سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے یہاں تک کہ وہ اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آ کر اس میں نماز پڑھے تو اس کے لیے عمرہ کے برابر ثواب ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة 197 (1412)، (تحفة الأشراف: 4657)، مسند احمد 3/487 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الحرام، ومسجدي هذا، ومسجد الاقصى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ثواب کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کے لیے سفر کیا جائے: ایک مسجد الحرام، دوسری میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، اور تیسری مسجد اقصی (بیت المقدس)“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضل الصلاة في مسجد مکة 1 (1189)، صحیح مسلم/الحج 95 (1397)، سنن ابی داود/الحج 98 (2033)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 13130)، مسند احمد 2/234، 238، 278، 501، سنن الدارمی/الصلاة 132 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ملازم، قال: حدثني عبد الله بن بدر، عن قيس بن طلق، عن ابيه طلق بن علي، قال: خرجنا وفدا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فبايعناه وصلينا معه واخبرناه ان بارضنا بيعة لنا فاستوهبناه من فضل طهوره، فدعا بماء، فتوضا وتمضمض ثم صبه في إداوة، وامرنا، فقال:" اخرجوا، فإذا اتيتم ارضكم فاكسروا بيعتكم وانضحوا مكانها بهذا الماء واتخذوها مسجدا". قلنا: إن البلد بعيد والحر شديد والماء ينشف، فقال:" مدوه من الماء، فإنه لا يزيده إلا طيبا"، فخرجنا حتى قدمنا بلدنا فكسرنا بيعتنا ثم نضحنا مكانها واتخذناها مسجدا فنادينا فيه بالاذان، قال: والراهب رجل من طيئ، فلما سمع الاذان، قال: دعوة حق، ثم استقبل تلعة من تلاعنا فلم نره بعد. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ مُلَازِمٍ، قال: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، قال: خَرَجْنَا وَفْدًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْنَاهُ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّ بِأَرْضِنَا بِيعَةً لَنَا فَاسْتَوْهَبْنَاهُ مِنْ فَضْلِ طَهُورِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّهُ فِي إِدَاوَةٍ، وَأَمَرَنَا، فَقَالَ:" اخْرُجُوا، فَإِذَا أَتَيْتُمْ أَرْضَكُمْ فَاكْسِرُوا بِيعَتَكُمْ وَانْضَحُوا مَكَانَهَا بِهَذَا الْمَاءِ وَاتَّخِذُوهَا مَسْجِدًا". قُلْنَا: إِنَّ الْبَلَدَ بَعِيدٌ وَالْحَرَّ شَدِيدٌ وَالْمَاءَ يَنْشُفُ، فَقَالَ:" مُدُّوهُ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَزِيدُهُ إِلَّا طِيبًا"، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا بَلَدَنَا فَكَسَرْنَا بِيعَتَنَا ثُمَّ نَضَحْنَا مَكَانَهَا وَاتَّخَذْنَاهَا مَسْجِدًا فَنَادَيْنَا فِيهِ بِالْأَذَانِ، قَالَ: وَالرَّاهِبُ رَجُلٌ مِنْ طَيِّئٍ، فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ، قَالَ: دَعْوَةُ حَقٍّ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ تَلْعَةً مِنْ تِلَاعِنَا فَلَمْ نَرَهُ بَعْدُ.
طلق بن علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وفد کی شکل میں نکلے، ہم نے آ کر آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور آپ کو بتایا کہ ہماری سر زمین میں ہمارا ایک گرجا گھر ہے، ہم نے آپ سے آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کی درخواست کی، تو آپ نے پانی منگوایا وضو کیا، اور کلی کی پھر اسے ایک برتن میں انڈیل دیا، اور ہمیں (جانے) کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جاؤ اور جب تم لوگ اپنے علاقے میں پہنچنا تو گرجا (کلیسا) کو توڑ ڈالنا، اور اس جگہ اس پانی کو چھڑک دینا اور اسے مسجد بنا لینا“، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارا ملک دور ہے، اور گرمی سخت ہے، پانی سوکھ جاتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور پانی ملا لیا کرنا کیونکہ تم جس قدر ملاؤ گے اس کی خوشبو بڑھتی جائے گی“ ؛ چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ اپنے ملک میں آ گئے، تو ہم نے گرجا کو توڑ ڈالا، پھر ہم نے اس جگہ پر یہ پانی چھڑکا اور اسے مسجد بنا لیا، پھر ہم نے اس میں اذان دی، اس گرجا کا راہب قبیلہ طے کا ایک آدمی تھا، جب اس نے اذان سنی تو کہا: یہ حق کی پکار ہے، پھر اس نے ہمارے ٹیلوں میں ایک ٹیلے کی طرف چلا گیا، اس کے بعد ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
(مرفوع) اخبرنا عمران بن موسى، قال: حدثنا عبد الوارث، عن ابي التياح، عن انس بن مالك، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل في عرض المدينة في حي يقال لهم: بنو عمرو بن عوف، فاقام فيهم اربع عشرة ليلة ثم ارسل إلى ملإ من بني النجار فجاءوا متقلدي سيوفهم، كاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته وابو بكر رضي الله عنه رديفه وملا من بني النجار حوله حتى القى بفناء ابي ايوب، وكان يصلي حيث ادركته الصلاة فيصلي في مرابض الغنم، ثم امر بالمسجد، فارسل إلى ملإ من بني النجار فجاءوا، فقال: يا بني النجار، ثامنوني بحائطكم هذا، قالوا: والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله عز وجل، قال انس: وكانت فيه قبور المشركين وكانت فيه خرب وكان فيه نخل فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبور المشركين فنبشت وبالنخل فقطعت وبالخرب فسويت فصفوا النخل قبلة المسجد وجعلوا عضادتيه الحجارة وجعلوا ينقلون الصخر وهم يرتجزون ورسول الله صلى الله عليه وسلم معهم وهم، يقولون:" اللهم لا خير إلا خير الآخرة فانصر الانصار والمهاجرة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فِي عُرْضِ الْمَدِيِنَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَدِيفَهُ وَمَلَأٌ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، وَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا، فَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا، قَالُوا: وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ أَنَسٌ: وَكَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَتْ فِيهِ خَرِبٌ وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَتْ وَبِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ، يَقُولُونَ:" اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَةِ فَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو اس کے ایک کنارے بنی عمرو بن عوف نامی ایک قبیلہ میں اترے، آپ نے ان میں چودہ دن تک قیام کیا، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلا بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، آپ ان کے ساتھ چلے گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنی نجار کے لوگ آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ ابوایوب رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اترے، جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں آپ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلوایا، وہ آئے تو آپ نے فرمایا: ”بنو نجار! تم مجھ سے اپنی اس زمین کی قیمت لے لو“، ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس میں مشرکین کی قبریں، کھنڈر اور کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، اور کھنڈرات ہموار کر دیئے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے درختوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب لائن میں رکھ دیا، اور چوکھٹ کے دونوں پٹ پتھر کے بنائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر ڈھوتے، اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے، وہ لوگ کہہ رہے تھے: اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے، انصار و مہاجرین کی تو مدد فرما۔
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر ڈالتے، اور جب دم گھٹنے لگتا تو چادر اپنے چہرہ سے ہٹا دیتے، اور اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا“۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا هشام بن عروة، قال: حدثني ابي، عن عائشة، ان ام حبيبة، وام سلمة ذكرتا كنيسة راتاها بالحبشة فيها تصاوير، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات، بنوا على قبره مسجدا، وصوروا تيك الصور، اولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَتَاهَا بِالْحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا تِيكِ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم دونوں نے ایک کنیسہ (گرجا گھر) کا ذکر کیا جسے ان دونوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کا کوئی صالح آدمی مرتا تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے، اور اس کی مورتیاں بنا کر رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس وقت بندہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف نکلتا ہے تو ایک قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اور دوسرے قدم پر ایک برائی مٹا دی جاتی ہے“۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا استاذنت امراة احدكم إلى المسجد فلا يمنعها". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت چاہے تو وہ اسے نہ روکے“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا يحيى، عن ابن جريج، قال: حدثنا عطاء، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اكل من هذه الشجرة، قال اول يوم: الثوم، ثم قال: الثوم والبصل والكراث، فلا يقربنا في مساجدنا، فإن الملائكة تتاذى مما يتاذى منه الإنس". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ: الثُّومِ، ثُمَّ قَالَ: الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ، فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اس درخت میں سے کھائے، پہلے دن آپ نے فرمایا لہسن میں سے، پھر فرمایا: لہسن، پیاز اور گندنا میں سے، تو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے، کیونکہ فرشتے بھی ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے انسان اذیت و تکلیف محسوس کرتا ہے“۔