Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب المساجد
کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
13. بَابُ : النِّهْىِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ، مَسَاجِدَ
باب: قبروں کو مساجد بنانے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 704
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَيُونُسَ، قَالَا: قال الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَائِشَةَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَا: لَمَّا نُزِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، قال وَهُوَ كَذَلِكَ" لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ".
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر ڈالتے، اور جب دم گھٹنے لگتا تو چادر اپنے چہرہ سے ہٹا دیتے، اور اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 55 (435)، أحادیث الأنبیاء 50 (3453)، المغازي 83 (4442، 4443)، اللباس 19 (5816)، والحدیث عند صحیح البخاری/الجنائز 61 (1330)، 95 (1390)، صحیح مسلم/المساجد 3 (531)، مسند احمد 1/218 و 6/34، 228، 275)، (تحفة الأشراف: 5842، 16310)، ویأتی عند المؤلف سنن الدارمی/الصلاة 120 (1443) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 704 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 704  
704 ۔ اردو حاشیہ:
➊ جب انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ (مسجدیں) بنانا قابل لعنت فعل ہے تو دیگر لوگوں کی قبروں کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا کب جائز ہو گا؟ اگلی روایت میں نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنانے کا ذکر ہے۔ گویا یہود و نصاریٰ نے انبیاء کی قبروں کو بھی اور صالحین کی قبروں کو بھی مسجدیں (عبادت گاہیں) بنا لیا تھا اور یوں وہ غیراللہ کی پوجا کرتے تھے، جیسے آج مسلمان کہلانے والا ایک فرقہ بھی اسی طریقے پر گامزن ہے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
➋ کسی معین فرد پر لعنت بھیجنا منع ہے مگر کسی وصف پر جائز ہے، مثلاً: اللہ چور پر لعنت کرے۔ قبروں کو مسجدیں بنانے والوں پر اللہ کی لعنت ہو، اسی طرح جس شخص کا کفر پر مرنا قطعی ہو، اس پر لعنت کرنا بھی جائز ہے، مثلاً: فرعون، ابوجہل لعنھم اللہ۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تپ محرقہ کی تیزی تھی، اس لیے گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی مگر اس وقت بھی تبلیغ سے غافل نہ ہوئے۔ صلی اللہ علیہ وسلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 704   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5816  
5816. سیدہ عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آخری مرض طاری ہوا تو آپ اپنی چادر (کملی) کو چہرے پر ڈالتے تھے اور سب سانس گھٹنے لگتا تو چہہ کھول دیتے آپ نے اسی حالت میں فرمایا: یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔ آپ ﷺ ان کے عمل بد سے مسلمانوں کو ڈرا رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5816]
حدیث حاشیہ:
یہود ونصاریٰ سے بڑھ کر کمبخت وہ مسلمان ہیں جنہوں نے بزرگوں اور درویشوں کی قبور کو مزین کر کے دکانوں کی شکل دے رکھی ہے اور وہاں لوگوں سے سجدہ کراتے ہیں اور عرض کرتے ہیں وہاں عرضیاں لٹکاتے نیازیں چڑھاتے ہیں۔
یہ لوگ قبر کے باہر سے یہ کام کرتے ہیں اور وہ بزرگ قبروں کے اندر سے ان پر لعنت بھیجتے ہیں کیونکہ یہ سب بزرگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش بردار اور آپ کی مرضی پر چلنے والے ہیں یہی قبروں کے پجاری عنداللہ مشرک اور ملعون ہیں خواہ یہ کیسے ہی نمازی وحاجی ہوں۔
ہرگز تو ازاں قو نباشی کہ فریبند حق را بہ سجودے ونبی را بہ درودے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5816   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:436  
436. حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھم سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ پر مرض الوفات میں نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ نے اپنی چادر کو بار بار اپنے چہرہ اقدس پر ڈالنا شروع کر دیا۔ جب گھٹن محسوس فرماتے تو اسے چہرے سے اتار دیتے۔ اسی حالت میں آپ نے فرمایا: یہودونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ اس طرح آپ امت کو یہودونصاریٰ کے (مشرکانہ) افعال سے خبردار کر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:436]
حدیث حاشیہ:

قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور انھیں عبادت گاہ بنانا افراط ہے اور ان کی بے حرمتی کرنا انھیں بلا وجہ اکھاڑنا تفریط ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے افراط و تفریط سے منع فرمایا ہے۔
ان احادیث میں قبروں کے متعلق یہود و نصاری کے افراط کو بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ان احادیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا، کیونکہ یہ پہلے باب کا نتیجہ یا تکملہ ہے۔
احادیث میں قدر مشترک یہ ہے کہ قبروں کو مساجدکا درجہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ اس فعل کی شناعت بیان کرتے ہیں کہ یہ فعل انتہائی قابل مذمت ہے، خواہ ان میں تصاویر رکھی جائیں یا تصاویر کے بغیرہوں۔
(فتح الباری: 689/1)
عنوان ذکر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہود ونصاری کی عبادت گاہوں میں نماز کی کراہت اس وجہ سے ہے کہ وہاں مجسمے اور تصاویر ہوتی ہیں، بصورت دیگر اصل کے اعتبار سے تو ہر جگہ نماز جائز ہے، ممانعت کی اصل وجہ منکرات اور خلاف شرع امور کا پایا جانا ہے۔
اس بنا پر یہ ممانعت یہود ونصاریٰ کے عبادت خانوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ اگر مسلمانوں کی مساجد میں بھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو ان میں بھی نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہ ہو گا، مثلاً:
کسی مسجد میں نمایاں طور پر قبر کو برقرار رکھا گیا ہو۔
گویا امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مساجد میں قبروں کو باقی رکھنا ایسا ہی سے جیسے یہود ونصاری کے عبادت خانوں میں تصاویر کا پایا جانا۔
چنانچہ ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے:
(باب كراهية الصلاة في المساجد التي فيها القبور)
ایسی مساجد میں نمازپڑھنا مکروہ ہے جن میں قبروں کو برقرار رکھا گیا ہو۔

پہلی حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس میں مشرکانہ عمل کے لیے یہود ونصاری دونوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے اصل مجرم تو یہودی ہیں نصاری نے کسی نبی کی قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنایا کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا تھا اور ان کی قبر بنانے کی نوبت ہی نہیں آئی اور ان کے بعد رسول اللہ ﷺ تک کوئی اور نبی بھی نہیں آیا تو ان حالات میں انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے جرم میں نصاری کو یہود کے ساتھ شریک کرنا چہ معنی وارد؟ اس کی متعدد توجیہات حسب ذیل ہیں۔
عیسیٰ ؑ کے بعد نبی توآئے تھے، لیکن وہ رسول نہ تھے۔
جیسا کہ حواربیین میں سے بعض اس کام کے لیے مامور کیے گئے تھے جن کا تذکرہ سوریٰس آیات 13تا18میں ہے۔
اس لیے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا الزام ان پر براہ راست بھی عائد ہو سکتا ہے۔
حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کبار اتباع بھی مراد ہیں۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث نمبر434 میں جب نصاریٰ کا بطور خاص ذکر ہوا تو وہاں کسی نیک بندے کی قبر کو سجدہ گاہ بنانے کا حوالہ دیا گیااور جب حدیث نمبر436 میں یہود کو بطور خاص بیان کیا گیا تو انبیاء کی قبروں کو سجدہ گا ہ بنانے کا تذکرہ ہوا ہے۔
اگرچہ اس کام کے موجود یہودی تھے، لیکن نصاریٰ نے اس فعل بد کا برابر اتباع کیا، لہٰذا اس لعنت میں دونوں شریک ہو گئے۔
یہودی ابتداع (پہلے پہل یہ کام کرنے)
کے طور پر اور عیسائی اتباع (یہود کی پیروی)
کے طور پر(فتح الباری: 689/1)

ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث اس وقت بیان فرمائی ہو جب آپ کے سامنے حضرت اُم سلمہ ؒ اور اُم حبیبہ ؒ نے سر زمین حبشہ پر کنیسہ ماریہ کے متعلق اپنے چشم دیدواقعات بیان کیے ہیں جن کا ذکر اس سے قبل حدیث 434 میں ہوا ہے اور مرض وفات میں آپ کو قرائن و آثار یا بذریعہ وحی معلوم ہوگیا ہو کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت بھی قریب آپہنچا ہے تو آپ نے امت کو تنبیہ فرمائی کہ میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا پاٹ ہو نے لگے۔
(مسند احمد: 246/2)
آپ نے اس وقت یہ حدیث بھی ازراہ احتیاط بیان فرمائی کہ مبادا آپ کی قبر کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔
لیکن دور حاضر کے نام نہاد مسلمانوں پر افسوس کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی آخری خواہش کا احترام کرنے کے بجائے اس کی خلاف ورزی میں مصروف ہیں اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ اور اس کے ذمہ داران کوا اپنے ہاں جزائے خیر دے کہ وہ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک پر غیر شرعی کام کرنے سے روکتے ہیں، اس سے بڑھ کر یہ بات افسوس ناک ہے کہ بدعتی حضرات کی طرف سے یہ مطالبہ سننے میں آرہا ہے کہ مدینہ منورہ کو کھلا شہر قراردیا جائے تاکہ یہ لوگ اپنی مرضی سے وہاں بدعات و خرافات کورواج دے سکیں 4۔
اس حدیث کی روشنی میں ہم عام مسلمانوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج اکثر یت حدیث نبوی کی مخالفت پر کمر بستہ ہے مثلاً رسول اللہ ﷺ نے قبور انبیاء پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا، مگر مسلمان قبروں پر عبادت کرنے کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر عمارت کھڑی کرنے سے منع فرمایا، لیکن مسلمان ان پر مزارات اور خانقاہیں تعمیر کرتے ہیں اور انھیں دربار کا نام دیتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر چراغاں کرنے سے منع فرمایا، لیکن مسلمان قبروں پر قمقموں اور روشنیوں کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا مگر یہ حضرات ماربل اور چینی کی ٹائلیں لگا کر انھیں پختہ کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا، مگر ہمارے رواجی مسلمان قرآنی آیات پر مشتمل کتبے آویزاں کرتے ہیں اور صاحب قبر کا نام کندہ کراتے ہیں، بلکہ آج تو بیت اللہ کی طرح بعض قبروں کا طواف اور وہاں"مناسک حج " ادا کیے جاتے ہیں۔
(هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالى)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 436   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3454  
3454. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا: جب رسول اللہ ﷺ پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر بار بار ڈال لیتے، جب گھبراہٹ محسوس ہوتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اسی حالت میں فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ اس بیان سے اپنی امت کو ان کے فعل شنیع (برے کام) سے بچانا چاہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3454]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بنی اسرائیل یہودونصاریٰ کا ایک کردار بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنے انبیاء ؑ اور صالحین کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
میری قبر پر اس طرح جمگھٹانہ کرنا اور اس پر جشن کا ساسماں نہ پیدا کرنا جبکہ علامہ حالی نے کہا ہے۔
بنانانہ تربت کو میری صنم تم۔
افسوس! نام نہاد مسلمانوں نے قبروں اور مزاروں کے ساتھ وہی کچھ کردکھایا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا اور حدیث میں جس طرح خطرے کا اظہار کیا تھا اس کے مطابق عمل کرکے اپنی تباہی کا سامان پیدا کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3454   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4444  
4444. حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو آپ اپنے چہرے پر چادر ڈالتے تھے۔ پھر جب سانس گھٹنے لگتا تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے۔ پھر اسی حالت میں آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی یہودونصارٰی پر لعنت فرمائے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ اپنی امت کو اس (فعل) سے ڈراتے تھے جو یہود و نصارٰی نے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4444]
حدیث حاشیہ:
یہود ونصاری اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو سجدہ کرتے اور ان کی تعظیم شان کے لیے انھیں قبلہ بناتے تھے اس لیے مسلمانوں کو اس کام سے روکا گیا۔
چنانچہ ایک حدیث میں اس امر کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت اُم حبیبہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اس میں مورتیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان لوگوں کا طریقہ تھا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس میں مورتیاں رکھ دیتے۔
قیامت کے دن اللہ کے ہاں یہ لوگ پوری مخلوق سے بدتر ہوں گے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 434)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4444   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5816  
5816. سیدہ عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آخری مرض طاری ہوا تو آپ اپنی چادر (کملی) کو چہرے پر ڈالتے تھے اور سب سانس گھٹنے لگتا تو چہہ کھول دیتے آپ نے اسی حالت میں فرمایا: یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔ آپ ﷺ ان کے عمل بد سے مسلمانوں کو ڈرا رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5816]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہمارے ہاں مسلمانوں کی ایک ایسی قسم بھی دستیاب ہے جنہوں نے یہودونصاریٰ کی طرح بزرگوں کی قبروں کو مزین کر کے دکانوں کی شکل دے رکھی ہے، وہاں لوگوں سے سجدے کراتے، عرضیاں لٹکاتے اور نیازیں چڑھاتے ہیں۔
یہ لوگ تو قبر پر اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں اور قبر کے اندر بزرگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔
یہ لوگ اللہ کے ہاں ملعون ہیں، خواہ وہ حاجی اور نمازی ہی کیوں نہ ہوں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے "خميصه" یعنی سیاہ نقش و نگار والا کمبل ثابت کیا ہے کہ اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آخری وقت میں اپنے اوپر اوڑھا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5816