإمام إذا ام القوم إلا قد كفاهم". قال ابو عبد الرحمن: هذا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا إنما هو قول ابي الدرداء ولم يقرا هذا مع الكتاب.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ قال: حَدَّثَنِي أَبُو الزَّاهِرِيَّةِ قال: حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ سَمِعَهُ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفِي كُلِّ صَلَاةٍ قِرَاءَةٌ، قَالَ:" نَعَمْ" قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: وَجَبَتْ هَذِهِ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَكُنْتُ أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِنْهُ فَقَالَ:" مَا أَرَى الْإِمَامَ إِذَا أَمَّ الْقَوْمَ إِلَّا قَدْ كَفَاهُمْ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَأٌ إِنَّمَا هُوَ قَوْلُ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَلَمْ يُقْرَأْ هَذَا مَعَ الْكِتَابِ.
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا ہر نماز میں قرآت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! (اس پر) انصار کے ایک شخص نے کہا: یہ (قرآت) واجب ہو گئی، تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہوئے اور حال یہ تھا کہ میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھا، تو انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ امام جب لوگوں کی امامت کرے تو (امام کی قرآت) انہیں بھی کافی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا غلط ہے، یہ تو صرف ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اور اسے اس کتاب کے ساتھ انہوں نے نہیں پڑھا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10959)، مسند احمد 5/197، 6/448 وأخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة 11 (842)، (من طریق أبی ادریس الخولانی إلی قولہ: وجب ھذا) (حسن الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یہ مؤلف کے شاگرد ابوبکر ابن السنی کا قول ہے، یعنی ابن السنی نے مؤلف پر اس کتاب کو پڑھتے وقت یہ حدیث نہیں پڑھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد والموقوف منه فالتفت إلي

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، شاذ وهم زيد بن حباب فى رفعه كما صرح به الدارقطني والبيهقي (2/ 163) والحاكم وغيرهم. والموقوف هو الصواب. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 327
32. بَابُ: مَا يُجْزِئُ مِنَ الْقِرَاءَةِ لِمَنْ لاَ يُحْسِنُ الْقُرْآنَ
32. باب: جو قرآن اچھی طرح نہ پڑھ سکے تو اسے کیا پڑھنا کافی ہو گا؟
Chapter: What recitation is sufficient for one who cannot recite Quran well
حدیث نمبر: 925
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا يوسف بن عيسى، ومحمود بن غيلان، عن الفضل بن موسى قال: حدثنا مسعر، عن إبراهيم السكسكي، عن ابن ابي اوفى، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني لا استطيع ان آخذ شيئا من القرآن فعلمني شيئا يجزئني من القرآن، فقال:" قل سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى قال: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قال: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يُجْزِئُنِي مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ:" قُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: میں قرآن کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا، تو مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو میرے لیے قرآن کے بدلے کافی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ واللہ أكبر ولا حول ولا قوة إلا باللہ» اللہ پاک ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور طاقت و قوت صرف اللہ ہی کی توفیق سے ہے پڑھ لیا کرو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 139 (832) مطولاً، (تحفة الأشراف: 5150)، مسند احمد 4/353، 356، 382 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
33. بَابُ: جَهْرِ الإِمَامِ بِآمِينَ
33. باب: امام کے زور سے آمین کہنے کا بیان۔
Chapter: Imam saying Amin out loud
حدیث نمبر: 926
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان قال: حدثنا بقية، عن الزبيدي، قال: اخبرني الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا امن القارئ فامنوا فإن الملائكة تؤمن فمن وافق تامينه تامين الملائكة غفر الله له ما تقدم من ذنبه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قال: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، قال: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قاری (امام) آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جائے ۱؎ گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15266)، مسند احمد 2/238، 449، 459، سنن الدارمی/الصلاة 38 (1281، 1282) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے مؤلف نے امام کے بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے، کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہو سکے گا، اور جب انہیں اس کا علم نہیں ہو سکے گا تو ان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.