(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يتحر احدكم فيصلي عند طلوع الشمس وعند غروبها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَتَحَرَّ أَحَدُكُمْ فَيُصَلِّيَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے“۔
(مرفوع) اخبرنا حميد بن مسعدة، قال: حدثنا سفيان وهو ابن حبيب، عن موسى بن علي، عن ابيه، قال: سمعت عقبة بن عامر، يقول:" ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا ان نصلي فيهن او نقبر فيهن موتانا: حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل، وحين تضيف للغروب حتى تغرب". (مرفوع) أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهُوَ ابْنُ حَبِيبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ:" ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ، وَحِينَ تَضَيَّفُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ تین اوقات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے، یا اپنے مردوں کو قبر میں دفنانے سے منع فرماتے تھے: ایک جس وقت سورج نکل رہا ہو، یہاں تک کہ بلند ہو جائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو یہاں تک کہ ڈوب جائے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک، اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف یہ فرمایا ہے: ”سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت تم اپنی نماز کا ارادہ نہ کرو، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 53 (833)، (تحفة الأشراف: 16158)، مسند احمد 6/ 124، 255 (کلاھما بدون قولہ ’’فإنھا…‘‘ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ فجر اور عصر کے بعد مطلقاً نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، یہ صحیح نہیں بلکہ ممانعت اس بات کی ہے کہ آدمی نماز کے لیے ان دونوں وقتوں کو خاص کر لے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ ان دونوں وقتوں میں نماز پڑھنا اولیٰ و انسب ہے، یا یہ ممانعت سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کے وقت کے ساتھ خاص ہے نہ کہ عصر اور فجر کے بعد مطلقاً، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلقاً ہے کیونکہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں علی الاطلاق ممانعت وارد ہے، اور بعض روایات میں جو تقیید ہے وہ اطلاق کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی ہیں، نووی نے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ تحری والی روایت اس بات پر محمول ہو گی کہ فرض نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو جائے، اور مطلقاً ممانعت والی روایت ان صلاتوں پر محمول ہو گی جو سببی نہیں ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا هشام بن عروة، قال: اخبرني ابي، قال: اخبرني ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا طلع حاجب الشمس فاخروا الصلاة حتى تشرق، وإذا غاب حاجب الشمس فاخروا الصلاة حتى تغرب". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قال: أَخْبَرَنِي أَبِي، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تُشْرِقَ، وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغْرُبَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز کو مؤخر کرو، یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 30 (582)، بدء الخلق 11 (3272)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (829)، موطا امام مالک/القرآن 10 (45) (مرسلاً)، مسند احمد 2/13، 19، 24، 106، (تحفة الأشراف: 7322) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: انبانا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا الليث بن سعد، قال: حدثنا معاوية بن صالح، قال: اخبرني ابو يحيى سليم بن عامر، وضمرة بن حبيب، وابو طلحة نعيم بن زياد، قالوا: سمعنا ابا امامة الباهلي، يقول: سمعت عمرو بن عبسة، يقول: يا رسول الله، هل من ساعة اقرب من الاخرى او هل من ساعة يبتغى ذكرها؟ قال:" نعم، إن اقرب ما يكون الرب عز وجل من العبد جوف الليل الآخر، فإن استطعت ان تكون ممن يذكر الله عز وجل في تلك الساعة فكن، فإن الصلاة محضورة مشهودة إلى طلوع الشمس، فإنها تطلع بين قرني الشيطان، وهي ساعة صلاة الكفار فدع الصلاة حتى ترتفع قيد رمح ويذهب شعاعها، ثم الصلاة محضورة مشهودة حتى تعتدل الشمس اعتدال الرمح بنصف النهار، فإنها ساعة تفتح فيها ابواب جهنم وتسجر فدع الصلاة حتى يفيء الفيء، ثم الصلاة محضورة مشهودة حتى تغيب الشمس فإنها تغيب بين قرني شيطان وهي صلاة الكفار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قال: أَنْبَأَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبُو يَحْيَى سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، وَضَمْرَةُ بْنُ حَبِيبٍ، وَأَبُو طَلْحَةَ نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالُوا: سَمِعْنَا أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ، يقول: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ مِنَ الْأُخْرَى أَوْ هَلْ مِنْ سَاعَةٍ يُبْتَغَى ذِكْرُهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، إِنَّ أَقْرَبَ مَا يَكُونُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْعَبْدِ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرَ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، وَهِيَ سَاعَةُ صَلَاةِ الْكُفَّارِ فَدَعِ الصَّلَاةَ حَتَّى تَرْتَفِعَ قِيدَ رُمْحٍ وَيَذْهَبَ شُعَاعُهَا، ثُمَّ الصَّلَاةُ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ حَتَّى تَعْتَدِلَ الشَّمْسُ اعْتِدَالَ الرُّمْحِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَتُسْجَرُ فَدَعِ الصَّلَاةَ حَتَّى يَفِيءَ الْفَيْءُ، ثُمَّ الصَّلَاةُ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغِيبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَهِيَ صَلَاةُ الْكُفَّارِ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہوتا ہو، یا کوئی ایسا وقت ہے جس میں اللہ کا ذکر مطلوب ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ عزوجل بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت اللہ عزوجل کو یاد کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ہو جاؤ، کیونکہ فجر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور سورج نکلنے تک رہتے ہیں، (پھر چلے جاتے ہیں) کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اور یہ کافروں کی نماز کا وقت ہے، لہٰذا (اس وقت) تم نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ سورج نیزہ کے برابر بلند ہو جائے، اور اس کی شعاع جاتی رہے پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر میں سورج نیزہ کی طرح سیدھا ہو جائے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہ ایسا وقت ہے جس میں جہنم کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور وہ بھڑکائی جاتی ہے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ سایہ لوٹنے لگ جائے، پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، کیونکہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے“۔